کیا مولا علیؑ کے اصحاب کو مولا علیؑ کا ساتھ دینے پہ افسوس تھا؟
کیا مولا علیؑ کے اصحاب کو
مولا علیؑ کا ساتھ دینے پہ افسوس تھا؟
ایک ناصبی خائن کی ناصبیت
اور خلیفہ راشد کے ساتھیوں پہ بہتان بازی کا تعاقب!
﷽
امام ابو بکر محمد بن عبد اللہ بن ابی
شیبہؒ (المتوفی 235ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا غندر عن شعبة عن عمرو
بن مرة قال: سمعت سويد بن الحارث قال: لقد (رأيتنا) يوم الجمل وإن رماحنا ورماحهم
لمتشاجرة، ولو شاءت الرجال لمشت (عليها)، (يقولون: الله أكبر)، ويقولون: سبحان الله
(و) (الله أكبر)، (ونحو ذلك)، ليس فيها شك، وليتني لم أشهد ويقول عبد الله بن سلمة:
ولكني ما سرني أني لم أشهد، ولوددت أن كل (مشهد) شهده علي شهدته
عمرو بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے سوید بن
الحارث کہتے ہوئے سنا کہ: یقینا میں نے جمل کا دن دیکھا اور ہمارے نیزے اور انکے نیزے
آپس میں ٹکرائے اور لوگ چاہتے تو اس پہ چل پڑتے۔ وہ لوگ کہتے: اللہ اکبر ، اور کہتے: سبحان اللہ و اللہ اکبر۔ اور اسی طرح سے کہ، اس میں کوئی شک نہیں ، اور کاش میں یہاں
موجود نہ ہوتا۔ اور عبد اللہ بن سلمہ کہتے
ہیں: اور مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میں نے شرکت نہیں کی اور میں چاہتا ہوں کہ
ہر وہ حاضر ہونے کی جگہ جہاں مولا علیؑ نے شرکت کی ہو وہاں میں نے بھی شرکت کی ہو۔
(المصنف ابن أبي شيبة - ت الشثري:
جلد 21 صفحہ 481 رقم 40571 ، 40572)
◈: سوید بن الحارث الجھنی:
◉: امام بخاریؒ نے انکا ترجمہ قائم کیا اور کوئی جرح وتعدیل نہیں کی۔
(التاريخ الكبير للبخاري - ت
المعلمي اليماني: جلد4 صفحہ 143 رقم 2257)
◉: امام ابن ابی حاتم الرازیؒ انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں اور کوئی جرح
و تعدیل نقل نہیں کرتے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:
جلد 4 صفحہ 234 رقم 1004)
◉: امام ابن حبانؒ انہیں الثقات میں درج کرتے ہیں۔
(الثقات لابن حبان: جلد 4 صفحہ
322)
◉: امام شمس الدین ابو المحاسن محمد بن علی الحسینیؒ (المتوفی 765ھ)
اسے مجھول قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
سويد بن الحارث عن أبي ذر
وعنه عمرو بن مرة لا يعرف
سوید بن الحارث روایت کرتے ہیں سیدنا ابو
ذرؓ سے اور ان سے روایت کرتے ہیں عمرو بن مرۃ، میں انہیں نہیں جانتا۔
(الإكمال في ذكر من له رواية
في مسند الإمام أحمد من الرجال سوى من ذكر في تهذيب الكمال: صفحہ 185 رقم 350)
◉: امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن ابی بکر البوصیریؒ (المتوفی
840ھ) بھی انکو مجھول قرار دیتے ہوئے روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں، روایت کا ذکر امام
ابن حجر عسقلانیؒ کے کلام میں ہم کررہے ہیں:
رواه أبو داود وأبو يعلى
الموصلي بسند ضعيف، لجهالة سويد بن الحارث
اسے امام ابو داودؒ اور امام ابو یعلی
الموصلیؒ نے سوید بن الحارث کی جہالت کی وجہ سے
ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
(إتحاف الخيرة المهرة بزوائد
المسانيد العشرة: جلد 7 صفحہ 443 رقم 7288)
◉: امام ابن حجر عسقلانیؒ امام شمس الدین ابو المحاسن الحسینیؒ کا قول
نقل کرکے لکھتے ہیں:
اسويد بن الحارث عن أبي
ذر وعنه عمرو بن مرة مجهول لا يعرف قلت هذه مبالغة فإن سند الحديث عند أحمد إلى هذا
الرجل على شرط الصحيح والمتن طرف من حديث في الصحيح لأبي ذر أتم من هذا قال أحمد حدثنا
محمد بن جعفر وعفان قالا ثنا شعبة عن عمرو بن مرة قال عفان عن سعيد بن الحارث وقال
بن جعفر سويد بن الحارث عن أبي ذر رفعه ما أحب أن لي أحدا ذهبا اموت يوم اموت وعندي
منه دينار الا أن ارصده لغريم انتهى وقول محمد بن جعفر هو الصواب فكذلك أخرجه أبو داود
الطيالسي عن شعبة عن عمرو بن مرة سمع سويد بن الحارث سمع أبا ذر يقول قال لي فذكر الحديث
وكذلك أخرجه الدارمي في كتاب الرقاق من مسنده عن سليمان بن حرب عن شعبة عن عمرو ولفظه
سمعت سويد بن الحارث يقول نحوه فهذان حافظان وافقا محمد بن جعفر على تسميته وشذ عفان
فسماه سعيدا ويحتمل أن يكون ذلك من قبل شعبة وقد ذكر البخاري سويدا ولم يذكر فيه جرحا
وتبعه بن أبي حاتم
سوید بن الحارث روایت کرتے ہیں سیدنا ابو
ذرؓ سے اور ان سے روایت کرتے ہیں عمرو بن مرۃ، یہ مجھول ہیں میں انہیں نہیں جانتا۔
میں (امام ابن حجرؒ) کہتا ہوں: یہ مبالغہ ہے،
امام احمد کے نزدیک حدیث کی سند اس شخص کے علاوہ صحیح کی شرط پہ ہے، اور متن ابو ذرؓ کی صحیح میں سے حدیث کی جانب سے اس سے زیادہ مکمل ہے۔
احمد کہتے ہیں کہ انہیں محمد بن جعفر اور
عفان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انہیں شعبہ نے بیان کیا، وہ عمرو بن مرۃ کی سند
سے، عفان کہتے ہیں کہ سعید بن الحارث سے، اور
ابن جعفر کہتے ہیں کہ سوید بن الحارث کی سندسے ابی ذرؓ سے مرفوعا مروی ہے کہ: مجھے
پسند نہیں کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہواور میں موت کے دن وفات پا جاؤں اور میرے
پاس ایک دینار بھی ہو سوائے اس کے کہ میں اسے کسی قرضدار کیلیے محفوظ رکھوں۔ختم ہوا۔
اور محمد بن جعفر کا قول صحیح ہے۔ اسی طرح ابو داؤد طیالسی نے تخریج کیا ہے شعبہ کی
سند سےعمرو بن مرۃ سے انہوں نے سماع کیا سوید بن الحارث سے انہوں نے سماع کیا ابو ذرؓ
سے کہ انہوں نے کہا: انہوں نے مجھے کہا اور
یہ حدیث ذکر کی۔ اور اسی طرح الدارمی نے اپنی کتاب الرقاق میں اپنی مسند میں تخریج
