-->

اختلاف کے باوجود بھائیوں کی طرح رہنا

 

﴿اختلاف کے باوجود بھائیوں کی طرح رہنا﴾

 

المحدث المورخ امام ابو سعید عبد الرحمن بن احمد بن یونس المصری (المتوفی 347ھ) کی کتاب التاریخ کے آخر میں انکے ترجمہ میں انکے دادا امام ابو موسی یونس بن عبد الاعلی المصری (المتوفی 264ھ) کے متعلق محقق لکھتے ہیں:

وجدير بالذكر أن يونس استفاد من مصاحبة الشافعى، فلم يكن مقلدا، وإنما كان يناقشه ويناظره، ويختلف معه أحيانا ولا يتفق. لقد تناظرا فى مسألة يوما، فافترقا، ثم لقيه الشافعى، وأخذه بيده، وقال له: أبا موسى، ‌ألا ‌يستقيم ‌أن ‌نكون ‌إخوانا، ‌وإن ‌لم ‌نتفق ‌فى ‌مسألة؟

 

اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ امام یونس بن عبد الاعلیؒ نے امام محمد بن ادریس الشافعیؒ کی صحبت سے استفادہ حاصل کیا ہے، لیکن وہ مقلد نہیں تھے، اور وہ ان سے بحث و مناظرہ کیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی ان سے اختلاف کرتے تھے اور متفق نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک دن کسی مسئلے پہ ان سے مناظرہ کیا اور پھر الگ ہوگئے، پھر امام شافعیؒ نے ان سے ملاقات کی اور انکا ہاتھ پکڑا اور ان سے کہا: ابو موسی، کیا یہ درست نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بھائی رہیں اگرچہ ہم کسی مسئلے پہ متفق نہ ہوں؟

(تاريخ ابن يونس المصرى: جلد 2 صفحہ 275)

 

اس واقعہ کو امام ابن عساکرؒ امام یونس بن عبد الاعلیؒ کے قول کے ساتھ نقل کرتے ہیں مگر اسکی سند میں ضعف ہے۔ چناچہ لکھتے ہیں:

أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسن بن الحسين قراءة عن أبي عبد الله القضاغي قال قرأت على أبي عبد الله بن شاكر حدثنا الحسن بن رشيق حدثنا محمد بن سفيان بن سعيد قال قال لنا يونس بن عبد الأعلى ما رأيت أحدا أعقل من الشافعي لو جمعت أمة فجعلت في عقل الشافعي لوسعهم عقله

 

محمد بن سفیان بن سعید کہتا ہے کہ امام یونس بن عبد الاعلیؒ نے ان سے کہا: میں نے امام شافعیؒ سے عقلمند کسی کو نہیں دیکھا، اگر پوری قوم کو جمع کیا جائے اور اسے امام شافعیؒ کی عقل پہ رکھا جائے تو بھی ان کی عقل اسکے لیے وسیع ہوگی۔

(تاريخ دمشق لابن عساكر: جلد 51 صفحہ 302، وسندہ ضعیف لضعف محمد بن سفیان بن سعید)

 

اس قول کے بعد ہی محمد بن سفیان بن سعید یہ واقعہ نقل کرتے ہیں مگر ان میں ضعف ہے۔ اور امام ابن یونس المصریؒ کی کتاب التاریخ میں بھی محقق نے انکے دادا کا یہ واقعہ ثابت مانتے ہوئے نقل کیا ہے۔ امام شمس الدین الذھبیؒ نے محمد بن سفیان بن سعید کی روایت پہ اعتبار کیا ہے اور اسے حجت بنایا ہے۔ چناچہ اسے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

هذا يدل على كمال عقل هذا الإمام وفقه نفسه فما زال النظراء يختلفون

 

یہ امام (شافعی) کی عقل کی کمالیت اور انکی اپنی فقہ کی دلیل ہے، حالانکہ مخالفین آج بھی اختلاف کرتے ہیں۔

(سير أعلام النبلاء - ط الحديث: جلد 8 صفحہ 240)

 

لہزا معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ اپنے بھائیوں کے ساتھ اختلاف بھی کرتے تھے، ان سے ابحاث بھی کرتے اور مناظرے بھی کرتے مگر کبھی اسکی وجہ سے تعلقات کو خراب نہ کرتے بلکہ اختلاف کے باوجود بھائی چارہ قائم رکھتے اگرچہ دوسرا ناراض ہی کیوں نہ ہوگیا ہو، آپ خود جاکر اسے مناتے اور بھائی چارہ قائم رکھنے پہ زور دیتے۔ امام شافعیؒ کا یہ واقعہ ہمارے لیے مثال ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود بھی ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ ہمیں اختلاف کو نفرت اور عداوت کا باعث نہیں بنانا چاہیے۔ اختلافات کو ایک دوسرے سے سیکھنے اور بہتری لانے کے موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ اگر اختلاف رائے کو ہمیشہ مثبت انداز میں لیں گے تو ہی اختلاف رائے سے علم اور بصیرت میں اضافہ ہوگا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس چیز پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

واسلام: شہزاد احمد آرائیں