-->

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کے مطابق سیدنا مولا علی المرتضیؑ پہ سوال اٹھانا جائز نہیں

﴾سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کے مطابق سیدنا مولا علی المرتضیؑ پہ سوال اٹھانا جائز نہیں﴿

 

شیخ الاسلام المحدث امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائیؒ (المتوفی 303ھ) اپنی کتاب خصائص علیؑ میں باب قائم کرتے ہیں کہ:

‌‌ ذكر منزلة علي بن أبي طالب وقربه من النبي صلى الله عليه وسلم ولزوقه به وحب رسول الله صلى الله عليه وسلم له

 

سیدنا علی بن ابی طالبؓ کا مقام اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انکی قرابت اور انکے ساتھ انکی وابستگی اور رسول اللہ ﷺ کی ان کے ساتھ محبت کا ذکر

 

پھر امام نسائیؒ اس باب کے ذیل میں پہلی موقوف حدیث ذکر کرتے ہیں کہ:

أخبرنا إسماعيل بن مسعود البصري قال حدثنا خالد عن شعبة عن أبي إسحاق عن العلاء قال سأل رجل ابن عمر عن عثمان قال ‌كان ‌من ‌الذين ‌تولوا ‌يوم ‌التقى ‌الجمعان فتاب الله عليه ثم أصاب ذنبا فقتلوه وسأله عن علي فقال لا تسال عنه ألا ترى قرب منزله من رسول الله صلى الله عليه وسلم

 

علاء بن عرار سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمرؓ سے سیدنا عثمانؓ کے متعلق سوال کیا؟ انہوں نے کہا: وہ ان لوگوں میں سے تھے جو دو لشکروں کے ٹکرانے کے (یعنی احد کے) دن پیچھے پھر گئے تھے، تو اللہ نے انکی توبہ قبول کرلی، پھر ان سے خطاء ہوئی تو لوگوں نے انہیں شہید کردیا۔

اس شخص نے ان سے سیدنا علیؑ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا:

انکے متعلق سوال مت کرو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں انکا کیا مقام ہے؟

(خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب: صفحہ 122 رقم 104 وسندہ صحیح)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس روایت کی سند پہ نواصب کے دو بنیادی جاہلانہ اعتراض ہیں، جنکا جواب مندرجہ ذیل ہے:

 

: ابو اسحاق کا مختلط ہونا:

اس روایت پہ پہلا اعتراض نواصب کی جانب سے یہ کیا جاتا ہے کہ ابو اسحاق السبیعیؒ مختلط راوی ہیں، اور اس بنا پہ کئی نواصب اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ اعتراض سرے سے باطل ہے کیونکہ امام شعبہؒ کا سماع ان سے قدیم ہے اور وہ بالخصوص انکے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں۔

 

֎ امام ابن ابی عاصم (المتوفی 287ھ) لکھتے ہیں:

وقد قال الإمام أحمد: أبو اسحاق ثقة ولكن هؤلاء الذين حملوا عنه بآخرة. ولذلك صححوا حديث ‌شعبة بن الحجاج وسفيان الثوري

 

اور امام احمد بن حنبل نے کہا: ابو اسحاق ثقہ لیکن جنہوں نے اس سے آخر میں روایت لی اور اس لیے شعبہ بن الحجاج اور سفیان الثوری کی حدیث ان سے صحیح ہے۔

(السنة لابن أبي عاصم: جلد 1 صفحہ 86)

 

֎ اسی طرح امام ترمذیؒ (المتوفی 279ه) اپنی علل الکبیر میں لکھتے ہیں:

وشريك وإسرائيل هما من أثبت أصحاب ‌أبي ‌إسحاق بعد ‌شعبة والثوري

 

اور شعبہ اور ثوری کے بعد ابی اسحاق کے اثبت ترین شاگرد شریک و اسرائیل ہیں۔

(العلل الكبير للترمذي: صفحہ 155 رقم 266)

 

واضع ہوا کہ شعبہ اور ثوری، ابی اسحاق کے سب سے اثبت ترین شاگرد ہیں، شریک اور اسرائیل سے بھی زیادہ اثبت۔

֎ امام ابن ابی حاتم (المتوفی 327ه) شریک کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ:

نا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد [بن حنبل] قال قال أبي: سمع شريك من ‌أبي ‌إسحاق ‌قديما

 

صالح بن احمد بن حنبل سے روایت کہ انکے والد امام احمد بن حنبل کہتے ہیں: شریک کا ابی اسحاق سے سماع قدیم ہے۔

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 4 صفحہ 367)

 

جب شریک کا سماع قدیم ہے تو امام شعبہؒ جو کہ ابی اسحاق کی روایت میں شریک سے زیادہ اثبت ہیں تو انکا سماع بھی قدیم ہی ہے، جیسا کہ یہ بات امام احمد بن حنبلؒ نے صراحتا بھی کہی ہے:

 

֎ امام اسحاق بن ابراہیم بن ہانیؒ (المتوفی 275ھ) لکھتے ہیں:

سألت أيما أثبت عندك في حديث ‌أبي ‌إسحاق؟

قال: شعبة، ثم سفيان الثوري. قال: زهير، وإسرائيل، ويونس بن ‌أبي ‌إسحاق بآخره

 

میں نے (امام احمد بن حنبلؒ سے) سوال کیا کہ آپ کے نزدیک ابی اسحاق کی حدیث میں اثبت کون ہے؟

انہوں نے کہا: شعبہ اور سفیان ثوری۔ کہا: زہیر، اسرائیل اور یونس بن ابی اسحاق (سماع کے لحاظ سے) آخر میں ہیں۔

(سؤالات ابن هانئ للإمام أحمد: جلد 2 صفحہ 220 رقم 2205)

 

֎ اسی طرح امام عباس الدوریؒ (المتوفی 271ه) لکھتے ہیں:

سمعت يحيى يقول زكريا بن أبى زائده وزهير بن معاوية وإسرائيل حديثهم عن أبى إسحاق قريب من السواء ‌وإنما ‌أصحاب ‌أبى ‌إسحاق سفيان وشعبة

 

میں نے امام یحیی بن معینؒ کو کہتے ہوا سنا: زکریا بن ابی زائدہ، زہیر بن معاویہ، اور اسرائیل کی احادیث ابی اسحاق سے برابری کے قریب ہیں اور ابی اسحاق کے اصحاب تو صرف سفیان ثوری اور شعبہ ہیں۔

(تاريخ ابن معين - رواية الدوري: جلد 3 صفحہ 372 رقم 1807)

معلوم ہوا کہ امام شعبہؒ کا سماع ابو اسحاق سے قدیم یعنی اختلاط سے قبل کا ہے، اور ان کی حدیث صحیح ہوتی ہے کیونکہ امام شعبہؒ کا شمار امام عمرو بن عبد اللہ ابی اسحاق السبیعیؒ کے خاص اصحاب میں ہوتا ہے، لہزا یہ اختلاط کا اعتراض باطل ہے۔

 

ابی اسحاق السبیعیؒ مدلس ہیں اور انکا عنعنہ ہے:

اس روایت پہ دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ابی اسحاق السبیعیؒ مدلس ہیں اور معنن روایت کررہے ہیں مگر یہ اعتراض بھی جاہلانہ ہے کیونکہ امام شعبہؒ جب ابی اسحاق سے روایت کریں تو وہ سماع پہ محمول ہوتی ہے:

 

֎ امام شمس الدين ابو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاویؒ (المتوفی 902ھ) لکھتے ہیں:

ولذا استثني من هذا الخلاف ‌الأعمش، وأبو ‌إسحاق، وقتادة بالنسبة لحديث ‌شعبة خاصة عنهم، فإنه قال: كفيتكم تدليسهم، فإذا جاء حديثهم من طريقة بالعنعنة، حمل على السماع جزما

 

اور لہزا اس اختلاف سے اعمش، ابو اسحاق اور قتادہ کی روایت کو ان سے خاص شعبہ کی حدیث میں استثنی حاصل ہے، کیونکہ انہوں نے کہا: میں تمہارے لیے انکی تدلیس پہ کافی ہوں، لہزا اگر انکی کوئی حدیث اگر عنعنہ کے طریق سے آئے تو اسے قطعی طور پہ سماع پہ محمول کیا جائے گا۔

(فتح المغيث بشرح ألفية الحديث: جلد 1 صفحہ 233)

 

֎ اسی طرح امام ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ) لکھتے ہیں:

وروينا في المعرفة للبيهقي وفيها عن شعبة أنه قال: "كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش وأبو إسحاق وقتادة"

وهي قاعدة حسنة تقبل أحاديث هؤلاء إذا كان عن شعبة ولو عنعنوها

 

اور میں نے امام بیہقیؒ کی (کتاب) "المعرفۃ" دیکھی ہے اور اس میں امام شعبہؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں تمہارے لیے تین لوگوں کی تدلیس کیلیے کافی ہوں، اعمش، ابو اسحاق اور قتادہ۔

اور یہ انکی احادیث کو قبول کرنے کا اچھا قائدہ ہے اگر وہ امام شعبہؒ سے مروی ہوں اگرچہ ان میں عنعنہ ہو۔

(النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر: جلد 2 صفحہ 630 و 631)

 

اختصار کے پیش نظر یہ دو حوالے ہی کافی ہیں کہ امام شعبہؒ اگر ابو اسحاق السبیعی سے روایت کریں تو انکا عنعنہ مقبول ہوتا ہے اور سماع پہ محمول کیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لہزا معلوم ہوا کہ یہ روایت بلکل سندا صحیح ثابت ہے۔

کتاب کے محقق شیخ احمد میرین البلوشی بھی اسکی سند کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لہزا معلوم ہوا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص سیدنا مولا علی المرتضیؑ کے اوپر کوئی سوال کرے، انہوں نے تو سیدنا عثمان غنیؓ کی خطاء کا صاف اقرار کیا مگر پھر سیدنا علی المرتضیؑ کے متعلق سوال ہونے پہ صریحا ٹوک دیا تو یہ ٹوکنا اور منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ کے نزدیک سیدنا علی المرتضیؑ اپنے تمام اقدامات کے اندر حق پہ تھے۔ الحمد اللہ تعالی۔

تحریر و تحقیق: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں