-->

مدلس کے عنعنہ کے رد پہ امام ابن عبد البر كا تحقيق سے معلوم کیا گیا اجماع

 

﴿مدلس کے عنعنہ کے رد پہ امام ابن عبد البرؒ كا تحقيق سے معلوم کیا گیا اجماع﴾


بعض فیس بک کے محدثین جو عملی علمی میدان سے بلکل کورے ہیں، انہیں دیکھا ہے کہ وہ تدلیس کے سخت اختلافی مسئلے میں متاخرین کا منہج پکڑ کر پھر مخالف موقف کا سختی سے رد کرتے ہیں، حالانکہ یہ کوئی ایسا مسئلہ ہے ہی نہیں جس پہ کوئی سختی کی جائے، ہم کئی بار یہ بات ثبوت كے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ یہ تمام اصول الحدیث کی ابحاث اجتہادی ہیں، اس میں یوں سختی کرنا جائز نہیں، مگر یہ اگر ایسا نہ کریں تو پھر ان لوگوں کو لوگ محدث فاضل کیونکر مانیں؟ خیر اسی چیز کے پیش نظر میں نے سوچا کہ متقدمین آئمہ سے اس مسئلے پہ ایسی صراحت نقل کرکے حجت تمام کردی جائے جس سے اس مسئلے میں متقدمین کے یہاں شاذ آراء کھل کر واضع ہوجائیں اور عوام کی درست سمت راہنمائی ہوسکے اور وہ اس میں تحقیق کرکے اختلاف اور اجتہاد کو بہتر جان سکیں۔
 

‌بخاري ‌المغرب الإمام الحافظ ابی عمر بن عبد البر إمام السنۃ فی زمانہ رحمہ الله تعالى (المتوفی 463ھ) لکھتے ہیں:
 

أني تأملت أقاويل أئمة أهل الحديث ونظرت في كتب من اشترط الصحيح في النقل منهم ومن لم يشترطه فوجدتهم ‌أجمعوا ‌على ‌قبول ‌الإسناد ‌المعنعن لا خلاف بينهم في ذلك اذا جمع شروط ثلاثة وهي عدالة المحدثين في أحوالهم ولقاء بعضهم بعضا مجالسة ومشاهدة وأن يكونوا برآء من التدليس والإسناد المعنعن فلان عن فلان عن فلان عن فلان

 

میں نے آئمہ اہل الحدیث کے اقوال پہ غور کیا اور انکی کتب کو دیکھا جنہوں نے صحیح کی شرط پہ نقل کیا اور (انکی بھی) جنہوں نے یہ شرط نہیں لگائی، تو میں نے پایا کہ معنعن اسناد کی قبولیت پہ اجماع ہے، اس میں انکے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اگر اس میں تین شرائط جمع ہوجائیں، اور وہ یہکہ انکے حالات میں محدثین کی عدالت ہونا اور انکی ایک دوسرے سے ملاقات مجالس اور مشاہدے کے ساتھ ہوں اور وہ تدلیس سے بری ہوں۔ اور اسناد المعنعن یہ ہے: فلاں عن فلاں عن فلاں عن فلاں۔

وقد حدثنا إسماعيل بن عبد الرحمن حدثنا إبراهيم بن بكر حدثنا محمد بن الحسين بن أحمد الأزدي الحافظ الموصلي قال حدثنا ابن زاكيا قال حدثنا أبو معمر عن وكيع قال قال شعبة فلان عن فلان ليس بحديث قال وكيع وقال سفيان هو حديث

امام وکیع کہتے کہ امام شعبہ کہتے تھے کہ فلاں عن فلاں کوئی حدیث نہیں ہوتی، امام وکیع کہتے کہ امام سفیان (الثوری) کہتے تھے یہ حدیث ہوتی ہے۔

قال أبو عمر: ثم إن شعبة انصرف عن هذا إلى قول سفيان.

وقد أعلمتك أن المتأخرين من أئمة الحديث، والمشترطين في تصنيفهم الصحيح، قد أجمعوا على ما ذكرت لك، وهو قول مالك وعامة أهل العلم، والحمد لله، إلا أن يكون الرجل معروفا بالتدليس، فلا يقبل حديثه حتى يقول: حدثنا، أو: سمعت. فهذا ما لا أعلم فيه أيضا خلافا۔

ابو عمر ابن عبد البر کہتے ہیں: پھر امام شعبہ اس سے سفیان (الثوری) کے قول کی طرف آگئے تھے۔
میں نے آپکو اطلاع دی ہے کہ آئمہ حدیث کے متاخرین اور وہ جو اپنی تصنیف میں صحیح کی شرط لگاتے ہیں، انکا اس پہ اجماع واقع ہوا ہے جو میں نے آپ سے ذکر کیا ہے، اور یہی امام مالکؒ اور عام اہل علم کا قول ہے، والحمد اللہ تعالی۔ مگر کوئی شخص تدلیس سے پہچانا جاتا ہو تو اس کی حدیث قبول نہیں کی جائے گی یہاں تک کہ وہ کہے: حدثنا یا سمعت۔ یہ ایسی چیز ہے جس کے متعلق میں کسی بھی اختلاف کو نہیں جانتا۔

(التمهيد - ابن عبد البر - ط المغربية: جلد 1 صفحہ 12)

امام ابن عبد البرؒ کی تمام آئمہ متقدمین کی تحقیق سے انکا حاصل شدہ نتیجہ یہ ہے کہ صحیح کی شرائط پہ لکھی گئی کتب مثلا صحیح بخاری و صحیح مسلم اور دیگر کتب جن میں صحیح کی شرط کے ساتھ روایات کو درج نہیں کیا گیا، ان میں آئمہ کا یہ اجماع ہے کہ معنعن اسناد کو تب قبول کیا جائے گا جب اس میں یہ تین شرائط موجود ہونگی:
1۔ رواۃ کی عدالت ثابت ہو اور وہ ضابط بھی ہوں کہ حدیث کے سماع، حفظ اور بیان میں خطا کرنے والے نہ ہوں۔

2۔ رواۃ کی آپس میں ملاقات ثابت ہو یا انکی ملاقات کا امکان سماع موجود ہو اگرچہ ثبوت مہیا نہ ہو۔

3۔ رواۃ تدلیس سے بری ہوں کہ وہ حدیث کو روایت کرتے ہوئے درمیان سے کسی راوی کو چھپاتا نہ ہو۔


امام ابن عبد البرؒ نے اجماع نقل کرتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ کثیر التدلیس سے بری ہوں تو معنعن قبول کریں گے، بلکہ یہ کہا کہ مطلقا تدلیس سے بری ہوں۔ لہزا اس سے ہمیں مطلقا تمام آئمہ کا عملی منہج اور اسلوب معلوم ہوتا ہے اور بالفرض مطلقا تمام نہ بھی مانیں تو بھی کم از کم جمھور آئمہ کرام کے منہج کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قلیل و کثیر کی تفریق کے بغیر مدلس کی عنعنہ کو قبول نہیں کرتے تھے اور اسکے برخلاف جن کی آراء ہیں وہ امام ابن عبد البر کی تحقیق میں شاذ، بےوقعت اور مردود ہیں کیونکہ وہ انکو اسکی کوئی حقیقت آئمہ کے عمل اور انکی کتب کے منہج اور اسلوب میں نہیں ملی۔ لہزا مدلسین کی معنعن مرویات کے متعلق راجع اور معتبر موقف یہی ہے۔ کیونکہ امام ابن عبد البرؒ نے یہ کلام پوری تحقیق اور غور و فکر کرکے اخذ کیا گیا ہے جوکہ آئمہ متقدمین کے منہج کو ثابت کرنے کیلیے واضع دلیل ہے۔

 

مزید یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امام شعبہؒ کا پہلا منہج تو یہ تھا کہ وہ غیر مدلس راوی کی معنعن کو بھی مردود مانتے تھے اور اسے قبول نہیں کرتے تھے، اب ہمارے دیسی جہلاء جو خود کو علل کا امام سمجھے بیٹھے ہیں وہ امام شعبہؒ کے اس منہج کے مطابق کیا کلام کریں گے؟ کیا پہلے امام شعبہ جاہل یا خائن تھے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ پہلے بھی بہت بلند پایہ امام تھے تبھی تو انکا اختلاف قبول کیا گیا، اسے نقل بھی کیا گیا اور امام ابن عبد البرؒ نے پھر انکا رجوع بھی نقل کردیا کہ وہ بھی پھر اسی منہج پہ آگئے جو امام سفیان ثوریؒ کا تھا کہ ہر ثقہ غیر مدلس راوی کی معنعن مقبول ہوگی۔ لہزا اس سے واضع ہوا کہ آئمہ متقدمین اگر یہ تین شرائط پوری ہوں جو مندرجہ بالا نقل کی جاچکی ہیں تو راوی کی معنعن قبول کرتے تھے۔ لہزا یہ آئمہ متقدمین کا منہج ہے۔ اور جو متاخرین کا کثیر و قلیل طبقات کا منہج مانتے ہیں تو ہم ان پہ کوئی سختی نہیں کرتے مگر ہمیں جو منہج تحقیق میں مناسب معلوم ہوتا ہے، ہمیں اسی کو قبول کرتے ہیں کہ مدلس کی معنعن مردود ہے کیونکہ معنعن روایت کی قبولیت کی شرائط اس میں پوری نہیں ہورہی۔ پھر چاہے اس سے کسی کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالی ہم سب کو دین کو سیکھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


تحریر: ابو الحسنین ڈاکٹر شہزاد احمد آرائیں۔