-->

آمین بلجھر سے متعلق ایک روایت کی تحقیق

 

(آمین بلجھر کے متعلق ایک روایت کی تحقیق)

عطاء کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ اور انکے پیچھے سب اماموں کو آمین کہتے اور انکے پیچھے کھڑے لوگوں کو بھی آمین کہتے ہوئے سنا ہے، یہاں تک کے مسجد گونج پڑتی۔
كنت أسمع الأئمة ابن الزبير ومن بعده يقولون آمين ومن خلفهم آمين حتى أن للمسجد للجة۔

مسند امام شافعی سے اسکی سند مندرجہ ذیل ہے:

أخبرنا مسلم بن خالد، عن ابن جريج، عن عطاء قال:

مسند امام شافعی: رقم 217۔
سنن الکبری للبیھقی: رقم 2492۔
المهذب في اختصار السنن الكبير للذھبی: رقم 2208۔
تغلیق التعلیق لابن حجر عسقلانی: جلد 2 صفحہ 318۔


امام نبوی نے  خلاصة الأحكام میں اس روایت کو امام شافعی سے نقل کیا ہے اور کہا کہ اسکی سند صحیح یا حسن ہے۔
 (خلاصة الأحكام: جلد 1 صفحہ 381 رقم 1193)۔

 

مگر میری تحقیق میں یہ سند ضعیف ہے۔ اس سند میں دو علتیں ہیں۔ اول تو یہ کہ ابن جریج تدلیس میں مشھور معروف ہے اور اس میں اس نے سماع کا زکر نہیں کیا یعنی عنعنہ ہے۔دوئم یہکہ مسلم بن خالد متکلم فی راوی ہے۔ اسکو کثرت سے اوھام ہوا کرتے تھے کثرت سے غلطیاں کیا کرتا تھا، امام بخاری اور امام علی بن مدینی نے اسے منکر الحدیث بھی قرار دیا ہے۔

اس سند کو محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ (جامع تراث العلامة الألباني في الفقه: جلد 4 صفحہ 72)۔

اسی روایت کو امام عبد الرزاق نے اپنی سند سے روایت کیا ہے
 اور انہوں نے مسلم بن خالد کی اس میں متابعت کی ہے اور ابن جریج سے خود اسکو روایت کیا ہے۔ سند یوں ہے:
عبد الرزاق، عن ابن جريج، عن عطاء قال: قلت له: أكان ابن الزبير يؤمن على إثر أم القرآن؟ قال: «نعم، ويؤمن من وراءه حتى أن للمسجد للجة»، ثم قال: «إنما آمين دعاء» وكان أبو هريرة يدخل المسجد وقد قام الإمام قبله، فيقول: «لا تسبقني بآمين»

ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے دریافت کیا: کیا حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد آمین کہتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اور جو انکے پیچھے ہوتے تھے وہ بھی آمین کہتے تھے یہاں تک کہ مسجد میں گونج پیدا ہوجاتی تھی پھر انہوں نے فرمایا کہ آمین ایک دعا ہے۔ حضرت ابو ھریرۃ مسجد میں داخل ہوتے تھے اور امام انکے آگے کھڑا ہوچکا ہوتا تھا اور تو آپؓ فرماتے کہ تم مجھ سے پہلے آمین نہ کہنا۔
مصنف عبد الرزاق: رقم 2640،صحیح۔

اس روایت کو امام بخاری نے
باب جهر الإمام بالتأمين کے نیچے تعلیقا روایت کی ہے اور کوئی سند نقل نہیں کی۔ مگر صحیح بخاری کی شرح میں امام ابن حجر عسقلانی نے اسے امام عبد الرزاق کی سند سے اسے نقل کیا ہے۔ (فتح الباری لابن حجر العسقلانی: جلد 2 صفحہ 262)۔
اور محدث العصر شیخ ناصر الدین البانیؒ نے بھی اسکی یہی سند اور روایت نقل کی ہے اور اسکی تصحیح کی ہے۔ (مختصر صحیح البخاری: جلد 1 صفحہ 244)
اس سند میں مسلم بن خالد کی متابعت امام عبد الرزاق سے ہو چکی ہے اور ابن جریج کی سماع کی تصریح اس میں بھی کردی ہے۔ لہذا یہ سند صحیح ہے۔


امام عبد الرزاقؓ اسے کچھ اختلاف کے ساتھ مقطوعا بھی روایت کرتے ہیں کہ:
عبد الرزاق، عن ابن جريج قال: قلت لعطاء: آمين؟ قال: «لا أدعها أبدا» قال: إثر أم القرآن في المكتوبة والتطوع؟ قال: «ولقد كنت أسمع الأئمة يقولون على إثر أم القرآن آمين، هم أنفسهم ومن وراءهم حتى أن للمسجد للجة»
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ: آمین (کا کیا حکم ہے؟) انہوں نے جواب دیا کہ میں اسے کبھی ترک نہیں کرونگا۔ ابن جریج نے پوچھا: سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ فرض نماز میں کہی جائے گی یا نفلی نماز میں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے آئمہ کو سورۃ الفاتحہ کے بعد آمین کہتے ہوئے سنا ہے، آئمہ خود بھی اور انکے پیچھے موجود لوگ بھی یہاں تک کہ مسجد میں گونج پیدا ہوجاتی تھی۔
(مصنف عبد الرزاق: رقم: 2643، صحیح)
اس روایت کو شیخ امام ناصر الدین البانیؒ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ (جامع تراث العلامة الألباني في الفقه: جلد 4 صفحہ 73)۔

لہزا اس مختصر سی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ مسند امام شافعیؒ کی سند میں ضعف ہے مگر اسکی متابعت اور شاہد میں دیگر صحیح روایات موجود ہیں، جن سے تقویت پاکر وہ روایت بھی صحیح ہوجاتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

 

تحریر و تحقیق:  شہزاد احمد آرائیں

مورخہ: 2023/04/04۔