ابن تیمیہ اور حدیث کی تصحیح و تضعیف میں اجتہاد
﴿امام ابن تیمیہؒ اور حدیث کی تصحیح و تضعیف میں
اجتہاد﴾
امام ابو العباس تقی الدین ابن تیمیہؒ
(المتوفی 728ھ) لکھتے ہیں:
التمثيل بالحديث الذي يروى في الصحيح وينازع
فيه بعض العلماء وأنه قد يكون الراجح تارة وتارة المرجوح ومثل هذا من موارد الاجتهاد
في تصحيح الحديث كموارد الاجتهاد في الأحكام وأما ما اتفق العلماء على صحته فهو مثل
ما اتفق عليه العلماء في الأحكام
اس حدیث کی مثال کہ جو صحیح میں مروی ہو
اور بعض علماء کے درمیاں اس میں تنازع ہو اور وه كبهی زیادہ راجع اور کبھی مرجوع ہوسکتا
ہے اور اسی طرح حدیث کی تصحیح میں اجتہاد واقع ہوا ہے جسطرح احکام میں اجتہاد واقعہ
ہوا ہے۔ اور جس کی صحت پہ علماء نے اتفاق کیا ہے تو وہ اسی طرح ہے جسطرح احکام میں
علماء نے اتفاق کیا ہے۔
(مجموع الفتاوى: جلد 18 صفحہ
22)
معلوم ہوا کہ آئمہ کے یہاں کسی حدیث کی
تصحیح کرنا یاں اسکی تضعیف کرنا ایک اجتہادی امر ہے، اس میں علمی اختلاف کو وقعت نظری
سے دیکھنا چاہیے، اور اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے اسے سمجھنا چاہیے۔ ناکہ ایک اجتہادی
امر میں بےجا مخالف کا مذاق اڑائے جائے، ان پہ تہمتیں لگائی جائیں یا انکے متعلق تعصب
پھیلایا جائے۔ آئمہ کے یہاں یہ اجتہادی اختلاف نہ صرف احادیث و روایات کی صحت پہ واقع
ہوا ہے بلکہ یہ اصول و قوائد حدیث میں بھی واقع ہوا ہے۔ کیونکہ یہ سارا معاملہ اجتہاد
اور ظن پہ مبنی ہے لہزا کسی فریق کو ملامت کرنے کا کوئی حق کسی نہیں پہنچتا کہ اس پہ
بےجا جرح کرے جب کہ وہ آئمہ کے ہی ایک گروہ کے قول پہ ہو الہ یہکہ وہ خائن بن جائے۔
کیونکہ ایسا کرنا نہ صرف آپکے مخالف پہ آپکا تعصب ہے بلکہ ان آئمہ سے بھی تعصب ہے جو
اصول میں اسکے موافق ہیں۔
والسلام: شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment