مومن کیلیے قیامت کا دن ظہر اور عصر کے درمیان وقت کے جتنا ہے - روایت کی تحقیق
﴿مومن کیلیے قیامت کا دن ظہر اور عصر کے درمیان وقت کے جتنا ہے - روایت کی تحقیق﴾
امام ابو عبد اللہ محمد الحاکمؒ
(المتوفی 405ھ) لکھتے ہیں:
حدثني عبد الله بن عمر بن علي
الجوهري، بمرو، من أصل كتابه، ثنا يحيى بن ساسويه بن عبد الكريم، ثنا سويد بن نصر،
ثنا ابن المبارك، عن معمر، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى، عن أبي هريرة، عن رسول
الله صلى الله عليه وسلم، قال: «يوم القيامة كقدر ما بين الظهر والعصر» . «هذا
حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين إن كان سويد بن نصر حفظه على أنه ثقة مأمون»
]التعليق - من تلخيص
الذهبي]283 - على شرطهما
سیدنا ابو ھریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کا دن ظہر اور عصر کے درمیان وقت کے جتنا ہوگا۔
امام حاکمؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین
کی شرائط کے مطابق صحیح الاسناد ہے، اگر سوید بن نصر نے اسے حفظ رکھا کہ وہ ثقہ
اور مامون ہیں۔
امام ذھبیؒ تلخیص میں سے شیخین کی
شرائط پہ صحیح قرار دیتے ہیں۔
(المستدرك على الصحيحين
للحاكم - ط العلمية: جلد 1 صفحہ 158 رقم 283)
امام حاکمؒ اس حدیث کو موقوفا بھی نقل
کرتے ہیں:
فقد أخبرنا الحسن بن محمد بن حليم،
أنبأ أبو الموجه، أنبأ عبدان، ثنا عبد الله عن معمر، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى،
عن أبي هريرة، قال: «يوم القيامة على المؤمنين كقدر ما بين الظهر والعصر»
سیدنا ابو ھریرہؓ سے مروی ہے کہ انہوں
نے فرمایا: مومنین کیلیے قیامت کا دن ظہر اور عصر کے درمیان وقت کے جتنا ہے۔
(المستدرك على الصحيحين
للحاكم - ط العلمية: جلد 1 صفحہ 158 رقم 284)
امام ابو بکر احمد البیھقیؒ (المتوفی
458ھ) ان روایات کو نقل کرکے اس کے موقوف ہونے کو محفوظ قرار دیتے ہیں:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أخبرنا
الحسن بن محمد بن حليم، أخبرنا أبو الموجه، أخبرنا عبدان، أخبرنا عبد الله، عن
معمر، عن قتادة، عن زرارة بن أبي أوفى، عن أبي هريرة قال: «يوم القيامة على المؤمنين،
كقدر ما بين الظهر والعصر».
هذا هو المحفوظ، وقد روي مرفوعا إلى
النبي - صلى الله عليه وسلم -.
أخبرناه أبو عبد الله الحافظ، حدثني
عبد الله بن عمر بن علي الجوهري -بمرو-، حدثنا يحيى بن ساسويه بن عبد الكريم،
حدثنا سويد بن نصر، حدثنا ابن المبارك، فذكره بإسناده مرفوعا
امام بیقھیؒ امام حاکمؒ سے موقوفا نقل
کرکے لکھتے ہیں:
یہ محفوظ ہے، اور اسے رسول اللہ ﷺ سے
مرفوعا بھی روایت کیا گیا ہے۔
پھر آپ اسکی مرفوع سند نقل کرتے ہیں۔
(البعث والنشور للبيهقي ت
الشوامي: صفحہ 245 رقم 305 و 306)
اس روايت كو امام ابو شجاع الديلمیؒ
(المتوفی 509ھ) بھی نقل کرتے ہیں:
(الفردوس بمأثور الخطاب:
جلد 5 صفحہ 531 رقم 8992)
امام ابن کثیرؒ (المتوفی 773ھ) اسے
اپنی تاریخ میں امام بیھقیؒ سے نقل کرتے ہیں:
(البداية والنهاية ت
التركي: جلد 19 صفحہ 408)
اور امام جلال الدین سیوطیؒ (المتوفی
911ھ) بھی نقل کرتے ہیں:
(الجامع الصغير وزيادته:
رقم 14153)
اسکے علاوہ دیگر علماء نے بھی نقل کیا
ہے مگر اسکی کوئی اور سند ہمارے سامنے نہیں آئی۔
اسکی اسناد کے رواۃ:
موقوف سند کے رواۃ:
1۔ الحسن بن محمد بن حليم المروزي:
یہ امام حاکمؒ کے شیخ ہیں۔ کتب رجال میں
انکا کوئی ترجمہ مجھے نہیں ملا، نہ ہی کوئی توثیق ملی اور ناہی کوئی جرح ملی ہے۔
عمومی حکم تو مجھول الحال ہونے کا ہی ہے، سوائے امام حاکم رحمہ اللہ کے کسی نے انکی
توثیق نہیں کی، امام حاکم رحمہ اللہ انکی ایک روایت کو نقل کرکے اسے شیخین کی شرط
پہ صحیح قرار دیتے ہیں اور امام ذھبیؒ بھی انکی موافقت کرتے ہیں (المستدرک
للحاکم: رقم 1093)۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ صدوق حسن
الحدیث ہونگے۔
2۔ ابو الموجہ:
یہ محمد بن عمرو بن الموجہ المروزی ہیں،
بعض ویب سائٹس نے انہیں مجھول لکھ دیا ہے جوکہ غلط ہے، یہ راوی ثقہ ہیں۔
انہیں امام ابو عبد اللہ ابن عبد
الھادیؒ (المتوفی 744ھ) ثقہ حافظ قرار دیتے ہیں (طبقات علماء الحديث: جلد 2 صفحہ 315 رقم 610)
امام ابن ابی حاتمؒ (المتوفی 327ھ)
انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں اور کوئی کلام نہیں لکھتے (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 8 صفحہ 35 رقم 158)
امام ابو عبد اللہ بن عبد الھادیؒ
(المتوفی 744ھ) انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں اور انہیں ثقہ حافظ قرار دیتے ہیں (طبقات علماء الحديث: جلد 2 صفحہ 315)
امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی
748ھ) انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
الشيخ، الإمام، محدث مرو، أبو الموجه
محمد بن عمرو الفزاري، المروزي، اللغوي، الحافظ
اسکے ساتھ امام ابن الصلاح کا کلام
نقل کرتے ہیں کہ:
قال ابن الصلاح: قيده بكسر الجيم أبو
سعد السمعاني بخطه في مواضع، وهو بلديه، ويقال: بالفتح.
قال: وهو محدث كبير، أديب، كثير
الحديث، صنف السنن والأحكام -رحمه الله-
امام ابن الصلاح کہتے ہیں: انہیں ابو
سعد السمعانی نے جیم کے نیچے زیر کے ساتھ جگہ جگہ لکھا ہے، اور وہ بدلیہ ہے۔ اور
انہیں زبر کے ساتھ بھی پکارا جاتا ہے۔
کہا: اور وہ بہت بڑے محدث، ادیب، کثیر
الحدیث اور سنتوں اور احکامات کو تصنیف کرنے والے تھے۔ اللہ کی ان پہ رحمت ہو۔
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 13 صفحہ 347 رقم 163)
امام جلال الدین سیوطیؒ (المتوفی
911ھ) انہیں حافظ اور ثقہ لکھتے ہیں:
(طبقات الحفاظ للسيوطي:
صفحہ 274 رقم 617)
3۔ عبدان، عبد اللہ بن عثمان بن جبلۃ
الازدی:
یہ ثقہ ثبت ہیں، انکے تراجم مندرجہ ذیل
حوالہ پہ ملاحظہ کیجیے:
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 10 صفحہ 270 رقم 71)
(تهذيب الكمال في أسماء
الرجال: جلد 15 صفحہ 276 رقم 3416)
(إكمال تهذيب الكمال - ط
العلمية: جلد 4 صفحہ 478 رقم 3230)
(تهذيب التهذيب: جلد 5 صفحہ
313 رقم 535)
5۔ عبد الله، عبد الله بن مبارك بن
واضح:
امام ثقه ثبت حافظ شيخ السلام رحمه
الله تعالی کسی تعارف کے محتاج نہیں، رسمی طور پہ میں انکے ترجمے کا حوالہ نقل کر
دیتا ہوں۔
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 8 صفحہ 378 رقم 112)
6۔ معمر بن راشد:
آپ ثقہ ثبت حافظ امام ہیں۔ آپکا ترجمہ
رجال کی کتب سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 7 صفحہ 5 رقم 1)
7۔ قتادہ بن دمامہ السدوسی:
ثقہ ثبت حافظ امام ہیں مگر تدلیس میں
مشہور ہیں۔
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 5 صفحہ 269 رقم 132)
(تهذيب الكمال في أسماء
الرجال: جلد 23 صفحہ 498 رقم 4848)
آپكو امام ابن حجر عسقلانیؒ نے تیسرے
طبقے کا مدلس قرار دیا ہے اور لکھتے ہیں:
قتادة بن دعامة السدوسي البصري
صاحب أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه كان حافظ عصره وهو مشهور بالتدليس وصفه به
النسائي وغيره
قتادہ بن دمامہ السدوسی البصری امام
مالک بن انس رضی اللہ عنہ تعالی کے ساتھی ہیں، آپ اپنے وقت کے حافظ تھے اور آپ تدلیس
کے ساتھ مشہور تھے، اسے امام نسائیؒ وغیرہ نے بيان کیا ہے۔
(طبقات المدلسين: رقم 92)
امام جلال الدين السيوطیؒ بھی آپکو
تدلیس میں مشہور قرار دیتے ہیں (أسماء
المدلسين: رقم 44)
امام ابن حبانؒ نے آپکو مدلس قرار دیا
ہے (الثقات لابن حبان: جلد5 صفحہ 322)
امام دارقطنیؒ انکو مدلس قرار دیتے ہیں (الإلزامات والتتبع للدارقطني: صفحہ 263)
ایک اور جگہ امام دارقطنیؒ انکی روایت
کو سماع کی تصریح نہ ہونے کی جرح کرتے ہیں:
وقتادة وإن كان ثقة وزيادة الثقة
مقبولة عندنا فإنه يدلس ولم يذكر فيه سماعه من سالم فاشتبه أن يكون بلغه فرواه عنه
اور قتادہ اور وہ ثقہ ہیں اور ثقہ کی
زیادت ہمارے نزدیک مقبول ہے مگر وہ تدلیس کرتے ہیں اور انہوں نے یہاں سالم سے سماع
زکر نہیں کیا تو شبہ ہے کہ وہ اس تک پہنچے ہیں جیسا کہ ان سے روایت کیا ہے۔
(الإلزامات والتتبع
للدارقطني: صفحہ 370)
امام حاکمؒ لکھتے ہیں:
قال: سليمان الشاذكوني: من أراد
التدين بالحديث فلا يأخذ عن الأعمش، ولا عن قتادة إلا ما قالا: سمعناه
سليمان الشاذکونی کہتے ہیں: جو بھی حدیث
سے دین کو حاصل کرنا چاہتا ہو وہ اعمش سے اخذ نہ کرے اور ناہی قتادہ سے سوائے اس
کے کہ وہ کہیں کہ میں نے یہ سنا (یعنی سماع کی تصریح کردیں)
(معرفة علوم الحديث للحاكم:
صفحہ 107)
امام ابن عبد البرؒ کہتے ہیں کہ:
وقتادة حافظ مدلس يروي عمن لم يسمع
منه ويرسل عنه ما سمعه من ثقة وغير ثقة
اور قتادہ حافظ مدلس ہیں، ان سے روایت
کرتے ہیں جن سے نہیں سنا ہوتا اور ان سے ارسال کرتے ہیں جن سے سنا ہوتا ہے، ثقہ سے
بھی اور غیر ثقہ سے بھی۔
(الاستذكار: جلد 6 صفحہ 39)
مختصر یہ کہ قتادہ مدلس ہیں اور انکی
معنعن روایت پہ سماع کی صراحت درکار ہوگی، جیسا کہ جمھور متقدمین آئمہ کا اصول ہے
کہ مدلس کی روایت کو سماع کی تصریح کے بغیر قبول نہیں کیا جائے گا۔
8۔ زرارة بن أوفى العامري:
یہ بھی ثقہ راوی ہیں۔
(تهذيب الكمال في أسماء
الرجال: جلد 9 صفحہ 339 رقم 1977)
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 4 صفحہ 515 رقم 209)
اسکے آگے راوی صحابی رسول اللہ ﷺ سیدنا
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
مرفوع سند کے رواۃ:
1۔ عبد اللہ بن عمر بن علی الجوھری:
امام حاكم رحمه الله کے شیخ ہیں، یہ
حافظ اور ثقہ ہیں، نقاد آئمہ حدیث میں انکا شمار ہوتا ہے۔
(تذكرة الحفاظ = طبقات
الحفاظ للذهبي: جلد 3 صفحہ 95 رقم 882)
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 16 صفحہ 168 رقم 1239)
2۔ يحيى بن ساسويه بن عبد الكريم:
انکا ترجمہ بھی ہمیں کسی کتاب میں نہیں
ملا، امام حاکمؒ ان سے ایک روایت نقل کرکے اس کے تمام رواۃ کو ثقہ ثبت قرار دیتے ہیں
(المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية:
جلد 1 صفحہ 465 رقم 1197) اور
ایک جگہ امام حاکمؒ انکی ایک روایت کو امام بخاری و مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے
ہیں اور امام ذھبیؒ بھی انکی موافقت کرتے ہیں (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية: جلد 1 صفحہ 344 رقم 808)
اسی طرح امام دارقطنیؒ بھی انکی ایک روایت کی تحکیم میں تمام رواۃ کو ضابط اور
رجال کو ثقاہت میں معروف قرار دیتے ہیں (لسان
الميزان لابن حجر: جلد 1 صفحہ 261)۔ لہزا میرے نزدیک یہ راوی
ثقہ ہیں۔
3۔ سوید بن نصر بن سوید المروزی:
یہ ثقہ ہیں۔ انہیں امام نسائیؒ وغیرہ
نے ثقہ قرار دیا ہے۔
(تهذيب الكمال في أسماء
الرجال: جلد 12 صفحہ 272 رقم 2651)
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 11 صفحہ 408 رقم 95)
یہاں سے آگے سند ایک ہی ہوجاتی ہے۔
حکم الحدیث:
اگرچہ امام بیھقیؒ نے اسکے موقوف ہونے
کو محفوظ قرار دیا ہے مگر یہ روایت مرفوع ہی کے حکم میں داخل ہوگی کیونکہ ایسی خبر
کوئی صحابی خود سے بیان نہیں کرسکتا کیونکہ یہ خبر غیب اور آخرت سے متعلق ہے،
شیخ ناصر الدین البانیؒ بھی یہی چیز
لکھتے ہیں:
وأرى أن الموقوف في حكم المرفوع، بل
هو أوضح وأبين. والله أعلم
اور میں دیکھتا ہوں کہ یہ موقوف بھی
مرفوع کے حکم میں ہے بلکہ یہ زیادہ واضع اور آسان ہے۔ اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
(سلسلة الأحاديث الصحيحة:
جلد 5 صفحہ 584 رقم 2456)
اور
ہوسکتا ہے کہ موقوف ہی درست ہو کیونکہ بعض اوقات صحابہ کرامؓ سے اسرائیلیات وغیرہ
بھی مروی ہوجاتی ہیں۔ اور اس حالت میں مرفوع اور اسرائیلیات میں فرق کرنا قدرے
مشکل ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
اور عين ممکن ہے کہ موقوف و مرفوع کا
وہم اس روایت میں معمر کو ہوا ہو کیونکہ اسکے متعلق صراحت موجود کہ قتادہ سے روایت
کرنے میں معمر کو خطاء ہوتی ہے:
امام دارقطنیؒ کہتے ہیں:
ومعمر سيء الحفظ لحديث قتادة والأعمش
اور معمر کا حافظہ قتادہ اور اعمش کی
حدیث میں خراب ہے۔
(علل الادارقطنی: جلد 12
صفحہ 221 رقم 2642)
اس کی سند ہمارے نزدیک ضعیف ہے کیونکہ
معمر کا وہم ہے اور قتادہ مدلس کا عنعنہ ہے، ہمیں سماع کی صراحت نہیں ملی۔ لہزا یہ
روایت ہمارے نزدیک موقوف اور مرفوع دونو طرح سے غیر ثابت اور ضعیف ہے۔
امام ابن حبانؒ اپنی کتاب الثقات کے
مقدمے میں لکھتے ہیں:
فإن المدلس ما لم يبين سماع خبره عمن
كتب عنه لا يجوز الاحتجاج بذلك الخبر لأنه لا يدري لعله سمعه من إنسان ضعيف يبطل
الخبر بذكره إذا وقف عليه وعرف الخبر به فما لم يقل المدلس في خبره وإن كان ثقة
سمعت أو حدثني فلا يجوز الاحتجاج بخبره
پس مدلس جب تک اپنے استاذ سے سماع کی
تصریح نہ کرے تو اس کی اس روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ پتا نہیں کہ
شاید اس نے کسی ضعیف انسان سے سنا ہو، جس کے معلوم ہو جانے سے خبر (روایت) باطل ہو
جاتی ہے۔ پس مدلس اگر چہ ثقہ ہوا اپنی روایت میں سمعت یا حدثنی نہ کہے تو اس کی
روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے۔
(الثقات لابن حبان: جلد 1
صفحہ 12)
تحریر و تحکیم: ڈاکٹر شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment