-->

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو کلب کہا؟

 

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو کلب کہا؟

 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات، کردار، اور آپ کے اصحاب کی تنقیص کی ناکام کوشش کرتے رہنا تو نواصب کا پرانا مشغلہ ہے۔

کبھی حرمت سے قبل شراب نوشی کی تہمت، کبھی عباس سے ان پر سب و شتم کرواتے ہیں اور کبھی کچھ۔۔

 

ابھی ایک روایت کو عام کیا جا رہا ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے ’ایک‘ موؐذن کو ’کتا‘ کہا!!!

شاید یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی زبان بھی ہم فرقہ بازوں کی طرح بازاری تھی... نعوذ باللہ..

یا پھر یہ کہ

توبہ توبہ کتنی غلط بات کر دی حضرت علی نے!!! “

موذن کو کتا کہنا کس قدر قبیح قول ہے۔۔۔

وہ الگ بات کہ خود انہوں نے مساجد میں بیٹھے، خطبہ دیتے، حمد و ثناء کے بعد ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کی ہوتی ہے...

 

پندرہ بیس اور باتیں اس طرح کی ملا کر اختتام یہاں ہوتا ہے کہ چلیں اب کوئی اور بھی کسی کو سب و شتم کر دے تو کون سے آفت ٹوٹ پڑی!!

 

چلیں،،،

روایت مندرجہ ذیل ہے:

 

«المستدرك على الصحيحين» (1/ 602):

حدثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالُويَهْ الْجَلَّابُ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْهَرِيُّ، ثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذَرِيحٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّخَعِيِّ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه فِي الْمَسْجِدِ الْأَعْظَمِ، وَالْكُوفَةُ يَوْمَئِذٍ أَخْصَاصٌ، فَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لِلْعَصْرِ. فَقَالَ: اجْلِسْ. فَجَلَسَ، ثُمَّ عَادَ فَقَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: هَذَا الْكَلْبُ يُعَلِّمُنَا بِالسُّنَّةِ. فَقَامَ عَلِى فَصَلَّى بِنَا الْعَصْرَ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا، فَرَجَعْنَا إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي كُنَّا فِيهِ جُلُوسَا، فَجَثَوْنَا لِلرُّكَبِ، تَتَزَوَّرُ الشَّمْسُ لِلْمَغِيبِ نَتَرَاءَاهَا.

هَذَا حَدِيثٌ صحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بَعْدَ احْتِجَاجِهِمَا بِرُوَاتِهِ.

 

رواۃ پر غور کریں:

یہاں اس راوی کا نام زیاد بن عبد الرحمن بیان ہوا ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے اس کو روایت کر رہا ہے۔

 

یہی روایت سنن الدارقطني (1/ 471) میں آتی ہے۔ وہاں نام زِيَاد بْنِ عَبْدِ اللَّهِ النَّخَعِيِّ ہے!

 

بیہقی نے بھی حاکم سے زیاد بن عبد الرحمن ہی روایت کیا ہے!!

 

یہ زیاد بن عبد الرحمن سے متعلق کوئی خبر دے دیں کہ یہ کون ہیں؟

 

اگر کہیں کہ یہاں راوی سے غلطی ہوگئی،،، عبد اللہ کو عبد الرحمن میں بدل دیا۔۔۔

تو جواب ہے کہ یہ راوی کی غلطیوں کے احتمال آپ لفظ ’’کلب‘‘ پر کیوں نہیں لگاتے؟؟؟ (جس کا قوی احتمال آگے بیان ہوگا)

 

خیر۔۔

صحیح نام تو زیاد بن عبد اللہ ہی ہے۔ جیسا کہ دارقطنی نے ذکر کیا ہے۔

لیکن اس پر بھی دارقطنی کا کہنا ہے کہ:

 

«سنن الدارقطني» (1/ 471):

زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّخَعِيُّ مَجْهُولٌ لَمْ يَرْوِ عَنْهُ غَيْرُ الْعَبَّاسِ بْنِ ذَرِيحٍ

 

ہاں برقانی کی سوالات دارقطنی نے اس کو ’’يعتبر به‘‘ قرار دیا ہے۔ یعنی جب کوئی ایسی بات بیان کرے جس میں اس کی کوئی متابعت نہ ہو تو قبول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں!!!

ہے تو مجہول...

 

اب اس روایت سے حضرت علی کے کردار پر کلام کریں گے؟

 

جرح و تعدیل اپنی جگہ۔۔

اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں...

 

 اب تصویر کا ایک اور رخ بھی دیکھ لیں:

 

یہ موؐذن کون ہیں جن کو حضرت علی کی زبان سے کلب کہلوایا گیا ہے؟؟؟

بلکہ کہنا چاہیے کہ "کلب کہلوانا کیوں ضروری ہو گیا ہے"...

 

ان کا نام عامر بن النباح ہے جو ’’مؤذن علي‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔۔۔ حضرت علی کے خاص اصحاب میں سے تھے...

 

حضرت علی کہیں: يَا ‌ابْن ‌النباح اسفر بِالْفَجْرِ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں،

کہیں: يا ‌ابنَ ‌النَّبَّاح أَقِمِ الصَّلاةَ

کہیں: أَذِّنْ يَا ‌ابْنَ ‌النَّبَّاحِ

کہیں پر ان کو اعلان کا حکم دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں: أَمَرَ ابْنَ النَّبَّاحِ فَنَادَى

کہیں فرماتے: يا ‌ابن ‌النباح، ادع أمراء الأشياع، ادع لي العرفاء، ادع لي المقاتلة، هذا ما لكم فاحملوه إلى مساجدكم فاقسموه بينكم.

 

یہاں تک کہ شہادتِ امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے واقعہ میں بھی ذکر ملتا ہے:

 

«مقتل علي لابن أبي الدنيا» (ص28):

كان علي بن أبي طالب يخرج إلى صلاة الفجر فيقول الصلاة الصلاة فبينا هو كذلك إذ ابتدره رجلان فضربه أحدهما ضربة بالسيف فسبقه ‌ابن ‌النباح راجعا وأخذ الآخر...

 

«مقتل علي لابن أبي الدنيا» (ص30):

«لما كانت الليلة التي أصيب فيها علي رحمه الله أتاه ‌ابن ‌النباح حين طلع الفجر يؤذنه بالصلاة وهو مضطجع»

 

جس شخص کو حضرت علی کی اس قدر قربت ہو، آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ حضرت علی اس پر سب و شتم کریں گے؟؟؟ تنقیص کریں گے؟؟؟

 

اگر کلب کا لفظ بالفرض مان بھی لیں تو کیا اس کو ہنسی مذاق پر محمول نہیں کیا جا سکتا؟ جو کہ بہت قریبی احباب میں آپس میں ہوتی ہے... آپ جتنے بھی علامے شلامے ہوں، اپنے بچپن کے سنگی کے سامنے آپ "اوئے" چھوٹے، موٹے، کالو، شیدا ہی ہوتے ہیں... (الا یہ کہ آپ ان انسانی بے تکلفی کی منازل کو عبور کر کے کم و بیش فرشتوں کے مقامِ تقدس پر پہنچ جائیں)...

 

پھر یہی واقعہ ابنِ سعد بھی بیان کرتے ہیں اور اس میں تو کوئی کلب کا ذکر نہیں۔۔۔

 

«الطبقات الكبير» (8/ 357 ط الخانجي):

أخبرنا أبو أُسامة عنْ إسحاق بن سليمان الشيباني، عن أبيه، عن العبّاس بن ذُريح، عن زياد بن عبد الله النّخَعي قال: كنّا قعودًا عند عليّ بن أبي طالب فجاءه ‌ابن ‌النّبّاح يؤذنه بصلاة العصر فقال: الصلاةَ الصلاةَ. قال: ثمّ قام بعد ذلك فصلّى بنا العصر فجثونا للرّكَب نتبصّر الشمسَ وقد ولّت وإنّ عامّة الكوفة يومئذٍ لأخْصاص.

 

آپ کو کس شیطان نے مس کیا ہے جو آپ کو حضرت علی کے کردار پر انگلی اٹھانے کے لیے کلب والی روایت کو قبول و عام کرنے پر مصر ہیں جبکہ اس روایت کا کوئی ذکر نہیں؟؟؟

 

بقول میر:

جامۂ احرام زاہد پر نہ جا

تھا حرم میں لیک نا محرم رہا

 

تحریر: الشیخ المحدث الفقہی ابو داؤد وجاہت حسین الحنفی حفظہ اللہ تعالی

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

حاشیہ

 از تلمیذ شیخنا ابو داؤد: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں

 

  امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ)  اس روایت کو نقل کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

معلى بن منصور، ثنا عبد الرحيم بن سليمان، ثنا الشيباني عن العباس بن ذريح، عن زياد بن عبد الله النخعي، قال: " كنا جلوسا مع ‌علي في المسجد الأعظم، فجاءه المؤذن، فقال: الصلاة يا أمير المؤمنين. فقال: اجلس. فجلس، ثم عاد فقال ذلك له، فقال ‌علي: هذا الكلب يعلمنا السنة! ! فقام ‌علي ‌فصلى ‌بنا ‌العصر، ثم انصرفنا فرجعنا إلى المكان الذي كنا فيه [جلوسا] فجثونا للركب لنزول الشمس للمغيب نتراءاها ".

زياد، قال الدارقطني: مجهول.

قلت: ولا يدل ‌على استحباب التأخير

 

زیاد بن عبد اللہ النخعی کہتا ہے: ہم سیدنا علی المرتضیؑ کے ساتھ مسجد اعظم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مؤذن آیا اور کہا: نماز یا امیر المومنین!آپ ؑ نے کہا: بیٹھ جاؤتو وہ بیٹھ گیا، پھر اس نے ایسا کیا اور ان سے یہی کہا، تو سیدنا علیؑ نے کہا:یہ کتا ہمیں سنت سکھا رہا ہے! پھر سیدنا علیؑ اٹھے اور ہمیں عصر کی نماز پڑھائی۔ اسکے بعد ہم دوبارہ اسی جگہ آگئے جہاں بیٹھے تھے۔ تو ہم گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے تو سورج غروب ہونے کے مقام پہ اتر رہا تھا اور ہم اسے دیکھنے لگے۔

زیاد کے متعلق امام دارقطنیؒ نے کہا: یہ مجھول ہے۔

میں (ذھبی) کہتا ہوں: اور یہ تاخیر کے مستحب ہونے پہ دلالت نہیں کرتا۔

(تنقيح التحقيق للذهبي: جلد 1 صفحہ 104)

 

معلوم ہوا کہ امام ذھبیؒ نے بھی المستدرک کی تلخیص میں اس روایت کو صحیح کہنے پہ بعد میں رجوع کرلیا تھا اور امام دارقطنیؒ کے تضعیف کے قول پہ اعتماد کرکے ہوئے اس روایت کے حجت ہونے پہ انکار کیا تھا۔  امام بیہقیؒ  (المتوفی 458ھ) نے بھی  اس روایت کو امام حاکمؒ کی المستدرک سے نقل کرتے ہوئے کلام کیا ہے کہ:

كذا في كتابي: زياد بن عبد الرحمن وقد:

أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي، أنا علي بن عمر الحافظ، ثنا أبو بكر الشافعي وأحمد بن محمد بن زياد، قالا: ثنا محمد بن شاذان الجوهري، فذكره بنحوه، وقال : زياد بن عبد الله النخعي.

قال علي بن عمر: زياد بن عبد الله مجهول، لم يرو عنه غير العباس بن ذريح .

قال الإمام أحمد: والعباس بن ذريح غير محتج به في الصحيح

 

میرے پاس (امام حاکمؒ کی) کتاب میں یہ زیاد بن عبد الرحمن ہے۔ اور

ہمیں ابو عبد الرحمن السلمي نے بتایا، انہوں نے کہا: علی بن عمر الحافظ نے ہمیں بتایا، اور کہا: ہمیں ابو بكر الشافعي اور احمد بن محمد بن زياد نے بتایا، انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن شاذان الجوهري نے بتایا، انہوں نے اس کا ذکر اسی طرح کیا اور کہا: زیاد بن عبد الله النخعی۔

امام علی بن عمر الدارقطنیؒ نے کہا: زیاد بن عبد اللہ مجھول ہے، اس سے عباس بن ذریح کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا۔

امام احمدؒ نے کہا: اور عباس بن ذریح پہ صحیح میں احتجاج نہیں کیا جاتا۔

(الخلافيات - البيهقي - ت النحال: جلد 2 صفحہ 197 و 198 رقم 1372 و 1373)

 

امام بیہقیؒ کی کتاب کا اختصار کرتے ہوئے امام احمد بن فرحؒ (المتوفی 699ھ) امام احمد کے قول کو امام احمد کے بجائے امام بیہقیؒ کے قول کے طور پہ نقل کرتے ہیں:

قال البيهقي: والعباس بن ‌ذريح ‌غير ‌محتج ‌به ‌في ‌الصحيح

(مختصر خلافيات البيهقي: جلد 1 صفحہ 538)

 

لہزا قصہ مختصر یہکہ امام حاکمؒ کے شاگرد امام بیہقیؒ کے نزدیک بھی یہ روایت صحیح نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے اور اس سے صحیح میں احتجاج کرنا انکے نزدیک درست نہیں۔

 

اسی طرح امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ)بھی امام دارقطنیؒ کے کلام کو حجت بناتے ہوئے اس اثر کی تضعیف کرتے ہیں۔

(التحقيق في أحاديث الخلاف: جلد 1 صفحہ 293 رقم 344)

 

الفائدہ فی العلل:

امام دارقطنیؒ نے علل میں بھی اس روایت کی ایک علت پہ کلام کیا ہے کہ:

وسئل عن حديث زياد بن عبد الله النخعي، عن علي في تأخير صلاة العصر وقوله للمؤذن جاءه يؤذنه بها هذا الكلب يعلمنا بالسنة ثم صلاها عند غروب الشمس

فقال: يرويه الشيباني عن العباس بن ذريح عنه حدث به عبد الرحمن بن سليمان عن الشيباني فنحا به نحو الرفع وقال يعلمنا بالسنة.

ورواه إسحاق بن أبي إسحاق الشيباني، عن أبيه بهذا الإسناد وقال يعلمنا بالصلاة ولم يقل بالسنة

 

اور (امام دارقطنیؒ سے) زیاد بن عبد اللہ النخعی کی سیدنا علیؑ سے نماز عصر کی تاخیر کے متعلق روایت کردہ حدیث پہ سوال ہوا اور (اس میں)سیدنا علیؑ کا موذن سے قول (بیان کیا گیا) کہ جب وہ اس پہ خبر دارکرنے آیا (تو سیدنا علیؑ نے کہا:) یہ کتا ہمیں سنت سکھا رہا ہے۔پھر انہوں نے سورج کے غروب ہونے پہ نماز ادا کی۔

تو امام دارقطنیؒ نے کہا: اسے الشیبانی نے العباس بن ذریح سے روایت کیا ہے ، عبد الرحمن بن سلیمان نے الشیبانی سے اسے روایت کیا ہے اور اس نے اسے مرفوع کیا اور کہا: یہ ہمیں سنت سکھا رہا ہے۔

اور اسحاق بن ابی اسحاق الشیبانی نے اپنے والد سے اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور کہا: یہ ہمیں نماز کے متعلق سکھا رہا ہے!  اور انہوں نے سنت کا لفظ نہیں کہا۔

(العلل الواردة في الأحاديث النبوية: جلد 3 صفحہ 216 رقم 369)

 

معلوم ہوا کہ اس روایت کا یہ حصہ بھی غیر محفوظ اور معلول ہے جس میں سیدنا علی المرتضیؑ نے موذن کو یہ بات کہی ہے، رواۃ نے اختلاف کیا ہے اور اس حصے کو محفوظ نہیں رکھا۔ اسی طرح اس روایت کتے کا لفظ بھی معلول ہے اور ثابت نہیں، جیسا کہ ہمارے استاد محترم شیخ وجاہت الحسین الحنفی حفظہ اللہ اوپر بیان کرچکے ہیں کہ طبقات ابن سعد کی روایت میں کتے کے الفاظ موجود نہیں، لہزا یہ صریح دلیل موجود ہے کہ اس روایت کا یہ حصہ علتوں سے بھرپور ہے اور قطعا محفوظ نہیں ہے۔

 

آخر میں ہم امام حاکمؒ کی تصحیح کے متعلق عرض کرتے ہیں کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ کے شاگرد امام برھان الدین البقاعیؒ (المتوفی 885ھ) لکھتے ہیں:

قال شيخنا: إنما ‌وقع ‌للحاكم ‌التساهل، إما لأنه سود الكتاب لينقحه، فأعجلته المنية، أو لغير ذلك

 

ہمارےشیخ (امام ابن حجر عسقلانیؒ) نے کہا: "حاکم سے تساہل اس لیے ہوا کہ یا تو انہوں نے کتاب کا مسودہ تیار کیا تاکہ بعد میں اس کی تصحیح کریں، لیکن ان کی موت نے انہیں اس سے قبل آلیا ، یا کسی اور وجہ سے۔"

(النكت الوفية بما في شرح الألفية: جلد 1 صفحہ 141 و 142)

 

اس سے معلوم ہوا کہ امام حاکمؒ نے اپنی کتاب المستدرک اپنی عمر کے آخری حصے میں لکھی اور اسکا مسودہ تیار کرلیا اور بعد میں اسکی تصحیح کا کام کرنا ابھی باقی تھا کہ جو چیزیں انہوں نے اپنی کتاب میں صحیح سمجھ کر درج کردی تھی اور بعض میں انکو چھانٹی کرکے مزید بہتری کا کام کرنا تو وہ ان سے نہ ہو پایا اور زندگی نے اسکی مہلت نہیں دی، لہزا امام حاکمؒ کی تصحیح کرنا اس چیز کو قطعی طور پہ ثابت نہیں کرتا کہ یہ انکے نزدیک واقعتا صحیح تھی، جیسا کہ انکے تلمیذ (شاگرد) امام بیہقیؒ بھی اپنے شیخ سے ہی اسے روایت کرتے ہیں اور پھر اس روایت کے ضعف کا کلام کرتے ہیں۔ لہزا تحقیق کے مطابق  بات یہی ہے کہ یہاں امام حاکمؒ کو اس روایت کی تصحیح کرنے میں غلطی لگی ہے ۔

 

لہزا مندرجہ بالا تمام بحث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اول تو یہ ساری کی ساری روایت ہی ضعیف ہے، غیر ثابت ہے۔ اور اسکے بعد اس روایت میں سیدنا علی المرتضیؑ کے کلمات کو رواۃ نے محفوظ نہیں کیا بلکہ اختلاف کرتے ہوئے معلول بیان کیا ہے۔ نہ تو اس میں کتے کے الفاظ محفوظ ہیں اور نہ ہی اس میں اس کے بعد کا جملہ محفوظ ہے۔ لہزا یہ روایت اس بنا پہ منکر جدا ہے۔

 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں