قبر آخرت کی پہلی منزل اور موت سے آخرت کا آغاز - قسط دوئم
﴿قبر آخرت کی پہلی منزل اور موت سے ہی آخرت
کا آغاز﴾
قسط نمبر 2۔
پچھلی قسط میں ہم نے قرآن کی آیت مبارکہ سے ثابت کیا
تھا کہ قبر آخرت کا ہی حصہ ہے، لہزا یہ کہنا کہ قبر آخرت سے جدا ہے اور اس کا عذاب
دراصل آخرت کے عذاب سے بچاتا ہے، سراسر گمراہی ہے۔ جسکے جواب میں موصوف نے کوئی رد
نہیں لکھا اور ناہی اپنی گمراہی اور غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے رجوع کیا۔ اسی ظمن میں
ہم اب چند احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں اور اپنا مقدمہ مزید مضبوط طریقے سے قائم
کرتے ہیں کہ قبر آخرت کا ہی حصہ ہے اور قبر کا عذاب آخرت کا عذاب ہے اور قبر میں
جو پھنس گیا اسکی آخرت برباد ہوچکی الہ یہکہ اللہ کی رحمت اور رسول اللہ ﷺ کی
شفاعت اسکے حق میں قائم ہوجائے، واللہ اعلم بالصواب۔
حدثنا محمد بن إسحاق , حدثني يحيى بن معين , حدثنا
هشام بن يوسف , عن عبد الله بن بحير , عن هانئ مولى عثمان , قال: كان عثمان بن
عفان إذا وقف على قبر يبكي حتى يبل لحيته , فقيل له: تذكر الجنة والنار , ولا تبكي
وتبكي من هذا , قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إن القبر اول
منازل الآخرة , فإن نجا منه فما بعده ايسر منه , وإن لم ينج منه فما بعده اشد
منه" , قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما رايت منظرا قط إلا
والقبر افظع منه".
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی،
ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ
کر روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں
آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت
ہیں“، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے کبھی قبر سے
زیادہ ہولناک کوئی چیز نہیں دیکھی“۔
(سنن ابن ماجہ: 4267، سنن ترمذی: 2308، المستدرك
للحاكم: 1373، فضائل صحابه لاحمد بن حنبل: 773، مسند البزار: 444، السنة لعبد الله
بن أحمد: 1425، فضائل عثمان بن عفان لعبد الله بن أحمد: 63، اثبات عذاب قبر
للبيهقي: 39، 222)
اس روايت كو امام ترمذى نے حسن غریب قرار دیا ہے،
امام حاکم اسے بخاری و مسلم کی شرط پہ لائے ہیں۔ سنن ابن ماجہ كی تحكيم ميں شيخ ناصر
الدين البانی، شيخ زبیر علی زئی اور شیخ شعیب الارنووط تینوں نے اسکو حسن قرار دیا
ہے۔ اس روایت کو امام زین الدین عراقی نے صحیح الاسناد قرار دیا ہے (تخريج
أحاديث الإحياء: صفحہ 673)۔
اس حدیث مبارکہ سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں:
1۔ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔
2۔ جو قبر کے عذاب سے نجات پا گیا اسکی آگے کی مزلیں
بھی آسان ہوجائیں۔
3۔ جو قبر کے عذاب میں گرفتار ہوگیا اسکی آگے کی منزلیں
مزید دشوار ہوجائیں گی۔
لہزا اس میں ان موصوف کی اس بات کا بھی رد ہے کہ عذاب
قبر سے گناہوں کی صفائی ہوتی ہے تاکہ آخرت میں عذاب نہ ہو۔ نواصب کا یہ نظریہ حدیث
رسول اللہ ﷺ کے بلکل متضاد ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ آگے کی منزلیں مزید
دشوار ہونگی جبکہ ان موصوف کا دعوی ہے کہ آگے کی منزلوں میں رہائی ہوجائے گی۔
اسی طرح ہمیں سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی
ایک زوجہ حضرت صفیہ بنت ابی عبید رض جو کہ کبائر ثقہ تابعیات میں سے ہیں، انہوں نے
جب اپنا وصال کا وقت کو قریب دیکھا تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام
بھیجا:
اني في آخر يوم من ايام الدنيا واول يوم من الآخرة
بےشک میں دنیا کے ایام میں آخری دن میں ہوں اور آخرت
کے پہلے دن میں ہوں۔
(سنن نسائی: رقم 589)
اس روایت کی سند حسن ہیں۔ اسکے راوی کثیر بن قاروندا
کو امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے، امام ابن حجر عسقلانی نے مقبول قرار دیا ہے،
امام ذھبی نے انکے لیے وثق کا کلمہ استعمال کیا ہے یعنی انکے نزدیک بھی انکی توثیق
معتبر ہے۔ امام حاکم نے انکو آئمہ ثقات کی فہرست میں شمار کیا ہے جنکی روایات کو
حفظ، انکا مطالعہ، ان سے برکت لینے اور مشرق و مغرب میں زکر کیا جاتا ہے (معرفۃ
العلوم الحدیث للحاکم: صفحہ 245)۔ امام ابن حجر عسقلانی کی
تقریب التھذیب پہ شیخ شعیب الارنووط اور شیخ بشار عواد اپنی تحقیق تحریر تقریب
التھذیب میں کہتے ہیں کہ یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے، اس سے ثقات کی ایک جماعت نے
روایت کیا ہے اور امام ابن حبان نے ثقات میں زکر کیا ہے اور کسی قسم کی کوئی جرح
مروی نہیں ہے (تحریر تقریب التھذیب: جلد 3 صفحہ 194 رقم 5622)۔ انکو شیخ
حسین سلیم اسد نے بھی ثقہ قرار دیا ہے (مسند ابی یعلی: 1131) اور شیخ
سعید بن محمد النساری نے صدوق قرار دیا ہے (مسند ابی
یعلی: 1131)۔ اسے امام ابن عدی اور امام ابن قیسرانی نے عزیز
الحدیث قرار دیا ہے (ذخیرۃ الحفاظ: جلد 3 صفحہ 1238 رقم 2655، الکمال فی
ضعفاء الرجال: جلد 7 صفحہ 130)۔
اسکے علاوہ مندرہ بالا حدیث کو شیخ محمد ناصر الدین
البانیؒ نے اور شیخ شعیب الارنووط نے حسن قرار دیا اور شیخ زبیر علی زئی سے دو تحکیم
ملتی ہیں ایک صحیح کی اور ایک ضعیف کی، شیخ زبیر علی زئی نے اپنی کتاب انوار الصحیفہ
فی الاحادیث الضعیفہ میں اسکی اسناد کو ضعیف قرار دیا کثیر بن قاروندا پہ مجھول
الحال ہونے کی جرح کرکے اور دوسری جگہ سنن نسائی کی تحکیم میں اسکو صحیح قرار دیا
اور کثیر بن قاروندا کی توثیق کے اقوال نقل کیے اور اسکا شاہد سنن نسائی 596 بھی
نقل کیا، لہزا انکی تحکیم بھی ہمارے مطابق صحیح کی ہی درست ہے۔
مندرجہ بالا ساری بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت
سندا حسن ہے اور اس روایت کے ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی موت سے ہی اسکی
آخرت شروع ہوجاتی ہے اور موت کا دن دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہوتا ہے۔
ایسا ہی قول ام المومنین سیدہ عائشہ سلام اللہ علیہ
سے بھی مروی ہے کہ آپؓ فرماتی ہیں:
فجمع
الله بين ريقي وريقه في آخر يوم من الدنيا، واول يوم من الآخرة
چناچہ
اللہ تعالی نے میرے اور آپﷺ کے لعاب کو دنیا کے آخری دن میں اور آخرت کے پہلے دن میں
جمع فرما دیا۔ (صحیح بخاری: 4451)
سيدنا براء بن عاذبؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا:
إن العبد المؤمن إذا كان في انقطاع من الدنيا
وإقبال من الآخرة
بندہ مومن جب دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور آخرت کی طرف
روانہ ہوتا ہے۔
(مسند احمد: 18534، مصنف ابن ابی شیبہ: 12432، مشکواۃ
المصابیح: 1630)
اسکو شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ نے، شیخ زبیر علی
زئی نے اور شیخ شعیب الارنووط تینوں نے صحیح قرار دیا ہے۔ مصنف ابن ابي شيبه كے
محقق سعد بن ناصر الشثری نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مزيد اسے امام بيهقی نے بھی
صحیح الاسناد قرار دیا ہے (شعب الایمان: 395) اعمش نے
سماع کی تصریح المستدرک الحاکم اور مسند احمد میں اس سے اگلی روایت میں کردی ہے
اور امام حاکم اس روایت کو شیخین کی شرائط پہ صحیح قرار دیتے ہیں
(المستدرک الحاکم: 107)۔
اسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ:
عن عائشة
، قالت: " كنت اسمع انه لن يموت نبي حتى يخير بين الدنيا والآخرة، قالت:
فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه، واخذته بحة يقول: مع الذين
انعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن اولئك رفيقا سورة
النساء آية 69، قالت: فظننته خير حينئذ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے، میں سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی نہیں مرے گا یہاں تک کہ اس کو اختیار دیا جائے
گا دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کا، پھر میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
وفات پائی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بھاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: ”ان لوگوں کے ساتھ کر جن پر تو نے احسان کیا نبی اور صدیق اور شہید اور
نیک بخت لوگوں میں سے اور اچھے رفیق ہیں یہ لوگ۔“ اس وقت میں سمجھی ان کو اختیار
ملا۔
(صحیح مسلم: 6295)
اسی طرح کی روایت صحیح بخاری میں مروی ہے کہ سیدہ
عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: سمعت رسول الله صلى
الله عليه وسلم يقول:" ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة"،
وكان في شكواه الذي قبض فيه، اخذته بحة شديدة، فسمعته يقول:" مع الذين انعم
الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين سورة النساء آية 69، فعلمت
انه خير".
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ نے بیان کیا کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا
ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے
لگی تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «مع
الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين» ”ان
لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین
کے ساتھ۔“ اس لیے میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے (اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے «اللهم بالرفيق الاعلي» کہہ کر
آخرت کو پسند فرمایا)۔
(صحیح بخاری: 4586)
ان احادیث سے بھی یہ واضع ہوجاتا ہے کہ وفات کے بعد
آخرت ہے، اور برزخ قبر وغیرہ اسی آخرت ہی کے حصے ہیں۔
اب اس کے بعد تو کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہ جانا
چاہیے کہ انسان کی آخرت اسکی موت سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ اور یہ بات بھی صراحت کے
ساتھ احادیث میں مذکور ہے مگر جاہلوں کا یاں تو اسکا علم نہیں یاں پھر وہ لوگ خیانت
اور دھوکے سے کام لیتے ہیں تاکہ عوام کو گمراہ کرسکیں، اللہ ان کے شر سے تمام
مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین
ھذا ما عندی والعلم عند اللہ
وما علینا الا البلاغ المبین
تحریر و اقتباسات: شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment