صحابه كرام کی تدلیس کا حکم
﴿صحابہ کرامؓ کی تدلیس کا حکم﴾
تدلیس اور ارسال کا معاملہ ایسا ہے کہ
یہ عمل صحابہ کرامؓ، تابعینؓ اور انکے بعد بھی لوگ روایت حدیث میں اس عمل کو کرتے رہے
ہیں اور اس مسئلے کو زیر بحث لاتے رہے ہیں، جبکہ صحابہ کرامؓ کے ارسال کے معاملے میں
تمام محققین کو یہ معلوم ہے کہ انکا ارسال مقبول ہوتا ہے کیونکہ عموما وہ اپنے سے بڑے
صحابی سے ہی ارسال کررہے ہوتے ہیں اور یہی معاملہ انکی تدلیس کا بھی ہے، کیونکہ صحابہ
کرامؓ کے متعلق جو یہ ملتا ہے کہ وہ تدلیس کرتے تھے تو وہ عموما اپنے سے بڑے صحابی
سے ہی تدلیس کرتے تھے اور اس وجہ سے انکی تدلیس بھی مقبول ہوتی ہے ناکہ مجروح۔
امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ)
لکھتے ہیں:
قال يزيد بن هارون: سمعت شعبة يقول: كان
أبو هريرة يدلس.
قلت: تدليس الصحابة كثير، ولا عيب فيه،
فإن تدليسهم عن صاحب أكبر منهم، والصحابة كلهم عدول
یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ میں نے امام
شعبہؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ سیدنا ابو ھریرہؓ تدلیس کرتے تھے۔
میں (ذھبیؒ) کہتا ہوں: صحابہ کرامؓ کی
تدلیس کثیر ہے، اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے، کیونکہ انکی تدلیس ان سے بڑے صحابی سے
ہی ہوتی تھی اور تمام صحابہ عادل ہیں۔
)سير أعلام النبلاء - ط الرسالة: جلد 2 صفحہ 608(
اسی طرح امام ابن الوزیر محمد بن ابراہیم
(المتوفی 840ھ) لکھتے ہیں:
وقد ذكر ابن الحاجب في " مختصر المنتهى
" خلافاً بين أهل الأصول في قول الصحابي: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم
-، هل هو واجب القبول، أو لا بد من أن يقول: سمعته، أو أخبرني أو حدثني؟ واختار أنه
محمولٌ على السماع، وأن ذلك ينبني على عدالة الصحابة۔
امام ابن الحاجبؒ نے (اپنی کتاب)
"مختصر المنتھی" میں اہل اصول کے درمیان یہ اختلاف ذکر کیا ہے کہ صحابی کہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا۔ تو کیا اس کا قبول کرنا واجب ہے؟ یا انکا یہ کہنا ضروری ہے
کہ میں نے سنا یا مجھے خبر دی یا مجھے بتایا؟ اور انہوں نے یہ اختیار ہے کہ یہ سماع
پہ محمول ہے اور یہ صحابہ کرامؓ کی عدالت پہ مبنی ہے۔
)العواصم والقواصم في الذب عن سنة أبي القاسم: جلد 9 صفحہ 259 و 260(
اس سے صاف واضع ہوا کہ محدثین کے یہاں
اصول حدیث کے معاملے میں راجع یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ سماع کی صراحت کے بغیر بھی رسول
اللہ ﷺ سے حدیث روایت کریں تو وہ سماع پہ ہی محمول ہوتی ہے۔
یہ بات واضع ہے کہ صحابہ کرامؓ کا اپنے
سے بڑے صحابی کا واسطہ گرا کر روایت کرنے کو تدلیس قرار دینے میں آئمہ محدثین کا اختلاف
ہے کہ اس عمل کو تدلیس قرار دیا جائے یا ارسال قرار دیا جائے۔ جیسا کہ
امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ)
لکھتے ہیں:
واعلم أن التعريف الذي ذكرناه للمرسل ينطبق
على ما يرويه الصحابة عن النبي - صلى الله عليه وسلم - مما لم يسمعوه منه وإنما لم
يطلقوا عله اسم التدليس أدبا على أن بعضهم أطلق ذلك.
روى أبو أحمد ابن عدي في الكامل عن يزيد
بن هارون عن شعبة قال: "كأن أبو هريرة - رضي الله عنه - ربما دلس"
والصواب ما عليه الجمهور من الأدب في عدم
إطلاق ذلك - والله أعلم
اور جان لو کہ جو تعریف ہم نے "مرسل"
کیلیے ذکر کی ہے وہ اس پہ لاگو ہوتی ہے جو صحابہ کرامؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کریں، جسے
انہوں نے خود آپ ﷺ سے نہیں سنا، تاہم اس پہ ادب کی وجہ سے تدلیس کے نام کا اطلاق نہیں
کیا جاتا، حالانکہ بعض نے اسکا اطلاق کیا ہے۔
اور امام ابو احمد ابن عدیؒ نے (اپنی کتاب)
"الکامل" میں یزید بن ھارون کی سند سے امام شعبہؒ سے روایت کیا کہ انہوں
نے کہا: سیدنا ابو ھریرہؓ کبھی کبھار تدلیس کرتے تھے"
اور صحیح بات وہی ہے جس پہ جمہور ہیں کہ
ادب کی وجہ سے اس (تدلیس) کا اطلاق نہیں کیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔
)النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر: جلد 2 صفحہ 623 و 624(
معلوم ہوا کہ اگرچہ صحابی صغیر کا صحابی
کبیر کے واسطے کو گرا کر روایت کرنا ارسال اور تدلیس کے ذمرے ہی آتا ہے مگر محدثین
کرام کے نزدیک یہ تدلیس نہیں کہلاتا کیونکہ تدلیس مجروح عمل ہوتا ہے جوکہ راوی کی عدالت
پہ اثر انداز ہوتا ہے اس وجہ سے کہ وہ مجروح رواۃ یعنی ضعیف مجھول اور کذاب متروک رواۃ
سے تدلیس کرتے تھے مگر صحابہ کرام کا معاملہ مختلف ہے اور انکی تدلیس اور انکا ارسال
اپنے سے بڑے صحابیؓ سے ہی ہوا کرتا تھا اور تمام صحابہ کرامؓ کے روایت حدیث کے معاملے
میں عادل اور حجت ہونے میں اہل سنت کا کوئی اختلاف نہیں اور اس لیے ادب کے تقاضے کی
وجہ سے اسے ارسال ہی کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ انکا یہ عمل بیک وقت تدلیس اور ارسال کی
دونو صورتیں رکھتا ہے۔
امام بدر الدین الذرکشیؒ (المتوفی 794ھ)
لکھتے ہیں:
واعلم أن هذا التعريف الذي ذكره المصنف
منطبق على مرسل الصحابة مع أنه لا يطلق عليه تدليس وأما ما رواه ابن عدي في كامله عن
يزيد بن هارون قال سمعت شعبة يقول أبو هريرة كان يدلس فإنما أراد به إسقاط الواسطة
بينه وبين النبي صلى الله عليه وسلم في بعض الأحيان كما اتفق له في حديث صوم الجنب
لما أنكر عليه قال حدثنيه الفضل بن العباس ولا ينبغي إطلاق مثل هذه العبارة في حق الصحابة
رضي الله تعالى عنهم وإنما ذلك إرسال
وقد نقل ابن الحاجب وغيره أن قول الصحابي
العدل قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يدل على سماعه منه خلافا للقاضي أبي بكر
اور جان لو کہ یہ تعریف جسکا ذکر مصنف
نے کیا ہے صحابہ کرامؓ کی مرسل پہ لاگو ہوتی ہے، اسی کے ساتھ اس پہ تدلیس کا اطلاق
نہیں کیا جاتا، اور جو امام ابن عدیؒ نے اپنی "الکامل" میں یزید بن ہارون
سے روایت کیا کہ انہوں نے امما شعبہؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ سیدنا ابو ھریرہؓ تدلیس کرتے
تھے۔ تو اس سے مراد یہ ہےکہ وہ بعض اوقات اپنے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان واسطے کو
گرا دیتے تھے، جیسا کہ انکے ساتھ جنبی کے روزے کی حدیث میں ہوا کہ جب ان پہ انکار کیا
گیا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث مجھے سیدنا فضل بن عباسؓ نے بتائی تھی۔ اور اس طرح کی
عبارات کا اطلاق صحابہ کرامؓ کے متعلق نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ تو ارسال ہے۔
اور امام ابن الحاجبؒ وغیرہ نے نقل کیا
کہ جب کوئی عادل صحابی یہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو یہ ان سے انکے سماع پہ دلالت
کرتا ہے، برخلاف قاضی ابو بکر کے۔
)النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي: جلد 2 صفحہ 69 و 70(
معلوم ہوا کہ جمہور آئمہ کے نزدیک صحابہ
کرامؓ کا ان سے بڑے صحابی کے واسطے کو گرا کر رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنا تدلیس نہیں
بلکہ ارسال کہلاتا ہے، اور دونو طرح سے انکی روایت سماع پہ ہی محمول ہوتی ہے، اور صحابہ
کرامؓ کا ارسال اور انکی تدلیس دونو مقبول ہیں۔
تحریر: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment