وتر کے فرض و واجب نہ ہونے پہ امام خطابی کا نقل کردہ اجماع ہے
﴿وتر کے فرض و واجب نہ ہونے پہ امام خطابیؒ کا نقل کردہ اجماع ہے﴾
ہم امام ابو حنیفہؒ سے باسند صحیح یہ قول
امام ابن خزیمہؒ کی کتاب ”الصحیح“ سے نقل کرچکے ہیں کہ وتر انکے نزدیک فرض ہے جبکہ
فرض نمازیں ہی پانچ ہیں مگر انہوں نے چھٹی کا اضافہ کردیا مگر فرض نمازوں کی گنتی پوچھنے
پہ پانچ ہی گنی۔ اسی تحریر میں ہم نے سیدنا مولا علی المرتضیؑ سے یہ ثابت کیا کہ وتر
حتمی نہیں بلکہ سنت ہے۔ اب احناف تو اہل کوفہ یعنی سیدنا مولا علی المرتضیؑ اور سیدنا
عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ کی فقہ کو انکے شاگردوں کی فقہ کو لے کر چلنے کے دعوے دار
ہیں تو انکے لیے سیدنا مولا علی المرتضیؑ کا فرمان پاک ویسے ہی آخری حجت ہونا چاہیے
مگر بزرگ پرستی میں اندھی قوم مولا علی المرتضیؑ کو تو ترک کرنے کو راضی ہے مگر اپنے
امام کی خطا کو خطا ماننے کو تیار نہیں۔ دوسری تحریر میں ہم نے امام ابو حنیفہؒ کے
اپنے خاص الخاص شاگردوں اور فقہ حنفی میں انکے بعد سب سے بڑا مقام رکھنے والوں سے امام
ابو حنیفہؒ کی قول کی نفی بیان کی کہ انکے اپنے شاگرد انکے قول کو قبول کرنے کو تیار
نہیں، اور انہوں نے سیدنا مولا علی المرتضیؑ کے قول کو اختیار کیا۔ مزید ہم نے احناف
ہی سے یہ واضع کیا کہ ان کے برخلاف دیگر فقہی مذاہب بھی وتر کو سنت مانتے ہیں۔ لہزا
ایک صاحب نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ امام ابو حنیفہؒ کی متابعت میں دیگر
ایک دو آئمہ سے بھی وتر کے وجوب کے اقوال مروی ہیں۔ ہم انکا شکریہ ادا کرتے ہیں اور
یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دو آئمہ بھی خطا پہ ہیں جنکا انہوں نے نام لیا اگر ان سے
وہ اقوال ثابت ہیں تو۔ اور عین ممکن ہے کہ انہوں نے شریعت میں وتر کی فضیلت اور وتر
کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے ایسا سمجھ لیا ہو مگر یہ چیز ہمارے علم کے مطابق تو درست
نہیں کیونکہ یہ صریح شرعی دلائل کے خلاف ہے۔ نیز یہکہ ان اندھے مقلدین کو اجماع اجماع
کھیلنے کا بھی بہت شوق ہے، لہزا ہم نے سوچا کیوں نہ ہم بھی ایک اجماع نقل کردیں، ایسا
اجماع جس میں امام ابو حنیفہؒ کے اختلاف کو باقائدہ بیان کرکے اس اختلاف کو اجماع کے
خلاف کہا گیا ہے! ملاحظہ کیجیے:
امام ابو سلیمان حمد بن محمد الخطابیؒ
(المتوفی 388ھ) لکھتے ہیں:
وقد أجمع أهل العلم على أن الوتر ليس
بفريضة إلا أنه يقال إن في رواية الحسن بن زياد، عن أبي حنيفة أنه قال هو فريضة وأصحابه
لا يقولون بذلك فإن صحت هذه الرواية فإنه مسبوق بالإجماع فيه
اور تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ وتر
فرض نہیں ہے سوائے اس کے کہ حسن بن زیاد کی روایت میں کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ
سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ (وتر) فرض ہے اور انکے اصحاب (یعنی ساتھی و شاگرد)
ایسا نہیں کہتے، تو اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس میں اجماع پہلے سے ہی ہوچکا ہے۔
(معالم السنن: جلد 1 صفحہ
286)
لہزا معلوم ہوا کہ وتر کے فرض و واجب نہ
ہونے کے متعلق اجماع پہلے ہی ہوچکا تھا مگر امام ابو حنیفہؒ اور ان کے موافق دیگر علماء
کا قول اس میں اجماع کے خلاف شاذ و مردود ہے کہ وتر فرض ہے اور واجب ہے۔ نیز یہکہ یہ
صحیح احادیث اور موقوف اقوال و احادیث کے بھی برخلاف ہے۔ لہزا اب بھی بزرگ پرستی کرنے
والوں کو سکون مہیا نہ ہو تو ہم انکی تکلیف کا کوئی علاج نہیں کرسکتے۔ وہ لاعلاج مرض
میں مبتلا ہیں۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی امام ابو حنیفہؒ اور انکے صاحبین پہ اپنی
رحمتیں نازل فرمائے اور اللہ تعالی ہمیں بھی استقامت اور دین پہ عمل اور دین کا علم
عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
والسلام:
شہزاد احمد آرائیں۔
تنبیہ: اس میں فرقہ پرستوں کی جانب سے ایک موقوف روایت پیش کی جاتی ہے کہ وتر واجب ہے جبکہ اس روایت میں لفظ واجب کا اضافہ ہی محدثین نے صراحت کرکے غیر محفوظ و مردود قرار دیا ہوا ہے، مگر یہ خائن اسے چھپاتے ہیں اور عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اللہ ایسے دھوکے بازوں کو غارت کرے۔ آمین
Post a Comment