امام شعبہؒ اور قتادہؒ کی تدلیس پہ ایک متعصب خائن کا رد بلیغ
﴿امام شعبہؒ اور
قتادہؒ کی تدلیس پہ ایک متعصب خائن کا رد بلیغ﴾
وعلیکم السلام ورحمتہ
اللہ وبراکۃ
میں نے امام شعبہؒ کا امام قتادہؒ کے متعلق ایک قول پوسٹ کیا تھا کہ امام شعبہ
کہتے ہیں کہ میں قتادہ کے منہ کی طرف دیکھتا تھا جب وہ سمعت اور حدثنا کے الفاظ
کہتے تو میں انکی روایت لکھ لیتا اور جب وہ کہتے کہ فلاں نے حدیث بیان کی تو میں
اسے ترک کردیتا۔
امام شعبہ رحمہ اللہ
(متوفی 160ھ) نے اپنے مدلس استاد قتادہ رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا:
میں قتادہ کے منہ کو
دیکھتا رہتا، جب آپ کہتے: میں نے سنا ہے یا فلاں نے ہمیں حدیث بیان کی، تو میں اسے
یاد کر لیتا اور جب وہ کہتے: فلاں نے حدیث بیان کی، تو میں اسے چھوڑ دیتا تھا۔
(تقدمۃ
الجرح والتعدیل ص169، وسندہ صحیح)
اس پہ ایک جناب نے اعتراض کیا کہ امام بخاریؒ نے بھی صحیح بخاری میں شعبہ کی قتادہ
سے معنعن روایات نقل کی ہیں، تو جواب یہی ہے کہ ہم نے کب یہ بات کہی کہ شعبہ کی
قتادہ سے معنعن روایات وجود ہی نہیں رکھتی، بلکہ ایسا ہے تبھی تو محققین اور آئمہ
نے امام شعبہؒ کا یہ دوسرا قول استعمال کیا ہے جسے میں نیچے زکر کررہا ہوں۔ ان
لوگوں کا یہی کام ہے کہ ایک چیز پکڑ کر اپنا منجن بیچیں گے مگر اس مسئلے پہ موجود
تمام دلائل اور قرائن اور مناہج کو نہ تو اکھٹا کریں گے، ناہی ان میں غور و فکر
کریں گے، بس اپنے کنویں کا مینڈک بن کر خود کو کل کائنات سمجھ لیں گے۔
خیر امام شعبہؒ کہتے ہیں:
كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش، وأبي
إسحاق، وقتادة
ميں تین آدمیوں کی تدلیس کیلیے تمہارے لیے کافی ہوں: اعمش، ابی
اسحاق اور قتادہ۔
(مسألة
التسمية لمحمد بن طاهر المقدسي: صفحہ 47 وسندہ صحیح)
اگر امام شعبہؒ کا وہ قول مطلقا قتادہ کی معنعن کو زکر نہ کرنے کے متعلق لینا ہے تو پھر اس قول کا کیا معنی ہوا؟ ظاہر ہے امام شعبہؒ نے یہاں یہ بتایا ہے جب میں ان تینوں سے غیر سماع کی تصریح کی روایات بیان کروں تو وہ سماع پہ محمول ہونگی کیونکہ انہوں نے اسے اچھی طرح چھانٹ کر صاف کرلیا ہے۔ یاں پھر آپ امام شعبہؒ کو متناقض قرار دے دیں یا پھر مفہوم کو سمجھیں کہ امام شعبہؒ قتادہ کی معنعن مرویات کو ترک کرتے تھے اور جہاں انہوں نے معنعن مرویات روایت کی ہیں تو وہاں انہوں نے اس چیز کی تحقیق کرلی ہے کہ تدلیس واقع نہیں ہوئی لہزا وہ سماع پہ محمول ہونگی،
اور یہی علوم الحدیث
میں قائدہ ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ امام شعبہؒ کے اس قول کو لکھنے کے بعد
فرماتے ہیں:
قلت فهذه قاعدة جيدة في أحاديث هؤلاء الثلاثة أنها إذا
جاءت من طريق شعبة دلت على السماع ولو كانت معنعنة
میں کہتا ہوں کہ یہ ان تینوں کی احادیث میں عمدہ قائدہ ہے جو شعبہ کے طریق سے آئی
ہوں تو وہ سماع پہ دلالت کریں گی اگرچہ وہ عنعنہ سے ہی کیوں نہ ہوں۔
(تعريف أهل
التقديس: صفحہ 59)
مگر کیا کریں کہ
متعصب لوگوں کو یہ چیز کہاں سمجھ آنی۔ پھر موصوف کہتے ہیں کہ ہم متکبر ہوکر خالد
الحایک کو جاہل کہیں۔ بھئی ہم کیوں کہیں؟ یہ حرکتیں تو آپ لوگوں کی ہیں، ہم تو ہر
سنجیدہ شخص کی عزت کرنے کے قائل ہیں اور اختلاف اپنی جگہ۔ میں نے کتنے دوستوں سے
اختلاف کیا ہے سوائے کم ظرفوں کے کبھی کسی نے اس طرح کی بات نہیں کی۔ اس کے بعد
موصوف کہتے ہیں کہ بخاری کی ایک روایت میں شعبہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں اور اس
میں اسکا عنعنہ ہے، وہی روایت جب مسند ابی یعلی کے اندر آتی ہے تو امام شعبہؒ کو
بھی قتادہ کی ایک حدیث کے اندر تدلیس کا شبہ تھا۔ چلیں ہم دونو کتابوں سے یہ روایت
آپکے سامنے رکھتے ہیں:
حدثنا أبو الوليد
قال: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (سووا صفوفكم،
فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة)
اب آپ مسند ابی یعلی کی روایت ملاحظہ کیجیے:
حدثنا أحمد، حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال:
قال أنس: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "سووا صفوفكم، فإن تسوية
الصف من تمام الصلاة"، قال أبو داود: قال شعبة: داهنت في هذا، لم أسأل قتادة:
سمعه أم لا؟
امام ابی یعلیؒ اس روایت کو لکھنے کے بعد امام ابو داؤدؒ کے
حوالے سے امام شعبہؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ: مجھے اس میں شک ہے، میں قتادہ سے
سوال نہیں کرسکا کہ انہوں نے یہ سنا یا نہیں؟
(مسند أبي
يعلى - ت السناري: جلد 2 صفحہ 52 رقم 3211)
جی جناب تو ہماری عرض
یہ ہے کہ ہمیں اس پہ کوئی اعتراض ہی نہیں کہ امام شعبہ کو اس روایت میں شک تھا
تدلیس کا اور وہ قتادہ سے سماع کی تصریح کا سوال نہیں کرسکے، مگر
ساتھ ہی عرض ہے کہ ہم اوپر امام شعبہؒ کا عمومی عمل اور ان کا عمومی قائدہ بیان
کرچکے ہیں کہ امام شعبہ کی ان سے روایت سماع پہ محمول کی جائے گی اور امام شعبہؒ
نے انکی غیر سماع کی صراحت کی مرویات کو ترک کیا تھا، اس میں یہ روایت تخصیص رکھتی
ہے اور ان دونو دلائل کے تحت یہ روایت داخل نہیں ہوتی، جیسا کہ امام ابن ابی حاتم
الرازیؒ لکھتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں:
كل شئ حدثنا شعبة عن قتادة عن أنس فهو على السماع
من أنس، إلا حديث إقامة الصف، قال قلت ليحيى: شعبة أجمل هذا لك؟ قال: نعم
امام شعبۃ نے شب کچھ جو قتادہ عن انس کی سند سے روایت کیا ہے وہ سیدنا انسؓ سے
سماع پر ہے، سوائے صف کو قائم کرنے کی حدیث کے۔ میں نے یحیی سے کہا: شعبہ آپ کیلیے
اس میں خوبصورت ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔
(الجرح
والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 1 صفحہ 239 وسندہ صحیح)
لہزا یہ چیز معلوم ہوگئی کہ اس روایت کے علاوہ تمام کی تمام روایات اس سند سے سماع
پہ ہیں۔اس روایت کی تخصیص موجود ہے لہزا یہ اس عمومی قائدے اور قول سے الگ ہوگئی
جیسے یہاں امام یحیی نے عموم سے اسے مخصوص کرکے الگ کردیا۔ لہزا یہ دلیل کسطرح ایک
عموعی قائدے اور اصول کو رد کرتی ہے؟
مزید یہکہ یہ دلیل تو ہمارے موقف کی تاعید کررہی ہے کہ امام شعبہؒ تدلیس کی شبہ کی
وجہ سے احادیث کو ترک کرتے تھے اور سماع کی تصریح کے متعلق سوال کرتے تھے، ایک بار
نہیں کرسکے تو اسکا بیان کردیا کہ یہاں شبہ ہے مجھے اور آئمہ نے بھی اس روایت کو
انکے عمومی عمل سے مخصوص کرکے الگ کردیا۔
اسکے بعد ہمارے مخالف موصوف کہتے ہیں کہ ہم کمزور منہج والوں نے ایک قول سے فیصلہ
دے دیا، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے پاس اپنی بات کیلیے کتنے اقوال موجود ہیں اور
کیا کچھ ہے، سارے پتے کبھی ایک ساتھ ظاہر نہیں کیے جاتے، لہزا انکے بقول جو دوسرا
قول ہے اسکی حالت بھی آپ احباب کے سامنے ہے کہ انکا مضبوط منہج کیسا ہے!،
جبکہ ہمارا قطعی طور پہ کوئی دعوی نہیں کہ تمام آئمہ کے درمیان مسئلہ تدلیس میں یہ
اتفاقی موقف ہے، ہم نے آئمہ کے اختلاف میں ایک موقف کو راجع سمجھ کر اس پہ عمل کیا
ہے، جس پہ ان علم کل رکھنے والے حضرات اس مسئلے کے اختلاف کو سمجھے بغیر اپنے ایک
موقف کو قطعی طور پہ نازل شدہ نص بنا کر بیٹھے ہیں۔ جبكہ یہ علم اور اسکے ذریعے
احادیث پہ لگائے گئے احکامات تمام اجتہادات پہ مبنی ہیں:
امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
التمثيل بالحديث الذي
يروى في الصحيح وينازع فيه بعض العلماء وأنه قد يكون الراجح تارة وتارة المرجوح
ومثل هذا من موارد الاجتهاد في تصحيح الحديث كموارد الاجتهاد في في الأحكام
اس حدیث کی مثال کہ جو صحیح میں مروی ہو اور بعض علماء کے درمیاں اس میں تنازع ہو
اور وه كبهی زیادہ راجع اور کبھی مرجوع ہوسکتا ہے اور اسی طرح حدیث کی
تصحیح میں اجتہاد واقع ہوا ہے جسطرح احکام میں اجتہاد واقعہ ہوا ہے۔
(مجموع
الفتاوى: جلد 18 صفحہ 22)
اسی طرح امام ابن صلاح اپنی اصول حدیث کی کتاب جسے تلقی بالقبول حاصل ہے، میں
فرماتے ہیں:
فهذا هو الحديث الذي يحكم له بالصحة بلا خلاف بين أهل
الحديث. وقد يختلفون في صحة بعض الأحاديث لاختلافهم في وجود هذه الأوصاف فيه، أو
لاختلافهم في اشتراط بعض هذه الأوصاف، كما في المرسل
پس یہ وہ حدیث ہے جسے اہل الحدیث کے درمیان بغیر اختلاف کے صحیح قرار دیا جاتا ہے،
اور بعض احادیث کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے تو وہ اس میں مذکورہ اوصاف کی وجہ ہے
یاں ان بعض اوصاف کو شرائط قرار دینے میں اختلاف ہے، جیسا کہ مرسل کے بارے میں ہے۔
(مقدمة ابن
الصلاح: صفحہ 13)
لہزا معلوم ہوا کہ آئمہ کے درمیان اصول حدیث کی شرائط میں اختلاف واقع ہوا ہے جس
کی وجہ سے حدیث پہ حکم لگانے میں بھی اختلاف واقع ہوتا ہے اور یہ ایک اجتہادی امر
ہے، اس میں کوئی قطعی دعوی موجود نہیں۔ لہزا آئمہ کے مناہج اور انکے موقفات کو
سمجھنا ضروری ہے اور جو کوئی ان اختلافات میں آئمہ کا کوئی بھی اجتہادی قول اختیار
رکرتا ہے تو اس پہ اپنا بغض ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔
پھر ہمارے مخالف موصوف ٹونٹ بازی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس علم کی گہرائی کی قدر
کریں اور خود آپ انہوں نے اسکی گہرائی کی جو قدر کی ہے وہ آپکے سامنے ہے۔ پھر کہتے
ہیں کہ محض ایک سند میں سماع کی تصریح مل گئی تو لو جی سماع کی تصریح مل گئی، جو
چیز متقدمین کو نہیں ملی وہ متاخرین کو مل گئی۔
اب ایسے گدھے کو کون سمجھائے کہ متقدمین انسان ہیں ناکہ فرشتے اور ناہی ان پہ کوئی
وحی نازل ہوتی ہے، ظاہر سی بات ہے جو سماع کی تصریح دکھاتا ہے وہ بھی تو انہی
متقدمین کی کتب میں سے ہی دکھاتا ہے یا متاخرین نے کوئی اپنی اسناد گھڑ کر کتب
تیار کی ہوئی ہیں؟ اور سماع کی تصریح کی شرط بھی تو متقدمین سے ملتی ہے، جیسا کہ
امام مسلم رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور وغیرہ
وغیرہ۔ کیا یہ سب جاہل تھے یاں انہیں علم نہیں تھا یاں یہ متقدمین میں نہیں آتے
یاں یہ گمراہ تھے معاذ اللہ اور آج ہمارے مخالف موصوف نے جیسے کل علم کا حصول
کرلیا ہے جو متاخرین آئمہ پہ طعن شروع کردیا ہے، خود موصوف ہمارے رد میں پہلی دلیل
ہی متاخر امام کو بنا رہے واہ۔
ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ متقدمین
ایک روایت کو صحیح کہتے اسے حجت بناتے اور متاخرین اسکی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے
ہیں، تو کیا اسکو بنیاد بنا کر متقدمین آئمہ پہ طعن شروع کردیا جائے؟ انسان کو
اپنی اوقات میں رہ کر بات کرنی چاہیے۔
ان لوگوں کو چاہیے کہ دوسروں کو کم تر اور خود کو عقل کل سمجھنا چھوڑ دیں کہ سب
کچھ انہوں نے پڑھ لیا ہے اور دوسروں نے نہیں پڑھا، جو کچھ یہ کہہ رہے وہ ہم نے بھی پڑھا ہے مگر فرق یہ ہے
ہمیں پڑھ کر ہیضہ نہیں ہوا اور انکو ہوگیا ہے، اللہ سے ڈریں کہ ان لوگوں نے مر کر
اللہ کو منہ دکھانا ہے، کوئی عربی سیکھنے اور چند عرب علماء کی جی حضوری سے کوئی
عالم کل نہیں بن جاتا کہ وہ پھر اپنے علم کے گھمنڈ میں آئمہ تک پہ زبان درازی
کردیتا ہے، انسان کو معتدل رہنا چاہیے اور تمام علماء اور آئمہ کا احترام کرنا
چاہیے۔ اللہ ان لوگوں کو تعصب سے پاک فرمائے اور آخرت کا خوف دلائے۔ اور اللہ ہمیں
بھی گمراہی سے محفوظ رکھے اور حاسدین کے شر سے بچائے۔ آمین
والسلام: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں۔
مورخہ: 14 اکتوبر 2023۔
Post a Comment