-->

بدعتی کی روایت کے متعلق محققین کا قائدہ

 

﴿بدعتی کی روایت کے متعلق محققین کا قائدہ﴾

 

شیخ علامہ جمال الدین القاسمیؒ (المتوفی 1332ھ / 1914ء) لکھتے ہیں:

من شهر الرواية عن المبدعين، وقاعدة المحققين في ذلك:

كان من أعظم من صدع بالرواية عنهم الإمام البخاري - رضي الله عنه -، وجزاه عن الإسلام والمسلمين أحسن الجزاء، فخرج عن كل عالم صدوق ثبت من أي فرقة كان، حتى ولو كان داعية، كعمران بن حطان وداود بن الحصين۔

وملأ مسلم " صحيحه " من الرواة الشيعة فكان الشيخان عليهما الرحمة والرضوان بعملهما هذا قدوة الإنصاف وأسوة الحق الذي يجب الجري عليه، لأن مجتهدي كل فرقة من فرق الإسلام مأجورون أصابوا أو أخطأوا بنص الحديث النبوي۔

ثم تبع الشيخين على هذا المحققون من بعدهما حتى قال شيخ الإسلام الحافظ ابن حجر في " شرح النخبة ": التحقيق أن لا يرد كل مكفر ببدعته، لأن كل طائفة تدعي أن مخالفيها مبتدعة، وقد تبالغ فتكفر، فلو أخذ ذلك على الإطلاق لاستلزم تكفير جميع الطوائف (قال): والمعتمد أن الذي ترد روايته من أنكر أمرا متواترا من الشريعة معلوما من الدين بالضرورة، واعتقد عكسه. وأما من لم يكن كذلك، أو ينضم إلى ذلك ضبطه لما يرويه مع ورعه وتقواه فلا مانع من قبوله۔

 

 

بدعتیوں سے روایت کرنے کرنے میں مشہور اور اسکے متعلق محققین کا قائدہ:

ان (بدعتیوں) سے روایت کرنے میں سب سے بڑے امام بخاریؓ تھے، اللہ تعالی انہیں اسلام اور مسلمانوں کی خاطر بہترین جزاء دے، انہوں نے ہر عالم سے روایت لی جو سچا ثبت تھا چاہے وہ کسی بھی فرقے سے ہو، حتی کہ وہ داعی (بدعتی) ہی کیوں نہ ہو، جیسے کہ عمران بن حطان اور داؤد بن الحصین۔

اور امام مسلمؒ نے اپنی (کتاب) "صحیح" کو شیعہ رواۃ سے بھر دیا، اس طرح دونو شیخین اپنے اس عمل سے انصاف کا نمونہ اور حق کی مثال بنے، جس پہ چلنا واجب ہے، کیونکہ اسلام کے فرقوں میں سے ہر فرقے کے مجتہدین نبی اکرم ﷺ کی حدیث کی نص سے اجر یافتہ ہیں چاہے وہ درست ہوں یا خطا پہ ہوں۔

پھر شیخین کے بعد آنے والے محققین نے اس میں انکی پیروی کی یہاں تک کہ شیخ الاسلام الحافظ ابن حجر عسقلانیؒ "شرح النخبۃ" میں کہتے ہیں:

تحقیق یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے اسکی بدعت کی وجہ سے کافر قرار دیا گیا ہو رد نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ہر گروہ دعوی کرتا ہے کہ اسکے مخالفین بدعتی ہیں، اور کبھی کبھار مبالغہ کرتے ہوئے انہیں کافر قرار دے دیتے ہیں، اگر اسے علی الاطلاق اخذ کرلیا جائے تو تمام گروہوں کی تکفیر لازم ہوجاتی ہے۔

انہوں نے (مزید) کہا:

مستند یہی ہے کہ اسکی روایت کو رد کیا جائے گا جو شریعت سے معلوم کسی امر متواتر کا انکار کرے، جو ضروریات دین میں سے ہو، اور اسکے برعکس اعتقاد رکھتا ہو، لیکن جو ایسا نہ ہو اور اسکے ساتھ وہ جو روایت کرے اس میں ضبط کے ساتھ پرہیز گاری اور تقوی موجود ہو تو اسکی روایت کو قبول کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں۔

(الجرح والتعديل للقاسمي: صفحہ 5 و 6)

 

علامہ قاسمیؒ کے کلام میں محققین سے مراد جلیل القدر آئمہ محدثین ہیں جو علم حدیث میں حجت کا درجہ رکھتے ہیں۔

 

معلوم ہوا کہ امت کے تمام گروہ ایک دوسرے کو بدعتی اور پھر بعض اوقات غلو کرتے ہوئے کافر تک کہتے ہیں، تو اگر امت کے تمام گروہوں کے قول کو ویسے ہی لے لیا جائے جیسا وہ کہتے ہیں تو پوری امت ہی کافر قرار پاتی ہے، اس لیے بدعتی کی روایت مطلقا رد کرنے کا قول سراسر باطل ہے، بلکہ آئمہ محدثین یہاں تک کہ شیخین نے بدعتی رواۃ سے دل کھول کر روایات لی ہیں، انہیں صحیح قرار دیا ہے اور ان روایات کو قبول کرتے ہوئے حجت بنایا ہے اگرچہ وہ داعی ہی کیوں نہ ہو۔ ان میں امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کو علامہ جمال الدین القاسمیؒ نے سب سے اول نمبر پہ رکھا ہے جیسا کہ انکی کتب الصحیح کو سب سے بلند مقام حاصل ہے اور اسی طرح یہ علل وغیرہ میں بھی اپنی مثال آپ تھے اور انہیں بخوبی معلوم تھا کہ بدعتی رواۃ کی صفات کیا ہیں اور انکی روایات میں کیا مسائل ہوسکتے ہیں اور اسکے باوجود انکا بدعتی رواۃ سے روایات لینا اس بات کی واضع دلیل ہے کہ بدعتی راوی اگر عادل ہے اور حفظ و ضبط میں قوی ہے تو اسکی روایات قبول ہونگی، اور دنیا جہان کی کوئی اور چیز اس کی روایت کو رد نہیں کرتی۔

 

واضع رہے گی بدعت مکفرہ کا حکم اس سے جدا ہے کیونکہ اس میں بدعت ایسی ہوتی ہے جو بدعتی کو کافر بنا دیتی ہے، اسکے متعلق بھی جو علامہ جمال الدین القاسمیؒ نے امام ابن حجر عسقلانیؒ کے کلام کو بطور دلیل پیش کیا ہے، اس میں یہ کہ ضروریات دین کے انکاری کی روایات قبول نہیں کی جائیں گی۔

 

والسلام: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں