سیدنا عمرؓ کے قول کہ شادی نہ کرنے والا احمق یا فاجر ہے کی حقیقت
﴿سیدنا عمرؓ کے قول کہ شادی نہ کرنے والا
احمق یا فاجر ہے کی حقیقت﴾
امام عبد الرزاق بن ہمام الصنعانیؒ
(المتوفی 211ھ) روایت کرتے ہیں:
عبد الرزاق، عن معمر، عن ابن طاوس، عن
أبيه، قال عمر لرجل: «أتزوجت؟» قال: لا قال: «إما أن تكون أحمق، وإما أن تكون
فاجرا»
تابعی امام طاوسؒ سے روایت ہے کہ
سیدنا عمر الفاروقؓ نے ایک شخص سے کہا: کیا تم نے شادی کرلی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔
انہوں نے کہا: یا تو تم احمق ہو یا پھر تم فاجر (گنہگار) ہو۔
)المصنف عبد الرزاق - ت الأعظمي: جلد 6 صفحہ 170 رقم 10383(
اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ امام
طاوسؒ کا سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے اور اس میں انقطاع
موجود ہے۔
امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقیؒ
(المتوفی 458ھ) لکھتے ہیں:
قال الإمام أحمد: حديث طاوس عن عمر مرسل
امام احمد بن حنبلؒ نے کہا: طاوس کی
سیدنا عمرؓ سے حدیث مرسل ہے۔
)المدخل
إلى السنن الكبرى - ت عوامة: جلد 1 صفحہ 153 رقم 273(
امام ابن ابی حاتم الرازیؒ (المتوفی
327ھ) لکھتے ہیں:
قال أبو زرعة طاوس عن علي مرسل
وطاوس عن معاذ مرسل وطاوس عن عمر مرسل
امام ابو زرعہؒ نے کہا: طاوس کی سیدنا
علی المرتضیؑ سے روایت مرسل ہے، طاوس کی سیدنا معاذ سے روایت مرسل ہے، اور طاوس کی
سیدنا عمر الفاروقؓ سے روایت مرسل ہے۔
)المراسيل
لابن أبي حاتم: صفحہ 100 رقم 357(
امام علاء الدین مغلطائی الحنفی
(المتوفی 762ھ) امام طاوس بن کیسانؒ کے ترجمے میں لکھتے ہیں:
وزعم أبو زرعة، ويعقوب بن شيبة في
"مسنده": أن حديثه عن عُمر وعلي مرسل
اور امام ابو ذرعہؒ اور امام یعقوب بن
شیبہؒ نے اپنی "مسند" میں یہ دعوی کیا ہے کہ ان (طاوس) کی سیدنا عمرؓ
اور سیدنا علی المرتضیؓ سے مروی احادیث مرسل ہیں۔
)إكمال
تهذيب الكمال - ط العلمية: جلد 4 صفحہ 178 رقم 2745(
اختصار کے باعث اتنا کافی ہے یہ بتانے
کیلیے کہ امام طاوس کی سیدنا عمرؓ سے روایت منقطع یعنی مرسل ہوتی ہے۔ امام طاوسؒ
کی مراسیل پہ آئمہ کرام نے شدید نقد کیا ہے اور انہیں رد کیا ہے، جسکی چند ایک
مثالیں اختصار کے پیش نظر بیان کررہا ہوں، اگرچہ اس پہ بہت سا کلام کیا جاسکتا ہے۔
1۔
امام ابو الحسن علی بن عمر الدارقطنیؒ (المتوفی 385ھ) طاوس کی سیدنا معاذ بن جبلؓ
سے روایت پہ کلام کرتے ہیں:
هذا مرسل ، طاوس لم يدرك معاذا
یہ مرسل ہے، طاوس نے سیدنا معاذؓ کو
نہیں پایا۔
)سنن
الدارقطني: جلد 2 صفحہ 487 رقم 1930(
2۔
امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقیؒ (المتوفی 458ھ) لکھتے ہیں:
قال الشافعي: حديث طاوس هذا مرسل،
وأهل الحديث لا يثبتونه، ولو ثبت كان كحديث أبي أيوب
امام شافعیؒ نے کہا: طاوس کی یہ حدیث
مرسل ہے، اور اہل الحدیث (یعنی محدثین) اسکا اثبات نہیں کرتے، اور اگر یہ ثابت
ہوتی تو یہ ابی ایوب کی حدیث کی طرح ہوتی۔
)معرفة
السنن والآثار: جلد 1 صفحہ 334 رقم 818(
اس سے معلوم ہوا کہ طاوس کی مرسل
محدثین کے یہاں ثابت نہیں مانی جاتی۔
3۔
امام ابن عبد الہادی الحنبلیؒ (المتوفی 744ھ) طاوسؒ کی ایک مرسل روایت کے متعلق
لکھتے ہیں:
هذا دليل للرواية الثانية، لكنه مرسل،
وإسناده غير قوي، والله أعلم
یہ دوسری روایت کی دلیل ہے لیکن یہ
مرسل ہے، اور اسکی سند مضبوط نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
)تنقيح
التحقيق لابن عبد الهادي: جلد 4 صفحہ 205 رقم 2555(
4۔
امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ) طاوسؒ کی ایک مرسل کے ذیل میں یہ جرح نقل
کرتے ہیں:
قال الإسماعيلي: هو مرسل فلا حجة منه
اسماعیلی نے کہا: یہ مرسل ہے لہزا اس
سے کچھ حجت نہیں ہے۔
)المهذب
في اختصار السنن الكبير: جلد 3 صفحہ 1468 رقم 6508(
اسکے بعد یہ جاننا اہم ہے کہ اس سے
پہلے بھی یہکہ مرسل اور مرسل خفی میں فرق کیا ہوتا ہے؟
امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ)
لکھتے ہیں:
أن من ذكر بالتدليس أو الإرسال إذا
ذكر5 بصيغة الموهمة عمن لقيه، فهو تدليس، أو عمن أدركه ولم يلقه فهو المرسل الخفي،
أو عمن لم يدركه فهو مطلق الإرسال
جس شخص کو تدلیس یا ارسال کے ساتھ ذکر
کیا گیا ہو تو وہ کسی ایسے شخص سے وہمی صیغے سے روایت کرے جس سے اس نے ملاقات کی
ہو تو یہ تدلیس ہے، اور اگر کسی ایسے شخص سے روایت کرے جس (کے زمانے) کو اس نے
پایا ہو اور اس سے ملاقات نہ کی ہو تو یہ مرسل خفی ہے، اور اگر کسی ایسے شخص سے
روایت کرے جس (کے زمانے) کو اس نے نہ پایا ہو تو یہ مطلق ارسال ہے۔
)النكت
على كتاب ابن الصلاح لابن حجر: جلد 2 صفحہ 623(
معلوم ہوا کہ ارسال اور ارسال حفی کے
درمیان تفریق کرنے والی چیز یہ ہے کہ زمانہ پایا ہے یا نہیں پایا، اب ہم طاوس کا
معاملہ دیکھیں تو انکی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک یہ سیدنا عمرؓ کی
خلافت کے آخری ایام میں پیدا ہوئے اور بعض کے نزدیک یہ سیدنا عثمان غنیؓ کی خلافت
میں پیدا ہوئے۔
)سير
أعلام النبلاء - ط الرسالة: جلد 5 صفحہ 38 و 39(
دونو طرح سے طاوس نے سیدنا عمرؓ کا
زمانہ اس حالت میں نہیں پایا کہ ان سے روایت کا امکان ہو، اس لیے انکی سیدنا عمرؓ
کو ارسال خفی کہنا تو متاخرین و متقدمین آئمہ کرام کے اصول حدیث کے نزدیک بھی درست
نہیں۔ نیز یہ مصطلحات کا غلط استعمال ہے جو کہ ناقص علمی اور ناقص فہمی کا اشارہ
ہے.
مرسل روایت کا حکم:
امام ابن ابی حاتمؒ (المتوفی 327ھ)
لکھتے ہیں:
سمعت أبي وأبا زرعة يقولان لا يحتج
بالمراسيل ولا تقوم الحجة إلا بالأسانيد الصحاح المتصلة وكذا أقول أنا
میں نے اپنے والد (امام ابو حاتم
الرازیؒ) اور امام ابو ذرعہؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا: مراسیل سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی
ہے اور حجت قائم نہیں ہوتی سوائے صحیح اور متصل اسانید کے ساتھ اور یہی میں بھی
کہتا ہوں۔
)المراسيل
لابن أبي حاتم: صفحہ 7 رقم 15(
معلوم ہوا کہ یہ روایت اصولی طور پہ
سندا ضعیف اور غیر ثابت ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح دین سیکھنے
اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور سب کو علم حدیث کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔
آمین
والسلام: ابو الحسنین شہزاد احمد
آرائیں
Post a Comment