لوگوں سے جان پہچان کم کرو
﴿لوگوں سے جان پہچان کم کرو﴾
امام ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم
الرازیؒ (المتوفی 327ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا عبد الرحمن نا أبي نا علي بن محمد
الطنافسي نا أبو أسامة عن ابن عيينة قال رأيت الثوري في النوم فقلت له.أوصني، فقال: أقل من معرفة الناس
امام سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں: میں
نے امام سفیان الثوریؒ کو خواب میں دیکھا تو ان سے کہا: مجھے کوئی نصیحت کیجیے۔ انہوں
نے کہا: "لوگوں سے جان پہچان کم کرو"
(الجرح والتعديل: جلد 1 صفحه
120۔ اسنادہ صحیح)
امام رحمہ اللہ کے قول کی کئی وجوہات ہو
سکتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ لوگ اکثر اپنے ظاہری رویے سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ جو ظاہر کرتے
ہیں وہ وہ نہیں ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم لوگوں کو بہت زیادہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں
تو ہمیں مایوسی ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ اکثر غیبت اور چغلی کرنے میں مشغول
رہتے ہیں۔ اگر ہم ان سے زیادہ تعلقات رکھیں گے تو ہم بھی ان سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ لوگ اکثر اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ صرف اسی
وقت اچھا سلوک کریں گے جب ان کے مفادات کی حفاظت ہو۔ اگر ہم ان سے زیادہ تعلقات رکھیں
گے تو ہم ان کے فریب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کا رویہ بہت بدلتا
رہتا ہے۔ ایک وقت میں وہ اچھے لگتے ہیں، اور دوسرے وقت میں وہ برے لگتے ہیں۔ اس لیے
ان سے زیادہ تعلقات رکھنا آپکی اپنی نفسیات کیلیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ پانچویں وجہ یہ
ہے کہ لوگوں کے بارے میں زیادہ جاننے سے ہمیں ان کے نقصانات اور برائیوں کے بارے میں
بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ معلومات ہماری دلی سکون کو خراب کر سکتی ہے۔
ایسی
اور اس جیسی دیگر بہت ساری وجوہات کی بنا پہ بہتر یہی ہے کہ ہم لوگوں سے اپنے تعلقات
مختصر رکھیں، تاکہ خود کو فتنے سے محفوظ رکھ سکیں، اور دلی سکون کا حصول ممکن رہے۔
واسلام: شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment