امام ابن تیمیہؒ اور بدعت کی دو اقسام: بدعت حسنہ اور بدعت ضلالہ
﴿امام ابن تیمیہؒ اور بدعت کی دو اقسام: بدعت
حسنہ اور بدعت ضلالہ﴾
وہابیوں کے اندھوں کی مانند بدعت کے
فتوؤں کی جو بھرمار دیکھی ہے، وہیں سے ہمیں انکی جہالت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ دین
کے علوم کی سمجھ بوجھ انہیں کتنی ہے۔ وہابی سے شکوہ کیا کرنا، حیرت تو تب ہوتی ہے
جب خود کو فیس بک محققین کہنے والے بھی ایسی حرکتیں کرتے دیکھنے کو ملتے ہیں، ان
سے پوچھیں تو بونگیوں کے علاوہ انکے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، یہاں تک کہ بعض
اوقات یہ لوگ اصحاب الرسول ﷺ اور خلفہ راشدینؓ پہ بھی تہمت لگا دیتے ہیں۔ ان لوگوں
کو ڈرنا چاہیے کہ انہوں نے مر کر خدا کو منہ دکھانا ہے۔ ہم ان کے پسندیدہ شخصیت سے
ہی اس چیز کو نقل کردیتے ہیں:
امام تقی الدین ابن تیمیہؒ (المتوفی
728ھ) کہتے ہیں:
ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقا أو
اعتقادا زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول لم يذكره وما خالف
النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمى بدعة قال
الشافعي - رحمه الله -: البدعة بدعتان: بدعة خالفت كتابا وسنة وإجماعا وأثرا عن
بعض أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فهذه بدعة ضلالة. وبدعة لم تخالف شيئا من
ذلك فهذه قد تكون حسنة لقول عمر: نعمت البدعة هذه هذا الكلام أو نحوه رواه البيهقي
بإسناده الصحيح في المدخل ويروى عن مالك رحمه الله أنه قال: إذا قل العلم ظهر
الجفا وإذا قلت الآثار كثرت الأهواء
اور یہاں سے اس شخص کی گمراہی معلوم
ہوتی ہے جو نیا عقیدہ یا طریقہ بناتا ہے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ ایمان اسکے بغیر
مکمل نہیں ہوتا، یہ جانتے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسکا زکر نہیں کیا۔
اور جو چیز نصوص کے خلاف ہے وہ
مسلمانوں کے اتفاق سے بدعت ہے اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خلاف ہے تو اسے بدعت
نہیں کہا جاسکتا۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: بدعت
دو طرح کی ہے، ایک بدعت جو کتاب و سنت و اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ ﷺ کے آثار
کے خلاف ہو تو یہ بدعت گمراہی ہے۔ اور ایک بدعت جو اس میں سے کسی کے بھی خلاف نہ
ہو تو وہ اچھی (حسنہ) ہوسکتی ہے، جیسا کہ سیدنا عمر الفارقؓ نے کہا ہے کہ: یہ کتنی
شاندار بدعت ہے۔
یہ کلام یاں اس جیسے کلام کو امام بیھقیؒ
نے "المدخل" میں صحیح اسناد سے روایت کیا ہے۔ اور امام مالکؒ سے مروی ہے
کہ انہوں نے کہا: جب علم کی کمی ہوتی ہے تو سنگ دلی ظاہر ہوتی ہے اور جب آثار کی
کمی ہوتی ہے تو خواہشات بڑھ جاتی ہیں۔
(مجموع الفتاوى: جلد 20
صفحہ 163)
امام ابن تیمیہؒ یہاں خود بدعت کی دو
قسموں کا اقرار کرتے ہیں اور پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کیلیے امام شافعیؒ کے قول
سے حجت پکڑتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہوتی بلکہ وہی گمراہی ہوتی ہے جو نصوص کے
واضع خلاف ہو اور جو خلاف نہ ہو تو وہ اچھی ہوسکتی ہے جیسا کہ خلیفہ راشد سیدنا
عمر الفارقؓ کا اپنا قول بھی موجود ہے۔ وہابیت متاثرین شاید اب زرا علم اور عقل کا
استعمال شروع کریں اور کم از کم غور و فکر کرنا اور تدبر کرنا ہی سیکھ لیں کہ کسی
موضوع پہ کلام کرنے سے پہلے اس پہ موجود ہر قسم کے دلائل وغیرہ دیکھنے ضروری
ہوتے ہیں۔ اللہ ہمیں خواہش نفس سے اور
فرقہ پرستی کی لعنت سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔
تحریر: شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment