-->

علماء اور طلباء کیلیے شیخ عبد الرحمن المعلمی کی نصیحت

 

﴿علماء اور طلباء کیلیے شیخ عبد الرحمن المعلمیؒ کی نصیحت﴾

 

شیخ علامہ عبد الرحمن المعلمی الیمانی رحمہ اللہ (المتوفی 1386ھ) لکھتے ہیں:
وبالجملة، فإن بأهل العلم أشد الحاجة إلى أمرين:

الأول: تحقيق الحق فيما اختلف فيه بما يقتضي القبول أو الرد، مع السعي في معرفة رأي كل إمام من أئمة الجرح والتعديل في ذلك، ومعرفة عادة كل إمام في استعماله ألفاظ الجرح والتعديل، في أي حال يطلق «ثقة» وفي أي حال يطلق «ضعيف» إلى غير ذلك.

الثاني: معرفة الطريق التي سلكها الأئمة لنقد الرواة، ثم السعي في اتباعهم فيها

 

اور خلاصہ یہ ہے کہ، اہل علم کو ان دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔

پہلی: جس چیز میں اختلاف ہے جو قبول اور رد کا تقاضا کرتا ہے اس میں حق کی تحقیق کرنا، اسی کے ساتھ اس کے متعلق آئمہ جرح تعدیل میں سے ہر ایک امام کی رائے کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرنا، اور ہر جرح و تعدیل کے الفاظ کے استعمال میں تمام آئمہ کی عادات کی معرفت حاصل کرنا، کس حالت میں وہ ثقہ کا اطلاق کرتے ہیں اور کس حالت میں وہ ضعیف کا اطلاق کرتے ہیں، اسکے علاوہ بھی جو ہے۔

دوسرا: اس طریقے کی معرفت حاصل کرنا جس پہ آئمہ کرام رواۃ کو پرکھنے کیلیے چلے، پھر اس میں انکی اتباع کی کوشش کرنا۔

(الحاجة إلى معرفة علم الجرح والتعديل - ضمن «آثار المعلمي»: جلد 15 صفحہ 103)

 

شیخ رحمہ اللہ کے کلام کے نقاط:

1۔ علماء کو اختلافی امور میں حق بات کی تحقیق کرنے کی خود کوشش کرنی چاہیے ناکہ بغیر ذاتی تحقیق کے محض کسی ایک پہ اعتبار کرکے دوسرے کو رد کرنا چاہیے، کیونکہ اختلاف امور میں قبول اور رد کا معاملہ تب تک یکساں ہوتا ہے جب تک کوئی عالم یا طالب علم خود تحقیق کرکے اس میں ایک قول کے حق ہونے پہ زیادہ پختگی حاصل نہیں کرلیتا۔

 

2۔ آئمہ جرح و تعدیل کی آراء میں بھی اختلاف واقع ہوا ہے اور علماء کیلیے ضروری ہے کہ وہ انکے اختلاف کی معرفت حاصل کریں۔ شیخ رحمہ اللہ کے کلام میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جنہوں نے موجودہ دور میں شہرت حاصل کرنے کیلیے یہ دعوی کردیا ہے کہ تمام آئمہ کا علم حدیث کے تمام امور میں ایک ہی منہج تھا۔ جبکہ شیخ رحمہ اللہ کے مطابق رواۃ پہ حکم لگانے میں بھی انکی آراء کا اختلاف ہوا ہے اور اسکی معرفت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

 

3۔ علامہ عبد الرحمن المعلمیؒ نے مزید بیان کیا ہے کہ آئمہ جرح و تعدیل کی عادات کی واقفیت حاصل کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ آئمہ کرام کے درمیان جرح و تعدیل کے الفاظ کے اطلاق میں بھی کثیر اختلاف ہوتا ہے، کونسا امام کس حالت میں راوی کو ثقہ اور ضعیف کہتا ہے اور دوسرا امام کونسی حالت میں؟ ۔

 

4۔ جب الفاظ کے اطلاق کا بھی اختلاف ہوا ہے تو اس سے واضع ہوا ہے کہ آئمہ کرام کے درمیان کوئی ایک منہج نہیں تھا کیونکہ الفاظ کے اطلاق کا اختلاف تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ان الفاظ کی اصطلاح اور ان الفاظ کے اطلاق کے اصول میں بھی انکے درمیان اختلاف ہو۔ بصورت دیگر الفاظ کے اختلاف کی کوئی ٹھوس وجہ برقرار نہیں رہتی۔

 

5۔ دوسری چیز جس پہ شیخ رحمہ اللہ نے زور دیا ہے وہ آئمہ جرح و تعدیل کا طریقہ کار ہے، کیونکہ جس طریقے سے آئمہ جرح و تعدیل نے رواۃ کو پرکھا ہے اسکی معرفت ہونی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت آئمہ کے اختلاف میں ترجیح قائم کرنے کیلیے اس طریقے کا استعمال کیا جاسکے جس سے راجع اور حق بات کی معرفت حاصل ہوجائے کیونکہ علم حدیث کی تدوین کا کام مکمل ہوچکا ہے اور آئمہ کرام نے وہ جس طریقے سے مکمل کیا ہے اسی طریقے پہ چلنا ضروری ہے بصورت دیگر آج کوئی نیا طریقہ متعارف کروانا اور آئمہ محدثین کے علم حدیث میں قائم کردہ طریقے کا انکار کرنا محض احادیث کے ضائع کرنے کے کسی اور چیز کا ساماں پیدا نہیں کرسکتا۔

 

 آئمہ کرام کے طرز عمل میں یہ چیز شامل رہی ہے کہ رواۃ کی مرویات کو جمع کرکے انکی علل کی معرفت حاصل کی جائے جس سے راوی کے حفظ و اتقان کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور اسکی بنیاد پہ پھر آئمہ جرح و تعدیل کے درمیان راجع مرجوع کیا جاسکے یا انکے درمیان تطبیق دی جاسکتی ہے۔ پھر اسکے بعد دیگر قرائن جو علوم حدیث کی بنیادی کتب میں درج ہیں انکا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔

 

اللہ تعالی ہم سب کو ان چیزوں کو سمجھنے اور ان پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اختلافات میں خود تحقیق کرکے حق بات جاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

واسلام: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں