-->

سیدنا زید بن ارقمؓ کے قول کے مقابلے میں ابراہیم النخعیؒ کا قول

 ﴿سیدنا زید بن ارقمؓ کے قول کہ سیدنا علی المرتضیؑ اول مسلمان کے مقابلے میں ابراہیم النخعی کا قول﴾

امام ابو بکر ابن ابی شیبہؒ (المتوفی 235ھ) لکھتے ہیں:

حدثنا غندر (حدثنا) شعبة عن عمرو بن مرة عن أبي حمزة عن زيد بن أرقم قال: ‌أول ‌من ‌أسلم ‌مع ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب۔

سیدنا زید بن ارقمؓ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺکے ساتھ سب سے پہلے اسلام لانے والے مولا علی بن ابی طالبؑ ہیں۔

(قال): فذكرت ذلك (للنخعي) فأنكره، وقال: أبو بكر أول من أسلم مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم-

کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعیؒ سے اسکا زکر کیا گیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے پہلے اسلام سیدنا ابو بکرؓ لائے ہیں۔

(المصنف ابن أبي شيبة - ت الشثري: جلد 20 صفحہ 164 رقم 38656 و 35657)

(المصنف ابن أبي شيبة - ت الحوت: جلد 7 صفحہ 263 رقم 35910)

ابراہیم النخعیؒ کے قول کو کتاب کے محقق شیخ ناصر بن عبد العزیز الشثری مرسل قرار دیتے ہیں کیونکہ ابراہیم النخعیؒ تابعی ہیں۔

کتاب کے محقق شیخ الشثری کا سیدنا زید بن ارقمؓ کے قول کو شاذ قرار دینا انکی خطا ہے کیونکہ انہوں شاذ کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اکثر روایات سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے متعلق ہے جبکہ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ جمھور آئمہ اہل سنت انکے درمیان تطبیق دیتے ہیں اور سیدنا علی المرتضیؑ کے اول مسلم ہونے کا انکار نہیں کرتے۔

اس روایت کو امام ابو عبد اللہ الحاکم النیشاپوریؒ (المتوفی 405ھ) امام بخاری و مسلم کی شرط پہ لاتے ہیں اور امام ذھبیؒ (المتوفی 748ه) بھی اسے صحیح قرار دیتے ہیں (المستدرک للحاکم: جلد 3 صفحہ 147 رقم 4663)۔

شیخ سعید حویؒ (المتوفی 1409ھ) بھی اسے صحیح کہتے ہیں (الأساس في السنة وفقهها - السيرة النبوية: جلد 4 صفحہ 1692 رقم 1663)

امام ترمذیؒ (المتوفی 279ھ) اسے حسن صحیح قرار دیتے ہیں (سنن الترمذی: رقم 3735)

سنن الترمذی کی تحکیم میں دور حاضر کے دو بڑے محدثین شیخ ناصر الدین البانیؒ اور شیخ زبیر علی زئیؒ اس روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

لہزا معلوم ہوا کہ آئمہ اور محققین کے نزدیک یہ روایت بلکل صحیح ہے اور اس کو شاذ کہنے میں محقق شیخ الشثریؒ کی خطاء ہے۔ اور تابعی ابراہیم النخعیؒ کا قول صحابی سیدنا زید بن ارقمؓ کے قول کے خلاف ہونے کی وجہ سے ویسے ہی شاذ ہے۔ اسکو یہاں دلیل بنایا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ صحابی کے مقابلے میں تابعی کا قول حجت نہیں ہوتا۔

تحریر: شہزاد احمد آرائیں۔