-->

صحیح حدیث کے مطابق دوستی و دشمنی کا معیار


 
شیخ حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 30۔ 

´دوستی اور دشمنی کا معیار`

« . . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ - وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتكْمل الْإِيمَان». رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .»

. . . سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ ہی کے لیے محبت کی اور اللہ ہی کے لیے دشمنی رکھی اور جس کو کچھ دیا اللہ ہی کے لیے دیا اور نہیں دیا تو اللہ ہی کے لیے نہیں دیا (یعنی ان سب کاموں کو اللہ ہی کی رضا جوئی کے لیے کیا ہے۔) تو اس نے ایمان کو کامل کر لیا ہے۔“ اس حدیث کو ترمذی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 30]

 

تحقیق الحدیث: 

اس روایت کی سند حسن (لذاتہ) ہے۔

اسے طبرانی نے بھی المعجم الکبیر میں «يحييٰ بن الحارث عن القاسم عن أبى أمامة رضي الله عنه» کی سند سے روایت کیا ہے۔ [8؍208 ح7737]

یحییٰ بن الحارث الذماری: ثقہ ہیں، دیکھئے: [تقريب التهذيب 7522]

قاسم بن عبدالرحمٰن ابوعبدالرحمٰن الدمشقی صاحب ابی امامہ: صدوق حسن الحدیث ہیں، جمہور محدثین نے انہیں ثقہ، صدوق وحسن الحدیث قرار دیا ہے۔

 

توثیق وتعریف کرنے والوں کے نام مع حوالہ درج ذیل ہیں:

یحییٰ بن معین [رواية الدوري: 5120، سوالات ابن الجنيد: 514، 571]

ترمذي [428، 2347]

یعقوب بن سفیان الفارسی [المعرفة والتاريخ 2؍456]

بخاری [سنن ترمذي: 3195، 2731 و علل الترمذي الكبير 1؍512]

عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر [التاريخ الكبير للبخاري159/7 وسنده قوي، البخاري بري من التدليس]

ابن شاہین [الثقات: 1150]

العجلی [التاريخ: 1505 قال: ”شامي تابعى ثقة يكتب حديثه وليس بالقوي“]

یعنی وہ سعید بن جبیر وغیرہ کی طرح القوی نہیں ہیں بلکہ عجلی کے نزدیک حسن الحدیث ہیں۔

الحاکم [المستدرك 83/2 صحح له]

الذہبی [الكاشف 337/2 وقال: ”صدوق“]

البوصیری [صح له فى زوائد ابن ماجه: 1597 ووثقه]

المنذری [دیکھئے مسند أحمد 261/5 ح 22603 و الموسوعة الحديثيه 586/36 ح 22248 / الترغيب والترهيب للمنذري 3؍99 ح 3046]

الٰہیثمی [ديكهئے المعجم الكبير 8؍279 ح 7913 ومجمع الزوائد 4؍33]

ابن حجر العسقلانی [تقريب التهذيب: 5470 وقال: ”صدوق يغرب كثيرا“ ثقه وصدوق عند الجمهور]،

راوی پر «يغرب كثيرا» کوئی جرح قادح نہیں ہے۔

 

ان کے علاوہ درج ذیل علماء سے بھی توثیق وتعریف مروی ہے:

ابوحاتم الرازی، یعقوب بن شیبہ، ابواسحاق الحربی اور ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی۔ ديكهئے: [تهذيب الكمال، نسخه مصغره 74/6 وتهذيب التهذيب 8؍318، 319]

 

قاسم مذکور پر درج ذیل علماء سے جرح مروی ہے:

أحمد بن حنبل، الغلابی، العقیلی، ابن الجوزی، ابن حبان اور زیلعی [نصب الرايه 1؍69]

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہیں، لہٰذا حسن الحدیث ہیں۔

 

تنبیہ:

حافظ ھیثمی لکھتے ہیں:

«وهو ضعيف عند الأكثرين»

اور وہ (قاسم ابوعبدالرحمٰن) جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ [مجمع الزوائد 1؍96]

یہ قول تین وجہ سے غلط ہے:

تحقیق کے بعد یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ قاسم مذکور جمہور کے نزدیک موثق ہیں۔

حافظ ہیثمی بذات خود انہیں ثقہ کہتے ہیں: «كما تقدم آنفا» ۔

عینی حنفی نے کہا: «والقاسم بن عبدالرحمٰن وثقه الجمهور وضعفه بعضهم» [عمدة القاري 7؍146 ح1103]

 

فقہ الحدیث

ثابت ہوا کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے۔ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے، لہٰذا مرجیہ کا عقیدہ باطل ہے۔

اپنا مال و دولت صرف انہی مصارف پر خرچ کرنا چاہئے جو کتاب و سنت کے مطابق ہیں۔

کتاب و سنت کے مخالف کاموں پر اپنا مال و دولت کبھی خرچ نہیں کرنا چاہئیے ورنہ ایمان میں کمی واقع ہو جائے گی۔

اہل بدعت اور مجرمین سے بغض رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔

ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے اللہ کے لئے محبت کرنا بڑی فضیلت والا عمل ہے۔

   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 30  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اس حدیث مبارکہ کو شیخ البانی اور شیخ شعیب الارنوؤط رحمتہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے اور مجلس علمی دار الدعوۃ، دھلی والوں نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ البتہ شیخ زبیر علی زئی رح نے اسکو حسن لذاتہ قرار دیا ہے، انکی تحقیق اوپر نقل کی گئی ہے۔

یہ روایت سنن ابو داؤد، مشکواۃ المصابیح اور المعجم الاوسط طبرانی میں آئی ہے۔ (حوالہ جات ساتھ منسلک تصویر میں موجود ہیں)۔

اسے شيخ الباني نے سلسلة الاحاديث صحيحة ميں 380 نمبر په نقل كيا هے۔

اسے امام ابن ابي شيبه نے مصنف ابن ابی شیبہ میں 34730 نمبر پہ روایت کیا ہے۔

اسے امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں جلد 17، صفحہ 167-168، رقم 2053 اور جلد 34، صفحہ 64، رقم 3700 پہ روایت کیا ہے۔

تحقیق وطالب دعا: ڈاکٹر شہزاد احمد آرائیں۔