انسان کو صحیح حدیث کی معرفت کیسی ہونی چاہیے؟
﴿انسان کو صحیح حدیث کی معرفت کیسی ہونی چاہیے؟﴾
امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقیؒ
(المتوفی 458ھ) لکھتے ہیں:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أخبرني دعلج
بن أحمد السجزي، حدثنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا أحمد بن الحسن الترمذي، حدثنا نعيم
ابن حماد قال: قلت لعبد الرحمن بن مهدي: كيف تعرف صحيح الحديث من خطئه؟ ! قال:
كما يعرف الطبيب المجنون
امام نعیم بن حمادؒ (المتوفی 228ھ) کہتے
ہیں کہ میں نے امام عبد الرحمن بن مہدیؒ (المتوفی 198ھ) سے کہا:
آپ صحیح حدیث کو غلط میں سے کیسے پہچان
لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: جیسے کوئی طبیب کسی پاگل کو پہچان لیتا ہے۔
)المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت عوامة: جلد 1 صفحہ 265 رقم 570،
وسندہ صحیح(
ایک طالب علم کو بھی اپنے اندر اتنی مہارت
پیدا کرنی چاہیے کہ اسکے سامنے جب کوئی حدیث آئے تو وہ اسکی تخریج و تحقیق کے ذریعے
سے اسے اس طرح پہچان لے جسطرح ایک ڈاکٹر اپنے مریض کو پہچان لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوگا
کہ آپ نے علم سیکھنا شروع کیا ہے تو آپ یہ چاہیں کہ اب آپکو مکمل مہارت حاصل ہوجائے!
ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ اس علم کو مسلسل سالوں کی محنت درکار ہوگی اور پھر جاکر انسان
میں کچھ قابلیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس علم میں کسی طبیب کی کچھ مثل اختیار کرسکے۔ امام
رحمہ اللہ کا طبیب کی مثال دینا کتنا ہی زیادہ فہم کا حامل ہے اسکا اندازہ ایک طبیب
یا ڈاکٹر ہی بہتر کرسکتا ہے کہ جب اسکے سامنے کوئی مجنون یعنی پاگل شخص آتا ہے تو طبیب
فورا اس کا مرض شناخت کرلیتا ہے اگرچہ باقی عام لوگ اس کے متعلق سو طرح کی اور باتیں
کریں گے کہ اس پہ سایہ ہے یا اس پہ جنات کا اثر ہے وغیرہ وغیرہ، مگر طبیب جب اس پاگل
شخص کو دیکھے گا تو فورا پہچان لے گا کہ اس پہ ساری باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ تو پاگل
ہے اور یہ اسکا مرض ہے۔ ایک محدث بھی اسی طبیب کی مثل ہونا چاہیے کہ جب اسکے سامنے
کوئی احادیث پیش ہوں تو وہ صحیح احادیث کو غلط احادیث سے اسی طرح الگ کرسکے جسطرح ایک
طبیب صحت مند لوگوں کے درمیان سے کسی مجنون کو الگ کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائدہ: امام عبد الرحمن بن مہدیؒ وہی ہیں
جنکے لیے امام شافعیؒ نے اپنی شہر آفاق تصنیف "کتاب الرسالہ" لکھی تھی اور
انکو ارسال کی تھی۔ امام عبد الرحمن بن مہدیؒ نے امام شافعیؒ سے خط لکھ کر ایسی کتاب
لکھنے کی گزارش کی تھی جو دین کے بنیادی علوم انکو سمجھا سکے چناچہ امام شافعیؒ نے
پہلی مرتبہ کتاب الرسالہ انہی کی فرمائش پہ انہیں لکھ کر ارسال کی تھی۔
جیسا کہ امام ابو بكر احمد الحسين البیہقیؒ
(المتوفی 458ھ) لکھتے ہیں:
أخبرنا أبو الحسين علي بن محمد بن عبد
الله بن بشران العدل ببغداد، أخبرنا أبو محمد دعلج بن أحمد بن دعلج قال: سمعت جعفر
بن أحمد الصاغاني يقول: سمعت جعفر ابن أخي أبي ثور يقول: سمعت عمي يقول: كتب عبد الرحمن
بن مهدي إلى الشافعي وهو شاب أن يضع له كتابا فيه معاني القرآن، ويجمع قبول
الأخبار فيه، وحجة الإجماع، وبيان الناسخ والمنسوخ من القرآن والسنة، فوضع له كتاب
"الرسالة"، قال عبد الرحمن بن مهدي: ما أصلي صلاة إلا وأدعو للشافعي رضي
الله عنه فيها
امام ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبیؒ
(المتوفی 240ھ) کہتے ہیں:
امام عبد الرحمن بن مہدیؒ نے امام الشافعیؒ
کو خط لکھا جب وہ جوان تھے کہ وہ انکے لیے ایک کتاب تصنیف کریں، جس میں قرآن کے معنی
ہوں اور اخبار (احادیث) کی قبولیت کے (اصول) جمع ہوں، اجماع کی حجیت اور قرآن و سنت
کے ناسخ و منسوخ کا بیان موجود ہے، انہوں نے انکے لیے کتاب الرسالہ تصنیف کی، امام