کیا کہ: سلیمان بن حرب کی سند سے شعبہ سے عمرو سے مروی ہے اور الفاظ یہ ہیں کہ انہوں
نے سوید بن الحارث کو ایسا ہی کہتے ہوئے سنا۔ تو یہ حفاظ ہیں جنہوں نے محمد بن جعفر
کے نام رکھنے میں موافقت کی ہے اور عفان نے سعید نام رکھتے ہوئے علیحدہ ہوئے ہیں۔ اور
ممکن ہے کہ یہ شعبہ کی طرف سے ہو۔
اور بخاری نے سوید کا ذکر کیا اور اس میں
کوئی جرح نقل نہیں کی اور ابن ابی حاتم نے انکی پیروی کی ہے۔
(تعجيل المنفعة: جلد 1 صفحہ
627 و 628 رقم 438)
اس کلام سے معلوم ہوا کہ امام ابن حجر
عسقلانیؒ کے نزدیک بھی انکی کوئی معتبر توثیق مروی نہیں ہے، انہوں نے خود بھی اس راوی
کی کوئی توثیق نہیں کی سوائے اسے مجھول کہنے کو مبالغہ قرار دینے میں۔ امام ابن حجر
عسقلانیؒ نے پہلی دلیل امام احمدؒ سے ہے کہ انہوں نے حدیث روایت کی تو وہ صحیح کی شرط
پہ ہے سوائے اس شخص کے، یعنی وہ روایت اس کی وجہ سے صحیح کو نہیں پہنچ رہی مگر اسکے
علاوہ باقی ساری کی ساری سند صحیح کی شرط کی ہے، پھر امام ابن حجر عسقلانیؒ اس راوی
کے نام کے اختلاف کو واضع کررہے ہیں کہ اس کے نام میں جو اختلاف ہوا ہے وہ عفان نے
خطا کرکے سعید کہا ہے جبکہ اسکے برخلاف تین اثبت رواۃ ، محمد بن جعفر، ابو داؤد طیالسیؒ
اور سلیمان بن حرب نے سوید بن الحارث کے نام سے اسے روایت کیا ہے۔ پھر آخر امام بخاری
اور امام ابن ابو حاتم الرازی کے جرح نہ کرنے سے یہ اخذ کررہے کہ اس روایت کے ہوتے
ہوئے اور کوئی جرح کے وجود نہ رکھنے سے مجھول کہنا مبالغہ ہے۔ جب کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ
کی یہ بات درست نہیں۔ اول تو خود انہوں نے کوئی معتبر توثیق نہیں کی، اور دوسرا ان
سے پہلے ہی امام ابو العباس احمد بن ابو بکر البوصیریؒ نے اس روایت کو سوید بن الحارث
ہی کی جہالت کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہوا ہے اور اسکو مجھول قرار میں دینے میں انکی
موافقت امام شمس الدین امام محمد بن علی الحسینیؒ نے بھی ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ یہ راوی
سوید بن الحارث نہایت قلیل الروایہ ہیں، ۔ اسی طرح امام ابن کثیرؒ اس روایت میں تفرد
کا ذکر کرتے ہیں۔ (جامع المسانيد والسنن: جلد 9 صفحہ 406 رقم 12189)،
لہزا امام ابن حجر عسقلانیؒ کا یہ کلام اس راوی کو کوئی خاص فائدہ نہیں دیتا۔ اسکے
علاوہ اس روایت کی سند کو اسی راوی کی جہالت کی وجہ سے مسند احمد کی تحکیم میں شیخ
شعیب الارنوؤط الحنفی ضعیف قرار دیتے ہیں۔(مسند أحمد - ط الرسالة: جلد 35 صفحہ 249 رقم 21322)
، البتہ متعدد شواہد کی بنا پہ اس روایت کی تحسین کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہزا یہ تو فی نفسی اس روایت کے راوی پہ
کلام ہوا کہ یہ راوی مجھول الحال ہے، اس کی کوئی معتبر توثیق موجود نہیں، سوائے امام
ابن حبانؒ کے الثقات میں درج کرنے کے۔ لہزا اس روایت کی سند اس راوی کی جہالت کی وجہ
سے ضعیف ہے۔ یہی جہالت کا کلام مصنف ابن ابی
شیبہ کے محقق شیخ سعد بن ناصر الشثریؒ بھی اسی روایت میں راوی پہ کرتے ہیں۔لہزا معلوم ہوا کہ اس روایت کا
پہلا حصہ ثابت ہی نہیں کہ بعض لوگ اس جنگ میں اس بات کی آرزو کرتے تھے کہ وہ جمل میں
موجود نہ ہوتے۔
روایت کا دوسرا حصہ جو ہے اور عمرو بن
مرۃ سے ہی عبد اللہ بن سلمہؒ کی روایت ہے تو
جناب عبد اللہ بن سلمہؒ تابعی کا یہ قول زبردست دلیل ہے کہ وہ باغیوں سے قتال میں مولا
علیؑ کا ساتھ نہیں دے سکے تو وہ اس پہ بہت زیادہ افسوس کرتے تھے اور خواہش کرتے تھے
کہ وہ ہر اس جگہ موجود ہوتے جہاں مولا علیؑ موجود تھے اور وہ باغیوں سے قتال کرتے جسطرح
مولا علیؑ نے قتال کیا ہے۔ اس حصے کی بھی اسنادی علت بھی ہم اگلی روایت کی تحکیم کے
ساتھ اکٹھی بیان کر رہے ہیں۔
جب کہ اسکے علاوہ ناصبی موصوف نے اور تحریف
کی ہے، پہلی تحریف تو روایت کے پہلے حصے کے راوی سوید بن الحارث کے نام کو ترجمے میں
بدل کر سعید بن حارث کردیا تاکہ لوگ دھوکہ کھا جائیں اور اس مجھول راوی پہ مطلع نہ
ہوں۔ مزید یہ بھی منسوب کردیا کہ سوید بن الحارث نے جمل میں مولا علیؑ کی طرف سے شرکت
کی تھی کہ انکے ساتھی تھے، جب کی روایت آپکے سامنے ہے کہ اس سے یہ بات معلوم ہو ہی
نہیں رہی کہ انہوں نے کس کی طرف سے شرکت کی تھی، اور کتب الرجال وغیرہ میں کسی امام
نے اس بات کی صراحت نقل ہی نہیں کی کہ یہ جنگ جمل میں مولا علیؑ کے ساتھی تھے۔ لہزا
یہ چیز انہوں نے مولا علیؑ پہ بہتان بازی کرنے کیلیے خود سے گھڑی ہے۔ انکے متعلق یہ
ثابت ہی نہیں کہ وہ کس گروہ کی طرف سے شریک ہوئے تھے اور یہ بھی ثابت نہیں کہ جن چند
لوگوں کے متعلق وہ یہ کہہ رہے کہ وہ کہتے تھے کہ کاش ہم یہاں نہ ہوتے۔ تو اول تو وہ
لوگ مجھول ہیں کہ کوئی پتہ نہیں وہ کس طرف سے تھی جیسا کہ خود راوی سوید بن الحارث
مجھول ہے عدالت کے لحاظ سے بھی اور اس جنگ میں کس کی طرف سےتھا اس لحاظ سے بھی۔ پھر
چلیں بالفرض کہ معاملہ ایسا تھا بھی تو وہ چند لوگ اتنی شدید خون ریز جنگ سے گھبرا
چکے تھے تو وہ ارزو کررہے تھے کہ ہم اتنی خون ریز جگہ پہ نہ ہوتے۔ جبکہ باقی تمام لوگ
اللہ اکبر کی صدائیں لگا کر پورے ذوق و شوق سے جہاد کررہےتھے ۔ اللہ کی لعنت ہو اس
ناصبی پہ جس نے اپنی ناصبیت اور مولا علیؑ پہ بہتان بازی کرنے کیلیے تحریف کی۔ اور
روایت کے دوسرے حصے میں کی گئی تحریف تو آپ دیکھ ہی سکتے ہیں کہ اسے موصوف نے سرے سے
چھپا لیا اور ذکر ہی نہیں کیا اور اسکے برعکس موصوف دوسرے قول کو پکڑ کر اس سے اپنا
منجن بیچنے لگ گئے۔
#دوسری_روایت:
امام محمد بن ابی بکر بن ابی شیبہؒ (المتوفی
235ھ) لکھتے ہیں:
(حدثنا) إسحاق بن منصور
قال: (حدثنا) عبد الله بن عمرو بن مرة عن أبيه عن عبد الله بن سلمة قال: وشهد مع علي
الجمل وصفين وقال: ما يسرني بهما ما على الأرض
عبد اللہ بن سلمہؒ فرماتے ہیں: اور میں
نےمولا علیؑ کے ساتھ جمل اور صفین میں شرکت کی۔ فرماتے ہیں:انکے دونو کی وجہ سے زمین
پہ جو کچھ بھی ہے وہ مجھے خوش نہیں کرتا۔
(المصنف ابن أبي شيبة - ت الشثري: جلد 21 صفحہ 509 رقم
40626)
اس روایت کی سند بظاہر تو حسن نظر آتی
ہے مگر اس میں ایک ایسی علت ہے جو اسے غیر محفوظ اور ضعیف بناتی ہے۔
◈: عبد اللہ بن سلمہ کو
آخری عمر میں اختلاط بھی ہوگیا تھا۔
◉: امام
ابو عبد الله محمد بن سعدؒ(المتوفی 230ھ) لکھتے ہیں:
قال: أخبرنا سليمان أبو
داود الطيالسي قال: أخبرنا شعبة، عن عمرو بن مرة قال: كان عبد الله بن سلمة
قد كبر فكان يحدث فنعرف وننكر
عمرو بن مرۃ کہتے ہیں:عبد اللہ بن سلمہ
بوڑھے ہوچکے تھے، وہ حدیث بیان کرتے تو ہم پہچان جاتے اور انکار کرتے۔
(الطبقات الكبرى - ط الخانجي:
جلد 8 صفحہ 236 رقم 2822 وسندہ صحیح)
◉: اسی قول کو دلیل بنا کر امام صلاح الدین العلائیؒ (المتوفی 761ھ)
نے عبد اللہ بن سلمہ کو مختلط قرار دیا ہے۔
(المختلطين للعلائي: صفحہ
63 رقم 25)
◉: عمرو
بن مرۃ کے اسی قول کو امام بخاریؒ بھی اپنی صحیح سند سے روایت کرتے ہیں:
(التاريخ الأوسط: جلد 1 صفحہ
203 رقم 959)
◉: امام ابو بکر بیہقیؒ (المتوفی 458ھ) کہتے ہیں:
عبد الله بن سلمة كان
قد تغير في آخر عمره، ويشبه أن يكون غير محفوظ
عبد اللہ بن سلمہ کا آخری عمر میں حافظہ
خراب ہوگیا تھا، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ محفوظ نہیں ہیں۔
(معرفة السنن والآثار: جلد
4 صفحہ 335 رقم 6385)
◉: اسی طرح امام ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:
عبد الله ابن سلمة بكسر
اللام المرادي الكوفي صدوق تغير حفظه من الثانية
عبد اللہ بن سلمہ بکسر اللام المرادی الكوفی
صدوق ہیں، انکا حافظہ خراب ہوگیا تھا، یہ طبقہ ثانیہ میں سے ہیں۔
(تقريب التهذيب: صفحہ 306 رقم
3364)
اسکے علاوہ بھی متعدد آئمہ کرام نے اس
جرح کو نقل بھی کیا ہے اور قبول کرتے ہوئے خود بھی عبد اللہ بن سلمہ پہ اختلاط کی جرح
کی ہے۔ جسکا ذکر طوالت کا باعث ہوگا۔ اور عمرو بن مرۃ کا عبد اللہ بن سلمہ سے سماع
اختلاط کے بعد کا ہے۔
◉: امام ابو الحسن احمد بن عبد اللہ العجلیؒ (المتوفی 261ھ) لکھتے ہیں:
ولم يكن أحد أروى عن عبد
الله بن سلمة منه وعبد الله بن سلمة يكنى أبا العالية سمع منه بعد ما كبر
اور کسی نے عبد اللہ بن سلمہ سے ان سے
زیادہ روایت نہیں کی، اور عبد اللہ بن سلمہ جنکی کنیت ابو العالیہ تھی، انہوں نےانکے
بوڑھے ہونے کے بعد ان سے سماع کیا۔
(الثقات للعجلي ت البستوي: جلد
2 صفحہ 185 رقم 1408)
◉: امام ابو محمد ابن الجارودؒ (المتوفی 307ھ) ایک روایت کے ذیل باسند
صحیح نقل کرتے ہیں:
قال يحيى: وكان شعبة يقول
في هذا الحديث: تعرف وتنكر؟ يعني: أن عبد الله بن سلمة كان كبر، حيث أدركه
عمرو
یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ: شعبہ اس حدیث
میں کہا کرتے کہ: ہم جانتے اور انکار کرتے؟ یعنی عبد اللہ بن سلمہ بوڑھے ہوچکے تھے
جب عمرو بن مرۃ نے انہیں پایا تھا۔
(المنتقى ابن الجارود - ت الحويني:
صفحہ 42 رقم 104،و سندہ صحیح)
یعنی عمرو بن مرۃ کا سماع عبد اللہ بن
سلمہ سے اختلاط کے بعد کا ہے، جس کی وجہ سے انکی روایات محفوظ نہیں ہیں، متعدد آئمہ
کرام نے اس علت سے صرف نظر بھی کیا ہے مگر ہماری زیر بحث روایات ایسی واضع علت رکھتی
ہیں جس سے حافظے کی خرابی اور راوی کا اضطراب ہمیں واضع معلوم ہورہا ہے۔ مثلا: امام
شعبہؒ کی سند سے جو پہلی روایت ہم نے نقل کی جسے ناصبی خائن نے خیانت کرکے چھپا لیا
تھا اور آدھی روایت نقل کی تھی، وہ روایت یہ بتا رہی ہے کہ عبد اللہ بن سلمہؒ نے جنگ
جمل وغیرہ میں شرکت نہیں کی اور شرکت کرنے کی انہیں حسرت رہتی تھی، وہ خواہش کرتے تھے
کہ مولا علیؑ کے ساتھ ہر مقام پہ حاضر رہتے۔ جبکہ دوسری روایت انکی شرکت کا بتا رہی
ہے اور اس پہ انہیں دکھ بھی تھا۔ اب ایک ہی شخص ایک ہی مقام پہ ایک ہی وقت میں اپنا
وجود رکھ بھی سکتا ہے اور اسکا وجود وہاں ہو بھی نہیں سکتا؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟
یہ چیز تو خلاف قانون قدرت ہے کہ ایک شخص ایک ہی جگہ موجود بھی ہو اور وہاں موجود نہ
بھی ہو۔ جیسا کہ یہ دونو روایات بتا رہی ہیں؟لہزا یہ چیز عبد اللہ بن سلمہؒ کے خراب
حافظے اور انکے اختلاط کی واضع دلیل ہے۔
ہمارے خیال میں یہ معاملہ اسطرح ہوسکتا
ہے کہ جب امام عبد اللہ بن سلمہؒ کو انکے خراب حافظے کے باعث یہ لگتا تھاکہ انہوں نے
جنگ جمل اور جنگ صفین میں شرکت کی تھی جس میں مسلمانوں کا بہت خون بہا تھا تو وہ بھی
مولا علیؑ کےعمل کی پیروی کرتے ہوئے اس پہ غم
کرتے تھے کہ کاش یہ لوگ سدھر جاتے اور بغاوت نہ کرتے تو ان سے قتال نہ کرنا
پڑتا، یہ لوگ یہ گناہ سے بری رہتے۔ اور جب انہیں یہ لگتا کہ انہوں نے ان جنگوں میں
مولا علی المرتضیؑ کے ساتھ شرکت نہیں کی تو وہ اس بات پہ افسوس کرتے تھے کہ انہوں نے
خلیفہ راشد مولا علی المرتضیؑ کے ساتھ مل کر باغیوں سے قتال کیونکر نہیں کیا، وہ یہ
بات لازمی سمجھتے تھے بلکہ خواہش کرتے تھے کہ وہ ہر اس جگہ حاضر ہوں جہاں جہاں مولا
علی المرتضیؑ حاضر تھے اور انکے ساتھ مل کر وہ باغیوں سے قتال کرتے۔ اگر بالفرض اسے درست مان بھی لیا جائے تو امام عبد
اللہ بن سلمہؒ کو ان جنگوں میں مولا علیؑ کی طرف سے باغیوں سے قتال کرنے پہ کوئی افسوس نہیں تھا بلکہ انہیں افسوس ان
جنگوں میں بےگناہ عوام کے خون کا تھا انہیں رنج و غم انکے خون کا تھا جو ان جنگوں میں
صحابہ کرام کی پیروی میں ہی شریک ہوگئے اور انہیں اسکی کوئی سمجھ نہ تھی کیونکہ وہ
صحابہ کی پیروی کررہے اور بغاوت کرنے والی اصل ہستیاں اسکی ذمہدار تھی، جنہوں نے بعد
میں اپنے اس عمل سے رجوع کرلیا تھا۔ اللہ تعالی انکی اس خطاء کو معاف فرمائے اور انکی
توبہ قبول فرمائے۔ آمین۔
لہزا اس روایت سے یہ استدلال کہ جناب عبد
اللہ بن سلمہ کو جمل اور صفین میں مولا علیؑ کی طرف سے شرکت کرنے پہ رنج و غم تھا اور
وہ اس شرکت پہ غمگین رہتے تھے سراسر باطل ہے، کیونکہ اول تو یہ روایات ہی محفوظ نہیں
بلکہ #مضطرب ہیں اور اضطراب ہم نے کھول کر واضع کردیا ہے، جسے ناصبی خائن چھپا رہا
تھا۔ بالفرض پھر بھی اگر کوئی اتنی واضع علت کو بھی کوئی صرف نظر کرنا چاہے تو اس کیلیے
عرض ہے کہ:
اول
تو یہ روایت اس سے اوثق سند کی مخالفت کررہی ہے، مثلا پہلی روایت میں امام شعبہ جو
کہ خود حفاظ حدیث میں سے ہیں، انکے شاگرد غندر ان سے روایت کرنے میں اثبت ہیں، اور
انکے استاد عمرو بن مرۃ ثقہ ہیں، عمرو بن مرۃ ہی اسی سند کے راوی ہیں۔ جب کہ یہ روایت
عمرو بن مرۃ سے انکے بیٹے عبد اللہ بن عمرو بن مرۃ روایت کررہے ہیں جوکہ صدوق حسن الحدیث
راوی ہیں اور امام ابن حجر عسقلانیؒ نے ان پہ خطاء کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ اور
یہ امام شعبہؒ کے مقابلے میں نہایت ہی کمزور
ہیں۔ لہزا یہ روایت اول تو اپنے سے اوثق کی مخالفت کی وجہ سے شاذ اور معلول
ہے۔ لہزا اب پہلی روایت کہ امام عبد اللہ بن
سلمہؒ نےشرکت نہیں کی اور انہیں اسکی شدید خواہش تھی وہ مولا علیؑ کے ساتھ شرکت تھے
وہ مقبول ہوگی اور دوسری روایت جس میں انہوں نے شرکت کی اور انہیں ان جنگوں کی وجہ
سے غم تھا، وہ مردود ہوگی۔ اگر ہم عبد اللہ بن سلمہؒ کے اختلاط کو اور عمرو بن مرۃ
کے ان سے اختلاط کے بعد کے سماع کو نظر انداز کردیں تو۔
ان شاء اللہ آئندہ تحاریر میں ہم مولا
علی المرتضیؑ کا ان جنگوں میں حق پہ ہونا اور مخالفین کی بغاوت پہ معصوم عوام کے خون
بہانے پہ افسوس کرنا کہ یہ لوگ تو ایسے نہ تھے کہ یہ لوگ بھی رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ
راشد کے خلاف بیعت توڑ کر بغاوت کردیتے وغیرہ جیسے عوامل کو سامنے لائیں گے اور نوجوانان
اہل سنت کے سامنے حقیقت کو واضع کریں گے۔ نواصب کی اہل بیتؑ اور رسول اللہ ﷺ کے خلفاء
پہ بہتان بازیوں کا تعاقب ان شاء اللہ جاری رکھیں گے۔
والسلام: شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment