-->

امام احمد بن حنبل کا حدیث عمار پہ حکم

 

﴿امام احمد بن حنبلؒ کا حدیث عمارؓ پہ حکم﴾

 

جب حدیث عمار کے خلاف نواصب کی دیگر چالیں ناکام ہوتی ہیں تو وہ لوگ امام احمد بن حنبلؒ کے ایک غیر معروف قول کو بنیاد بنا کر حدیث عمار کو ضعیف قرار دیتے ہیں، تو طلباء کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوجاتے ہیں کہ اگر حدیث عمار واقعی اتنی قوی حدیث تھی تو پھر امام احمد بن حنبلؒ اسکو صحیح کیوں نہیں کہتے تھے۔ اس تحریر میں ہم اسی چیز کا جائزہ لیتے ہیں:

 

امام ابن قدامہ المقدسیؒ (المتوفی 620ھ) امام ابو بکر الخلالؒ کی کتاب کا اختصار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أخبرنا إسماعيل الصفار قال: سمعت أبا أمية محمد بن إبراهيم يقول: سمعت في حلقة أحمد بن حنبل، ويحيى بن معين، وأبي خيثمة، والمعيطي، وذكروا: "تقتل عمارا الفئة الباغية".

فقالوا: ما فيه حديث صحيح.

سمعت عبد الله بن إبراهيم قال: سمعت أبي يقول: سمعت أحمد بن حنبل يقول: روي في عمار: "‌تقتله ‌الفئة ‌الباغية" ثمانية وعشرون حديثا، ‌ليس ‌فيها ‌حديث ‌صحيح

 

ابو امیہ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل، امام یحیی بن معین، امام ابی خیثمہ، اور المعیطی کے خلقے میں سنا، کہ انہوں نے "عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا" کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: اس میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔

(دوسری طرق سے) امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں: سیدنا عمارؓ کے متعلق "کہ انہیں باغی گروہ قتل کرے گا" اٹھائیس احادیث روایت کی گئی ہیں، جن میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔

(المنتخب من علل الخلال: جلد 1 صفحہ 222 رقم 131)

 

اس قول کو بنیاد بنا کر نواصب یہ دعوی کرتے ہیں کہ حدیث عمار تو ہے ہی ضعیف، تو پھر امیر شام کو اس بنیاد پہ باغی نہیں کہا جاسکتا۔

 

اسکا جواب یہ ہے کہ یہ موقف تو امام احمد بن حنبلؒ کا پہلا موقف تھا، بعد میں وہ اس سے رجوع کر گئے تھے، اسکے علاوہ آئمہ اہل سنت نے امام احمد بن حنبلؒ سے مروی اس قول کو ہی غیر معروف قرار دیا ہے۔ اور انکے دوسرے قول کو جس میں وہ حدیث عمار کی نہ صرف تصحیح کرتے ہیں بلکہ اس سے حجت بھی پکڑتے ہیں اسے اصح قرار دیا ہے۔ اور اصول حدیث پہ تو یہ دونو اسناد ہی ضعیف ہیں اگرچہ ہم یہاں دیگر آئمہ کی طرح ان اقوال پہ اصول حدیث لاگو نہیں کررہے۔ لہزا

 

اسی قول کو من و عن نقل کرنے کے بعد امام ابن رجب الحنبلیؒ (المتوفی 795ھ) لکھتے ہیں:

وهذا الإسناد غير معروف، وقد روي عن أحمد خلاف هذا:

قال يعقوب بن شيبة الدسوسي في ((مسند عمار)) من ((مسنده)) : سمعت أحمد بن حنبل سئل عن حديث النبي - صلى الله عليه وسلم - في عمار: ((تقتلك الفئة الباغية)) فقال أحمد: كما قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((قتلته الفئة الباغية)) . وقال: في هذا غير حديث صحيح، عن النبي - صلى الله عليه وسلم -، وكره أن يتكلم في هذا بأكثر من هذا۔

 

اور یہ اسناد غیر معروف ہیں، اور امام احمد بن حنبلؒ سے اسکے خلاف روایت کیا گیا ہے:

امام یعقوب بن شیبہ الدسوسیؒ اپنی مسند میں "مسند عمار" میں کہتے ہیں: میں نے امام احمد بن حنبلؒ کو سنا جب ان سے نبی اکرم ﷺ کی سیدنا عمارؓ کے متعلق حدیث کہ "انہیں باغی گروہ قتل کرے گا" کے متعلق پوچھا گیا۔ تو امام احمد بن حنبلؒ نے کہا: جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ویسے ہی انہیں باغی گروہ نے قتل کردیا۔ اور کہا: اور اس میں نبی اکرم ﷺ سے اور بھی صحیح احادیث موجود ہیں۔ اور انہوں نے اس میں اس سے زیادہ بات کرنا ناپسند کیا۔

(فتح الباري لابن رجب: جلد 3 صفحہ 310)

 

اس سے صاف معلوم ہوا کہ امام ابن رجب الحنبلیؒ کے مطابق حدیث عمار کو صحیح نہ کہنے والا قول امام احمد بن حنبلؒ سے غیر معروف ہے، اور انکا معروف اور اصح قول یہی ہے کہ وہ حدیث عمار کی تصحیح کرتے ہیں اور اس سے حجت پکڑتے ہوئے سیدنا عمارؓ کی شہادت کو باغی گروہ کے ہاتھوں ہی قرار دیتے ہیں۔

 

اسی طرح امام ابن تیمیہؒ (المتوفی 728ھ) لکھتے ہیں:

‌والحديث ‌ثابت ‌في ‌الصحيحين، ‌وقد ‌صححه ‌أحمد ‌بن ‌حنبل وغيره من الأئمة، وإن كان قد روي عنه أنه ضعفه، فآخر الأمرين منه تصحيحه

 

اور یہ حدیث (عمار) صحیحین میں ثابت ہے، اور اسے امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر آئمہ کرام نے صحیح قرار دیا ہے، اگرچہ ان سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، مگر ان دونو میں سے انکا آخری موقف اسکی تصحیح کرنا ہے۔

(منهاج السنة النبوية: جلد 4 صفحہ 414)

 

امام ابن تیمیہؒ کی تصریح سے یہ بات بلکل واضع ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ نے آخر میں اپنے پہلے موقف سے رجوع کرلیا تھا اور پھر حدیث عمار کے صحیح ہونے کا علم ہوا وہ اسکے بعد وہ حدیث عمار کی تصحیح کرتے تھے۔ جیسا کہ خود انہوں نے کہا کہ اس کے متعلق کئی صحیح احادیث موجود ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے یہاں تو وہ بیان نہیں کی البتہ ہم اسے انکی کتاب مسند احمد میں مروی حدیث عمار کے مختلف طرق کی طرف اشارہ سمجھ سکتے ہیں۔ تو اسطرح یہ بھی سمجھا جاسکتا کہ وہ طرق بھی جو صحیح ہیں انکی تصحیح بھی امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے اس دوسرے قول میں اشارتا کردی ہے۔

 

اسی طرح پہلی روایت میں جو دیگر آئمہ محدثین اس حلقے میں موجود تھے، جنکے سامنے حدیث عمارؓ کی تضعیف کی تھی، ان میں امام یحیی بن معینؒ کے متعلق بھی امام ابن رجب الحنبلیؒ امام احمد بن حنبلؒ کا دوسرا موقف لکھنے بعد ان کا موقف لکھتے ہیں کہ:

 

وقال الحاكم في ((تاريخ نيسابور)) : سمعت أبا عيسى محمد بن عيسى العارض - وأثنى عليه - يقول: سمعت صالح بن محمد الحافظ - يعني: جزرة - يقول: سمعت يحيى بن معين وعلي بن المديني يصححان حديث الحسن، عن أمه، عن أم سلمة: ((تقتل عمارا الفئة الباغية))

وقد فسر الحسن البصري الفئة الباغية بأهل الشام: معاوية وأصحابه.

وقال أحمد: لا أتكلم في هذا، السكوت عنه أسلم

 

امام حاکمؒ نے "تاریخ نیشاپور" میں کہا: ۔۔۔ صالح بن محمد الحافظ یعنی جزرۃ کہتے ہیں: میں نے امام یحیی بن معینؒ اور امام علی بن مدینیؒ کو امام حسن بصری کی اپنی والدہ کے طرق سے سیدہ ام سلمہؓ کی حدیث کہ "عمارؓ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا" کی تصحیح کرتے سنا ہے، اور امام حسن بصریؓ باغی گروہ کی تشریح اہل شام معاویہ اور اسکے اصحاب سے کی ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے کہا: میں اس کے متعلق کلام نہیں کرتا، اس پہ خاموش رہنا زیادہ محفوظ ہے۔

(فتح الباري لابن رجب: جلد 3 صفحہ 310 و 311)

 

اس سے معلوم ہوا کہ امام یحیی بن معینؒ بھی حدیث عمار کو صحیح مانتے تھے، اور اس طرق کو صحیح مانتے تھے جو امام حسن بصریؓ کا طرق ہے اور اس میں امام حسن بصریؓ کی اپنی تصریح موجود ہے کہ باغی گروہ اہل شام یعنی معاویہ اور اسکے ساتھی ہیں۔ لہزا اس طرق کو صحیح قرار دینا بمع امام حسن بصری کے قول کے، صاف واضع ہے کہ امام یحیی بن معینؒ اور امام علی بن مدینیؒ بھی حدیث عمارؓ سے حجت پکڑتے تھے۔

 

لہزا اس قول سے نواصب کا اعتراض مردود ثابت ہوا اور یہ ثابت ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ کا تضعیف کا قول قدیم ہے، اور انکا جدید قول وہ ہے جس میں انہوں نے تضعیف کے قول سے رجوع کیا ہے اور حدیث عمار کی تصحیح بھی کی ہے اور اس سے حجت بھی پکڑی ہے۔ لہزا نواصب جو پہلے قول سے حجت پکڑ رہے تھے انکو بھی چاہیے کہ وہ بھی کم از کم شرم کے باعث ہی حق کی طرف رجوع کرلیں۔ بصورت دیگر سوائے اسکے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ: شرم تمکو مگر نہیں آتی۔

 

واسلام۔

از قلم ناچیز: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں