کیا امیر شام نے مولا علی ع کی خلافت کا اعتراف قاتلین عثمان کے بدلے کرنا چاہا تھا؟
کیا امیر شام نے مولا علی ع کی خلافت کا اعتراف قاتلین عثمان کے بدلے کرنا چاہا تھا؟
نواصب ایک روایت پیش کرکے اس سے استدلال کرتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ امیر شام نے تو اعتراف کیا تھا کہ وہ نہ تو مولا کائنات علی ع سے افضل
ہیں اور ناہی وہ خلافت میں ان کے مخالف ہیں بلکہ وہ تو صرف قاتلین عثمان کا مطالبہ
کررہے تھے؟
يحيى بن سليمان الجعفى رحمہ اللہ (المتوفی238) نے کہا:
قال الجعفي: حدثنا يعلى بن عبيد، عن أبيه، قال: جاء أبو
مسلم الخولاني وأناس إلى معاوية، وقالوا: أنت تنازع عليا، أم أنت مثله؟ فقال: لا
والله، إني لأعلم أنه أفضل مني، وأحق بالأمر مني، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل
مظلوما، وأنا ابن عمه، والطالب بدمه، فائتوه، فقولوا له، فليدفع إلي قتلة عثمان،
وأسلم له. فأتوا عليا، فكلموه، فلم يدفعهم إليه.
ابومسلم الخولانی اور کئی حضرات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
کے پاس آئے اور ان سے کہا: آپ علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے ہیں یا خود کو ان کی
طرح سمجھتے ہیں ؟ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ! اللہ کی قسم ! مجھے پتہ
ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے افضل ہیں ، اور خلافت کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں ،
لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ عثمان رضی اللہ عنہ مظلومانہ قتل کئے گئے ، اور میں ان
کا چچازاد بھائی ہوں اور ان کے خون کا طالب ہوں ، لہٰذا تم لوگ علی رضی اللہ عنہ
کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ قاتلین عثمان کو میرے حوالے کردیں میں ان کی خلافت
تسلیم کرلیتاہوں ۔ پھر یہ حضرات علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سے بات کی لیکن
علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان کو امیر معاویہ کے حوالے نہیں کیا۔
) سير أعلام النبلاء للذهبي:
جلد 3 صفحہ 140(
اول تو یہ کہ نواصب کی جانب سے اس روایت کو مکمل پیش بھی
نہیں کیا جاتا، یہ روایت مزید اضافے کے ساتھ بھی مروی ہے جسے نواصب و خوارج چھپا لیتے
ہیں تاکہ عوام کو گمراہ کرسکیں اور آگے کی بات کہ یہ مطالبہ کیوں تسلیم نہ کیا گیا،
عوام الناس کو نہ بیان کرسکیں۔ ھم اس حصے کو بھی ساتھ نقل کرتے ہیں اور پھر ھم اس
کی صحت اور اس سے حاصل ہونے والے استدلال پہ بات کریں گے۔
یہی روایت امام ابن حجر عسقلانیؒ نقل کرتے ہیں تو کیسے نقل کرتے ہیں ملاحظہ کیجیے۔
وقد ذكر
يحيى بن سليمان الجعفي أحد شيوخ البخاري في كتاب صفين في تأليفه بسند جيد عن أبي
مسلم الخولاني أنه قال لمعاوية أنت تنازع عليا في الخلافة أو أنت مثله قال لا وإني
لأعلم أنه أفضل مني وأحق بالأمر ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما وأنا بن
عمه ووليه أطلب بدمه فأتوا عليا فقولوا له يدفع لنا قتلة عثمان فأتوه فكلموه فقال
يدخل في البيعة ويحاكمهم إلي فامتنع معاوية فسار علي في الجيوش من العراق حتى نزل
بصفين وسار معاوية حتى نزل هناك وذلك في ذي الحجة سنة ست وثلاثين فتراسلوا فلم يتم
لهم أمر فوقع القتال إلى أن قتل من الفريقين
اور یحیی بن سلیمان الجعفی جو امام بخاری کے شیوخ میں سے
ہیں کتاب صفین میں جید سند سے ابی مسلم الخولانی سے زکر کرتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ
سے کہا: کیا آپ خلافت میں علیؑ سے جھگڑ رہے ہیں یا ان جیسے ہیں؟ امیر شام معاویہ
نے کہا: نہیں، میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت میں زیادہ حقدار ہیں،
کیا تم نہیں جانتے کہ عثمانؓ کو مظلومانہ قتل کیا گیا تھا؟ اور میں انکا چچا زاد
اور ولی ہوں اور انکا خون (قصاص) مانگ رہا ہوں؟ وہ علیؑ کے پاس آئے اور کہا کہ
عثمانؓ کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں۔ چناچہ وہ علی کے پاس گئے اور انہوں نے اس
سے بات کی اور کہا “وہ (معاویہ) بیعت میں داخل ہوجائیں اور مجھ سے انکا فیصلہ لے لیں۔
لیکن معاویہ نے انکار کردیا۔چناچہ علیؑ عراق سے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک
کہ وہ صفین میں اتر گئے اور معاویہ نے بھی کوچ کیا یہاں تک وہ بھی وہاں اتر گئے، یہ
چھتیس ہجری کا ذوالحجہ تھا اور انہوں نے خط و کتابت کی یہاں تک کہ کوئی بات پوری
نہ ہوئی۔ چناچہ لڑائی ہوئی یہاں تک دونو فریقین میں سے ایک مارا جائے۔
)فتح الباری لاابن حجر
عسقلانی: جلد 13 صفحہ 86(
اس روایت کی اسنادی حیثیت پہ ھم اس تحریر کے آخر میں تفصیل بحث کریں گے۔ پہلے اس سے استدلال کرنے والے کو الزامی جواب دیتے ہیں کہ:
یہ پوری روایت جس سے نواصب دھوکہ دیتے ہیں کہ معاویہ کو
امارت کیا لالچ نہیں تھی وہ تو بس قاتلین کو مانگ رہے تھے؟ اگر ایسا تھا تو جب
مولا علیؑ نے ان کو کہا کہ بیعت کرکے مجھ سے فیصلہ لے لیں تو وہ انکاری کیوں ہوئے؟
فیصلہ خلیفہ وقت اور قاضی نے کرنا ہوتا ہے یا خود ہی مدعی خود ہی قاضی اور خود ہی
جلاد بن کر فیصلہ کیا جاتا ہے؟ مزید اس روایت سے یہ بھی واضع ہوگیا کہ امیر شام
معاویہ بن ابی سفیان مولا علیؑ کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے تھے، اگر وہ خلیفہ تسلیم
کرتے ہوتے تو ان سے جھگڑتے کیوں اور ان کی بیعت سے انکاری کیوں ہوتے؟ اور انکا یہ
کہنا کہ خلافت میں مجھ سے زیادہ حقدار ہین تو حقیقت بھی تو یہی تھی، اسکے انکاری
ہوکر انہوں نے قرآن کا انکار کرنا تھا، جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ:
لَا يَسْتَوِىْ مِنْكُمْ مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ
وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ
وَقَاتَلُوا
)الحديد، 57 : 10(
تم میں
سے جن لوگوں نے فتحِ (مکّہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں اپنا مال) خرچ کیا اور قتال
کیا وہ برابر نہیں ہوسکتے اُن لوگوں سے درجہ میں بہت بلند ہیں جنہوں نے بعد میں
مال خرچ کیا ہے، اور قتال کیا ہے۔
مزید
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
لَا يَسْتَوِىْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ
وَاَصْحٰبُ الْجَـنَّةِۗ اَصْحٰبُ الْجَـنَّةِ هُمُ الْفَاۤٮٕزُوْنَ
)الحشر 59: 20(
دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں
ہو سکتے جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔
اس
معاملے میں آیت کی تفسیر میں حدیث عمار بھی بیان جاسکتی ہے جس نے جنتی اور جہنم کی
طرف بلانے والے گروہوں کی واضع تفریق کردی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
افسوس!
عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت
عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔ (صحیح بخاری: 447،
2812 متفق علیہ متواتر)
لہزا اصل بات یہ نہیں تھی کہ وہ مولا علیؑ کو خلافت کا
حقدار سمجھتے تھے یا نہیں، حقیقت تو یہی ہے کہ وہ خلیفۃ الرسول ﷺ کی بیعت سے انکاری
ہی رہے انکو خلیفہ تسلیم نہیں کیا۔ اور قاتلین کی نشاندہی کے بغیر، گواہان کے بغیر،
خلیفہ کی بیعت کیے بغیر سارے کے سارے محاصرین کے حصول کا مطالبہ کرنا بلکل غلط اور
بےبنیاد تھا، اگر یہ اپنے مطالبے میں سچے ہوتے تو مولا علیؑ کی اتباع کرتے اور
انکے سامنے فیصلہ پیش کرتے جس سے انہوں نے انکار کیا اور خلیفہ راشد کے خلاف قتال
کیا۔ ویسے بھی معاویہ بن ابی سفیان پہ مولا علیؑ کی اتباع کرنا قرآنی حکم تھا جسکی
نفی کی گئی تھی:
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ:
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ
الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ
رَّضِىَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ
تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا ۗ ذٰلِكَ الْـفَوْزُ الْعَظِيْمُ
)التوبہ 9: 100(
اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے
جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے
والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے
جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ
رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔
اور اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا
اَطِيْـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْـعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ
كُنْـتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَـوْمِ الْاٰخِرِ ۗ ذٰلِكَ خَيْرٌ
وَّاَحْسَنُ تَأْوِيْلًا
)النساء 4: 59(
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی
فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز
میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے
دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے۔
لہزا چاہیے تو یہی تھا کہ وہ مولا علی کی بیعت میں داخل
ہوتے اور انکے پاس فیصلہ لاتے مگر انہوں نے مولا علیؑ ہی کے خلاف قتال کیا۔ اور ایسے
مطالبے رکھے جو کہ غیر شرعی تھے۔ نواصب کا یہ کہنا کہ وه قاتلین کے خون کا مطالبہ
کررہے تھے تو سرے سے انکا حق بنتا ہی نہیں تھا، اول حق تو انکے قریبی خاندان والوں
کا تھا اور عینی شاہدین کا تھا، جیسا کہ انکی بیوی سیدہ نائلہ رضی اللہ عنہ سیدنا
عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت انکے ساتھ تھی، انہوں نے کوئی قاتل نامزد نہیں
کیے؟ سیدنا عثمان کی اپنی اولاد نے کوئی قاتلین نامزد کرکے مطالبہ نہیں کیا تو
جناب معاویہ کیوں؟ صاف ظاہر ہے کہ انکی گورنری اب سلامت نہیں رہی تھی اور خلیفہ
وقت سیدنا مولا علیؑ نے انکو معزول کردیا تھا۔ اگر جناب معاویہ کو سیدنا عثمانؓ سے
اتنی ہی ھمدری اور انکا اتنا ہی غم تھا تو جب وہ محاصرے میں تھے تب کیونکر وہ مدد
کو نہ آئے؟
مزید ھم
دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں قصاص کے کیا احکام آئے ہیں اور انکے نزدیک قصاص کے اولین
طالب کون ہوسکتے تھے؟
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِىْ
حَرَّمَ اللّـٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا
لِـوَلِـيِّـهٖ سُلْطَانًا فَلَا يُسْـرِفْ فِّى الْقَتْلِ ۖ اِنَّهٝ
كَانَ مَنْصُوْرًا
)الاسراء 17: 33(
اور جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کر دیا ہے اسے ناحق
قتل نہ کرنا، اور جو کوئی ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کے واسطے اختیار دے
دیا ہے لہٰذا قصاص میں زیادتی نہ کرے، بے شک اس کی مدد کی گئی ہے۔
مقتول کے ولی کون ہوتے ہیں جنہیں قصاص کا خون بہا لینے کا
اختیار ہوتا ہے؟ اسکی نشاندھی بھی قرآن پاک میں اللہ تعالی نے کردی ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ
يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَـــٔا ۚ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـــٔا
فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ
اِلَّاۤ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا ۗ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّـكُمْ وَهُوَ
مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۗ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۢ
بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ
تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ
مُتَتَابِعَيْنِۖ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا
)النساء 4: 92(
کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے،
الا یہ کہ اُس سے چوک ہو جائے، اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا
کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے اور مقتول
کے وارثوں کو خونبہا دے، الا یہ کہ وہ خونبہا معاف کر دیں لیکن اگر وہ مسلمان
مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام
آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی غیرمسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جائے گا اور ایک
مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو مہینے کے روزے
رکھے یہ اِس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و دانا ہے۔
مزکورہ بالا آیت میں مقتول کا ولی اسکا وارث ہوتا ہے اس
کا تعین کردیا گیا ہے، مقتول کے ورثاء میں کون کون شامل ہوتا ہے اس کا تعین بھی
قرآن پاک میں ہی سورۃ النساء کی شروعاتی آیات 11 اور 12 میں کردیا گیا ہے۔ جناب
معاویہ بن ابی سفیان ان میں سے کسی بھی فہرست میں نہیں آتے۔ جو حقیقی وارثین اور
ولی تھے انہوں نے ایسی نہ تو شرائط رکھی اور ناہی قاتل نامزد کیے اور ناہی خلیفہ
وقت کے یہاں مقدمہ کیا۔
اب ھم اس روایت کی اسنادی حیثیت پہ بات کرتے ہیں۔
اول تو یہ کہ اسکی سند منقطع ہے، نواصب صرف راویوں کو ثقہ
دیکھ کر اس پہ صحیح کا حکم لگا دیتے ہیں جبکہ وہ اس روایت کے متصل ہونے یا منقطع
ہونے کا بلکل خیال نہیں کرتے۔
اس روایت کی سند یہ ہے:
قال الجعفي: حدثنا يعلى بن عبيد، عن أبيه، قال: جاء أبو
مسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سند کے تمام راوی صدوق یا ثقہ ہیں۔ مگر اسکی سند میں انقطاع یعلی بن عبید کے والد کی جانب سے ہے: یعلی بن عبید کے والد أبو الفضل عبيد بن أبي مية الطنافسي کا ابو مسلم الخولانی سے سماع اور ملاقات نہیں ہے اور عبید نے کوئی واسطہ زکر نہیں کیا اور بلاواسطہ روایت بیان کردی ہے۔ آئمہ میں سے کسی نے بھی ابو مسلم الخولانی کے تلامذہ میں ابو الفضل عبید بن ابی میة الطنافسی کا ذکر نہیں کیا اور ناہی عبید کے اساتذہ میں کسی نے ابو مسلم الخولانی کا زکر کیا ہے۔
امام ابن حجر عسقلانیؒ کو اس سند کو جید کہنے میں تسامح
ہوا ہے، کیونکہ انہوں نے خود ہی اس راوی کو اپنی کتاب تقریب التھذیب میں چھٹے طبقے
میں رکھا ہے۔
٤٣٦٠- عبيد ابن أبي أمية
[الطنافسي] الحنفي أو الإيادي أبو الفضل اللحام الكوفي والد يعلى وأخويه صدوق من
السادسة بخ ت
)تقریب التھذیب: رقم 4360(
اور اپنی
کتاب کے مقدمے میں وہ خود ہی وضاحت کرتے ہیں کہ چھٹا طبقہ انکا ہے جو ہیں تو پانچویں
طبقے کے معاصرین تو ہیں مگر انکا صحابہؓ میں سے کسی سے بھی ملاقات یا سماع ثابت نہیں
هے۔
السادسة: طبقة عاصروا الخامسة، لكن لم يثبت لهم لقاء احد من الصحابة كابن
جريج
)تقريب التهذيب: صفحه 82(
چھٹا طبقہ: جو پانچویں طبقے کے ھم عصر تو ہیں، لیکن انکی
کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں۔
اور امام ذھبی سیر اعلام النبلاء میں ابو مسلم الخولانی
کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
وقد قال المفضل بن غسان الغلابي: إن علقمة، وأبا مسلم ماتا في سنة اثنتين
وستين.
)سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 4 صفحہ 14(
اور فضل بن غسان الغلابی کہتے ہیں: عقلمہ اور ابو مسلم کا
انتقال سن باسٹھ ہجری میں ہوا۔
لہزا ایسا شخص جس کی کسی صحابی سے ملاقات ہونا ممکن نہ ہو
جبکہ سب سے آخری صحابی سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ نے وفات سن 110ھ
میں فرمائی ہے، یہ سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی ہیں، جس شخص کا ان سے بھی
سماع اور ملاقات نہ ہو وہ بھلا کسطرح اس شخص سے ملاقات کرسکتا ہے جسکی وفات ہی جلیل
القدر صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوگئی ہو؟
مزید یہ
کسی بھی محدث نے عبید بن ابی امیۃ الطنافسی کی سن ولادت اور سن وفات زکر نہیں کی
اور ناہی اسکی عمر زکر کی ہے، لہزا ھم اس کی اولاد کی سن پیدائش سے اسکے دور کا تعین
بھی کرسکتے ہیں کہ اسکے دو بیٹوں کی سن ولادت منقول ہے اور ایک بیٹے کی سن ولادت غیر
منقول ہے۔
پہلا بیٹا یعلی بن عبید بن ابی امیة الطنافسی سن 117ھ میں
پیدا ہوا، اور دوسرا بیٹا محمد بن عبید بن ابی امیۃ الطنافسی سن 127ھ میں پیدا ہوا
ہے۔ لہزا یہ کسطرح ممکن ہے کہ ایک شخص اس شخص سے روایت زکر کرے جسکی وفات کے ساٹھ
سال بعد جاکر اسکی اولاد ہورہی ہو؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔
دوئم یہکہ
ان دونو کے طبقات بھی بہت فرق ہے اور انکے شہر بھی مختلف ہیں، ابو مسلم الخولانی
شامی تھے اور عبید بن ابی امیة کوفی تھے۔ یوں بھی انکی ملاقات اور سماع ممکن نہیں۔
لہزا نواصب کا اس روایت سے کسی بھی طرح احتجاج درست نہیں، کیونکہ اسکی روایت منقطع ہے اور ضعیف ہے مزید یہکہ اس سے نواصب کے تمام استدلال بھی باطل ہیں۔ اللہ انکو عقل سلیم اور ہدایت
نصیب کرے کہ انہوں نے اہل بیتؑ رسول مقبول ﷺ کو چھوڑ کر انکے دشمنان کو اپنا رفیق
بنا لیا ہے۔
Post a Comment