علماء کے درمیان اختلاف کن اسباب کی وجہ سے واقع ہوا؟
﴿علماء کے درمیان اختلاف کن اسباب کی وجہ سے واقع
ہوا؟﴾
احباب کی جانب سے اکثر یہ سوال ہوتا ہے
کہ کیا وجہ ہے کہ فقہاء کرام کے درمیان اتنا زیادہ اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے، ان میں
اتفاق کیونکر نہیں ہوسکا۔ اس سوال کا جواب میں بذات خود تو دے دیا کرتا ہوں مگر اب
سوچا کیونکہ اسکا جواب ایک ایسے امام کی جانب سے نقل کروں کہ انکا تعارف بھی عوام الناس
کو ہوجائے اور انکی کتب کی طرف رغبت بھی ہو اور اس سوال کا جواب بھی عمدہ طریقے سے
ہوجائے۔ میری مراد امام الحافظ المحدث الفقيه زين الدين عبد الرحمن بن احمد بن رجب
الحنبلیؒ ہیں۔ آپؒ نہ صرف علل حدیث میں بہت مہارت رکھتے تھے بلکہ عمدہ فقہی بھی تھے۔
اسکی اندازہ آپ کی تصانیف کے مطالعہ سے ہوجاتا ہے۔
بہرحال امام ابن رجب الحنبلیؒ (المتوفی
795ھ) فقہاء كرام كے اختلافات كی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فاختلفوا في تحليله وتحريمه وذلك لأسباب:
منها: أنه قد يكون النص عليه خفيا لم ينقله
إلا قليل من الناس، فلم يبلغ جميع حملة العلم.
ومنها: أنه قد ينقل فيه نصان، أحدهما بالتحليل،
والآخر بالتحريم، فيبلغ طائفة أحد النصين دون الآخرين، فيتمسكون بما بلغهم، أو يبلغ
النصان معا من لم يبلغه التاريخ، فيقف لعدم معرفته بالناسخ.
ومنها: ما ليس فيه نص صريح، وإنما يؤخذ
من عموم أو مفهوم أو قياس، فتختلف أفهام العلماء في هذا كثيرا.
ومنها: ما يكون فيه أمر، أو نهي، فيختلف
العلماء في حمل الأمر على الوجوب أو الندب، وفي حمل النهي على التحريم أو التنزيه،
وأسباب الاختلاف أكثر مما ذكرنا ومع هذا
فلابد في الأمة من عالم يوافق قوله الحق، فيكون هو العالم بهذا الحكم، وغيره يكون الأمر
مشتبها عليه ولا يكون عالما بهذا، فإن هذه الأمة لا تجتمع على ضلالة، ولا يظهر أهل
باطلها على أهل حقها، فلا يكون الحق مهجورا غير معمول به في جميع الأمصار والأعصار،
ولهذا قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في المشتبهات: «لا يعلمهن كثير من الناس»
فدل على أن من الناس من يعلمها، وإنما هي مشتبهة على من لم يعلمها، وليست مشتبهة في
نفس الأمر، فهذا هو السبب المقتضي لاشتباه بعض الأشياء على كثير من العلماء
اور ان (فقہاء) کے درمیان حلال و حرام
میں اختلاف واقع ہوا ہے اور اسکے اسباب یہ ہیں:
1۔ بعض اوقات نص ان پہ مخفی ہوتی ہے، اور
صرف چند لوگوں نے ہی اسے نقل کیا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے تمام اہل علم تک وہ نہیں پہنچتی۔
2۔ اور بعض اوقات اس میں دو احادیث نقل
کی جاتی ہیں، ایک حلت کے بارے میں اور دوسری حرمت کے بارے میں۔ تو ایک گروہ تک ایک
حدیث تک پہنچتی ہے اور دوسرے تک دوسری، اور وہ اس پر قائم رہتے ہیں جو ان تک پہنچی
ہے۔ یا دونوں احادیث ایک ایسے شخص تک پہنچتی تو ہیں جسے تاریخ معلوم نہیں ہوتی، تو
وہ ناسخ کی عدم معرفت کی وجہ سے توقف کرلیتا ہے۔
3۔ اور بعض اوقات اس میں صریح نص موجود
نہیں ہوتی لہزا علماء عموم، مفہوم اور قیاس سے اخذ کرتے ہیں، اور اس میں علماء کے فہم
میں کثیر اختلاف واقع ہوا ہے۔
4۔ اور بعض اوقات کسی چیز کے متعلق امر
یا نہی ہوتی ہے تو علماء کا اس پہ اختلاف ہوجاتا ہے کہ یہ امر وجوب پہ دلالت کرتا ہے
یا ندب پہ اور یہ نہی حرمت پہ دلالت کرتی یا تنزیہ پہ۔
علماء کے اختلاف کی جو وجوہات ہم نے ذکر
کی ہیں ان کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ اور اس کے باوجود بھی امت میں کوئی نہ کوئی
عالم ایسا ضرور ہوگا جس کا قول حق کے مطابق ہوگا۔ وہی اس حکم کو جاننے والا ہوتا ہے،
اور دوسرے لوگوں کیلیے یہ معاملہ مشتبہ ہوتا ہے اور وہ اسکے بارے میں علم نہیں رکھتے
ہیں۔ کیونکہ یہ امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتی، اور باطل لوگ حق کے لوگوں پر غالب
نہیں آ سکتے۔ لہذا حق کبھی بھی ضائع نہیں ہو سکتا اور ہر علاقے اور ہر زمانے میں اس
پر عمل کیا جاتا رہے گا۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے متشابہات کے بارے میں فرمایا:
"ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔" اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ان کو
جانتے ہیں، اور یہ صرف ان لوگوں پر مشتبہ ہیں جو ان کو نہیں جانتے، اور حقیقت میں یہ
معاملہ مشتبہ نہیں ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے علماء کو کچھ چیزوں میں
شبہ ہوتا ہے۔
(جامع العلوم والحكم - ت الفحل:
صفحہ 175 و 176)
امام ابن رجب الحنبلیؒ نے علماء کے اختلاف
کی چند وجوہات ذکر کی ہیں اور اشارہ دیا ہے کہ اسکے علاوہ بھی بہت ساری وجوہات ایسی
ہوتی ہیں کہ جسکی وجہ سے علماء کرام میں اختلافات ہوجاتے ہیں، ان تمام اسباب کو بتانے
کا مقصد یہ ہے کہ آئمہ کرام میں جب اختلافات دیکھنے کو ملتے ہیں تو اسے وسعت نظر سے
دیکھنا چاہیے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی بدنیت نہیں تھا بلکہ تمام آئمہ عادل تھے اور
نیک نیتی سے ہی دین کے احکامات کو اخذ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لہزا جو جہلاء ان اختلافات
کے اسباب کو سمجھنے سے جاہل ہیں تو وہی لوگ ہی آئمہ کرام کے متعلق بدزبان استعمال کرتے
ہیں۔ ان تمام اسباب کے ہوتے ہوئے بھی یہ بات معلوم شد ہے کہ ایسے علماء بہرحال ہر دور
میں موجود ہوتے ہیں جنکا قول حق کے مطابق ہوتا
ہے۔ طلباء کو یہی چاہیے کہ وہ بھی مجتہد بنیں اور قرآن و سنت اور شرعی دالائل کے مطابق
اپنے اجتہاد سے فیصلہ کریں کہ نصوص کے مطابق کون سا قول درست ہے اور جو درست ہو اسے
قبول کرلیں اور جو غلط ہو تو اسے رد کردیں کیونکہ آج ہمارے پاس وہ ذرائع، وہ وسائل
اور وہ زخیرہ موجود ہے جو اگلے ادوار میں ممکن نہ تھا تو آج کے دور میں نصوص کو تلاش
کرنا، انکو پرکھنا اور اختلافات میں راجع و مرجوع اقوال کو سمجھنا نہایت آسان ہوچکا
ہے۔ اب شرعی نصوص تک رسائی کی اتنی آسانی کے باوجود کوئی شخص اندھا مقلد بننے پہ ہی
مضد ہے تو اسکے لیے ہم قرآن مجید کو ہی پیش کرتے ہیں:
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ
اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ
آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقہ کی
پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، اگرچہ ان کے باپ دادا بے سمجھ اور
ہدایت یافتہ نہ بھی ہوں؟
(سورۃ البقرہ: آیت 170)
لہزا معلوم ہوا کہ اندھی تقلید کرنا کفار و مشکرین کا کام ہے، جو اسکے مرتکب ہیں وہ انہی کے عمل کی پیروی کررہے ہیں اور قرآن کا انکار کررہے ہیں۔
اللہ ہم سب کو اندھی تقلید کی گمراہی سے
محفوظ رکھے اور دین کا علم اور سمجھ بوجھ عطا فرمائے اور ہمارے عمل میں برکت عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین
والسلام: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment