اے محمد اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا تخلیق نہ کرتا - تاریخ دمشق کی روایت کی تحقیق
اے محمد اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا تخلیق نہ کرتا - تاریخ دمشق کی روایت کی تحقیق
وَلَقَدْ قَرَنْتُ
اسْمَكَ مَعَ اسْمِي، فَلا أُذْكَرُ فِي مَوْضِعٍ حَتَّى تُذْكَرَ مَعِي، وَلَقَدْ
خَلَقْتُ الدُّنْيَا وَأَهْلَهَا لأُعَرِّفَهُمْ كَرَامَتَكَ، وَزَادَ يُوسُفُ:
عَلَيَّ، وَقَالَ: وَمَنْزِلَتَكَ عِنْدِي، وَلَوْلاكَ يَا مُحَمَّدُ مَا خَلَقْتُ
الدُّنْيَا۔ - {تاريخ دمشق لابن عساكر (٢٠٧٣) - [٦:٣٢٦]{
اور میں نے آپ کا نام
اپنے نام کے ساتھ جوڑ دیا، اس لیے جب تک آپ کا ذکر میرے ساتھ نہ کیا جائے میرا
کہیں ذکر نہیں ہوتا اور میں نے دنیا اور اس کے رہنے والوں کو اس لیے پیدا کیا ہے
کہ ان پر آپ کی عزت اور میرے نزدیک آپ کا مقام ہو۔ اور اے محمد اگر آپ نہ ہوتے تو میں
دنیا تخلیق نہ کرتا۔
تاریخ دمشق میں اس
روایت کی سند یہ ہے:
[٨٠١] أخبرنا أبو يعقوب يوسف بن
أيوب بن يوسف بن الحسين بن وهرة الهمذاني بمرو نا السيد أبو المعالي محمد بن محمد
بن زيد الحسيني إملاء بأصبهان وأخبرنا أبو محمد بن طاووس أنا أبو القاسم بن أبي
العلاء قالا أنا أبو القاسم عبد الرحمن بن عبيد الله بن عبد الله السمسار أنا حمزة
بن محمد الدهقان نا محمد بن عيسى بن حبان المدائني نا محمد بن الصباح أنا علي بن
الحسين الكوفي عن إبراهيم بن اليسع عن أبي العباس الضرير عن الخليل بن مرة عن يحيى
عن زاذان عن سلمان قال حضرت النبي )صلى الله عليه وسلم(
یہ روایت
ضعیف جدا موضوع روایت ہے۔
1۔ اس میں محمد بن عیسی بن حبان
المدائنی ضعیف راوی ہے۔ اسے امام حاکم نے متروک قرار دیا ہے۔ امام دارقطنی نے علل
میں ضعیف کہا ہے اور پھر الضعفاء المتروکین میں اسکو متروک کہا ہے اور ایک بار یہ
بھی کہا کہ یہ کوئی شے نہیں ہے۔ اسے امام برقاني نے ثقه کہا ہے اور امام ابن حبان
ن ثقات میں شمار کیا ہے۔ اور امام الكلائي نے ضعيف كہا ہے۔
)لسان الميزان: جلد 5،
صفحه 333، رقم 1104(
2۔ اس میں علی بن حسین الکوفی
اور وہ ابراہیم بن الیسع سے روایت کررہے ہیں اور یہ دونو مجھول ہیں۔
3۔ اسكے علاوه اس ميں خليل بن
مرة الضبعي البصري ضعيف هے، اسے امام عقيلی نے ضعفاء میں زکر کیا ہے اور
امام ابو حاتم الرازی نے کہا کہ یہ حدیث میں قوی نہیں ہے اور امام ابن حبان نے
ضعفاء مین زکر کیا ہے۔ امام نسائی، امام یحیی بن معین اور امام ابن حجر عسقلانی نے
ضعیف قرار دیا ہے۔ امام بخاری نے فیہ نظر کہا اور کہا کہ یہ مناکیر بیان
کرتا ہے۔ امام عجلی نے ضعیف متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ امام ابن جارود، الساجی اور
برقانی نے ضعفاء میں زکر کیا ہے۔ جرجانی نے اسے متروک الحدیث کہا ہے۔
)تهذيب التهذيب: جلد 3،
صفحه 169، رقم 319(
اس کے علاوہ اس روایت کو امام ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں نقل کرکے اسے موضوع قرار
دیا اور کہا کہ اس کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اسکی سند میں ضعفاء اور
مجھولین ہیں۔ ابو السکین اور ابراہیم اور یحیی البصری ضعیف ہیں، امام دارقطنی نے
بھی انہیں ضعیف قرار دیا ہے، اور یحیی البصری متروک ہے، امام احمد بن حنبل نے کہا
کہ یحیی البصری کی حدیث کو جلایا جائے، اور امام الفلاس نے کہا کہ یہ کذاب تھا اور
موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ امام دارقطنی متروک کہتے ہیں۔ )الموضوعات لابن الجوزي:
جلد 1، صفحہ 289(
اور اس روایت کو امام
جلال الدین سیوطی نے بھی نقل کرکے موضوع قرار دیا ہے۔ اور کہا کہ اس میں ابو
السکین اور ابراہیم اور یحیی البصری ضعیف و متروک ہیں، اور فلاس نے کہا کہ یحیی
کذاب ہے اور موضوعات بیان کرتا ہے۔ )اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة: جلد 1، صفحہ 249(
اسکے علاوہ بھی اسے عرب
کے محدث اعظم شیخ ناصر الدین البانیؒ نے موضوع قرار دیا ہے۔ )سلسلة الأحاديث الضعيفة
والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة: جلد 1، صفحہ 450، رقم 282(
اور شیخ محمد أحمد عبد
القادر الشنقيطي المدني اپنی کتاب تنبيه الحذاق على بطلان ما شاع بين الأنام من
حديث النور المنسوب لمصنف عبد الرزاق صفحہ 25 پہ لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام ابن
جوزی نے موضوع نے قرار دیا ہے اور امام ابن حجر عسلانی اور امام جلال الدین سیوطی
نے انکی موافقت کی ہے۔
تحریر و تحقیق: شہزاد
احمد آرائیں۔
Post a Comment