عبد الرحمن بن مہدیؒ کہتے ہیں: میں کوئی نماز ادا نہیں کرتا مگر میں اس میں امام شافعی
رضی اللہ عنہ کیلیے دعا کرتا ہوں۔
(المدخل إلى السنن الكبرى -
البيهقي - ت عوامة: جلد 1 صفحہ 26 رقم 53)
اسی طرح امام ابو بکر البیہقیؒ مزید لکھتے
ہیں:
وهذا هو الذي أشار إليه عبد الرحمن بن
مهدي، وهو أحد أئمة هذا الشأن، ولأجله صنف الشافعي كتاب الرسالة، وإليه أرسله، وذلك
أنه قيل له: كيف تعرف صحيح الحديث من خطئه؟ قال: كما يعرف الطبيب المجنون
یہی وہ بات ہے جسکی طرف امام عبد الرحمن
بن مہدیؒ نے اشارہ کیا ہے، اور وہ اس شان (فن) کے آئمہ میں سے ایک امام ہیں، انہی کیلیے
امام شافعیؒ نے کتاب الرسالہ تصنیف کی تھی اور انہیں ارسال کی تھی، اور اسی طرح ان
سے کہا گیا کہ: آپ صحیح حدیث کو غلط میں سے کیسے پہچانتے ہیں؟ انہوں نے کہا: جیسے کوئی
طبیب کسی پاگل کو پہچان لیتا ہے۔
(معرفة السنن والآثار: جلد
1 صفحہ 143 رقم 171)
اور یہی وجہ ہے کہ امام شافعیؒ کے تلامذہ
کو امام شافعیؒ کی یہ کتاب بہت محبوب تھی کیونکہ اس کتاب سے ہی انکو دینی علوم کی معرفت
حاصل ہونا شروع ہوئی تھی۔
جیسا
کہ:
امام ابو طاہر احمد بن محمد السلفیؒ (المتوفی
576ھ) لکھتے ہیں:
سمعت أحمد يقول: سمعت أبا القاسم عبد الله
بن أحمد بن علي المقرئ يقول: سمعت أبا بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري يقول:
سمعت محمد بن نصر أبا عبد الله يقول: سمعت إسحاق بن راهويه يقول: ((لما وردت مرو كتبت
إلى أحمد بن حنبل؛ أن يبعث إلي بشيء من كتب الشافعي حتى أصنف عليه، قال: فبعث إلي بكتاب
"الرسالة" وقال: هذا كتاب أعجب به عبد الرحمن بن مهدي))
امام اسحاق بن راہویہؒ کہتے ہیں کہ: جب
میں مرو (شہر) پہنچا تو میں نے امام احمد بن حنبلؒ کو خط لکھا کہ مجھے امام شافعیؒ
کی کتب میں سے کچھ بھیجیں تاکہ میں اس پہ تصنیف کرسکوں، کہا: انہوں نے مجھے کتاب الرسالہ
بھیجی اور کہا: یہ وہ کتاب ہے جو امام عبد الرحمن بن مہدیؒ کو بہت پسند تھی۔
(الطيوريات: جلد 2 صفحہ 760
و 761 رقم 681 وسندہ صحیح)
اور امام عبد الرحمن بن مہدیؒ کو یہ کتاب
بہت زیادہ پسند ہوتی بھی کیوں نہ ہوتی کیونکہ اسی کتاب سے تو انہوں نے اپنی جوانی میں
علم حاصل کیا، جب انہیں دین کے بنیادی علوم کی معرفت کی ضرورت تھی تو امام شافعیؒ کی
اسی کتاب نے ہی تو انکی ضرورت کو پورا کیا تھا اور پھر دیکھیں کہ امام شافعیؒ کے علم
و قلم کے چشمے سے پانی پینے والے آئمہ کہاں کہاں کس کس علمی مرتبہ و منزل تک پہنچے
ہیں۔ قصہ مختصر یہکہ:
امام ابو بکر البیہقیؒ (المتوفی 458ھ)
لکھتے ہیں:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال: حدثني
أبو الحسن: أحمد بن محمد المقري بأبيورد قال: حدثنا جعفر بن محمد بن عبد الرحمن.
ح. قال: وأخبرنا عبد الله بن محمد بن حيان
قال: حدثنا محمد بن عبد الرحمن.
ح. وأخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي قال:
سمعت أحمد بن محمد بن محمد بن العمركي السرخسي - بها - قال: حدثنا أبو جعفر الأصبهاني
قال: حدثنا أبو القاسم: عبد الله بن محمد الأشقر قال: سمعت الفضل بن زياد القطان يقول:
سمعت أحمد بن حنبل يقول: ما أحد مس
بيده محبرة وقلما إلا وللشافعي في عنقه منة
فضل بن زیاد القطان کہتے ہیں کہ میں نے
امام احمد بن حنبلؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا:
جس شخص نے بھی اپنے ہاتھ سے دوات اور قلم
کو چھوا ہے اسکی گردن پہ امام شافعیؒ کا احسان ہے۔
(مناقب الشافعي للبيهقي: جلد
2 صفحہ 255 وسندہ صحیح)
فائدے کے طور پہ اتنا کلام کافی ہے، ان شاء اللہ تعالی ہم آئندہ مزید کسی تحریر میں ایسے مزید فوائد ذکر کردیں گے۔
اللہ تعالی ہمارے علم میں اضافہ فرمائے
اور ہمیں اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالی اسی طرح ہم سے اپنے دین کی
خدمت لیتا رہے اور ہم اسی طرح امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام سرانجام دیتے رہیں۔
آمین ثم آمین
والسلام: ابو الحسنین ڈاکٹر شہزاد احمد
آرائیں
Post a Comment