امام ابن حجر عسقلانیؒ کے نزدیک سیدہ فاطمہؑ، سیدہ خدیجہؑ اور سیدہ عائشہؑ کی فضیلت
﴿امام ابن حجر عسقلانیؒ کے نزدیک سیدہ فاطمہؑ،
سیدہ خدیجہؑ اور سیدہ عائشہؑ کی فضیلت﴾
امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ)
لکھتے ہیں:
قال السبكي الكبير الذي ندين الله به ان
قاطمة أفضل ثم خديجة ثم عائشة والخلاف شهير ولكن الحق أحق ان يتبع وقال بن تيمية جهات
الفضل بين خديجة وعائشة متقاربة وكأنه رأى التوقف وقال بن القيم إن أريد بالتفضيل كثرة
الثواب عند الله فذاك أمر لا يطلع عليه فإن عمل القلوب أفضل من عمل الجوارح وإن أريد
كثرة العلم فعائشة لا محالة وإن أريد شرف الأصل ففاطمة لا محالة وهي فضيلة لا يشاركها
فيها غير أخواتها وإن أريد شرف السيادة فقد ثبت النص لفاطمة وحدها
قلت امتازت فاطمة عن أخواتها بأنهن متن
في حياة النبي صلى الله عليه وسلم كما تقدم وأما ما امتازت به عائشة من فضل العلم فإن
لخديجة ما يقابله وهي أنها أول من أجاب إلى الإسلام ودعا إليه وأعان على ثبوته بالنفس
والمال والتوجه التام فلها مثل أجر من جاء بعدها ولا يقدر قدر ذلك إلا الله وقيل انعقد
الإجماع على أفضلية فاطمة وبقي الخلاف بين عائشة وخديجة فرع ذكر الرافعي أن أزواج النبي
صلى الله عليه وسلم أفضل نساء هذه الأمة فإن استثنيت فاطمة لكونها بضعة فأخواتها شاركنها
وقد أخرج الطحاوي والحاكم بسند جيد عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في حق
زينب ابنته لما أوذيت عند خروجها من مكة هي أفضل بناتي أصيبت في وقد وقع في حديث خطبة
عثمان حفصة زيادة في مسند أبي يعلى تزوج عثمان خيرا من حفصة وتزوج حفصة خير من عثمان
والجواب عن قصة زينب تقدم ويحتمل أن يقدر من وأن يقال كان ذلك قبل أن يحصل لفاطمة جهة
التفضيل التي امتازت بها عن غيرها من أخواتها كما تقدم
امام سبکی الکبیرؒ نے فرمایا: جس عقیدے
پر ہم اللہ کے حضور دین رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سب سے افضل
ہیں، پھر سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا، پھر سیدہ عائشہ سلام اللہ علیہا، اگرچہ میں اختلاف
مشہور ہے، لیکن حق کی پیروی کرنا زیادہ مستحق ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا اور عائشہ سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے پہلو بہت قریب قریب
ہیں، لہذا انہوں نے توقف اختیار کیا۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
اگر فضیلت سے مراد اللہ کے ہاں زیادہ ثواب
ہے، تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کسی کو اطلاع نہیں، کیونکہ دلوں کے اعمال، اعضاء
کے اعمال سے افضل ہوتے ہیں۔ اگر فضیلت سے مراد علم کی کثرت ہے تو پھر سیدہ عائشہ رضی
اللہ عنہا لا محالہ (یقینی طور پہ) افضل ہیں۔ اگر شرف نسب کا اعتبار کیا جائے تو پھر
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا (یقینی طور پہ) لا محالہ سب سے افضل ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسی
فضیلت ہے جس میں ان کی بہنوں کے سوا کوئی شریک نہیں۔ اور اگر شرفِ سیادت مراد ہو تو
صرف سيده فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے نص ثابت ہیں۔
میں (ابن حجر عسقلانی) کہتا ہوں:
سیدہ فاطمہؑ اپنی بہنوں سے اس لیے ممتاز
ہوئیں کہ وہ سب نبی کریم ﷺ کی زندگی میں وفات پا گئیں، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
اور جہاں تک سیدہ عائشہؓ کی علمی فضیلت
کی بات ہے، تو اس کے مقابلے میں سیدہ خدیجہؓ کو بھی ایک منفرد مقام حاصل ہے، کیونکہ
وہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی تھیں، اور انہوں نے اسلام کی طرف دعوت دی، اور
اپنی جان و مال اور مکمل توجہ سے اسلام کی پختگی میں مدد دی۔ پس سیدہ خدیجہ الکبری
سلام اللہ علیہا کے لیے اُن سب کا ثواب ہے جو اُن کے بعد آئے، اور اِس ثواب کی مقدار
کو صرف اللہ ہی جان سکتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کی افضلیت
پر اجماع منقعد ہو چکا ہے اور اختلاف صرف سیدہ عائشہؓ اور سیدہ خدیجہؓ کے درمیان باقی
ہے۔
(فرع) امام الرافعیؒ نے ذکر کیا ہے کہ:
نبی کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اس امت کی
سب سے افضل خواتین ہیں، اور اگر سیدہ فاطمہؓ کو ان سے مستثنیٰ کیا جائے کیونکہ وہ نبی
اکرم ﷺ کے جگر کا ٹکڑا ہیں، تو پھر ان کی بہنیں بھی اس میں شریک ہیں۔
اور
امام طحاویؒ اور امام حاکمؒ نے ایک جید سند کے ساتھ عائشہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم
ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ زینبؓ کے بارے میں فرمایا جب انہیں مکہ سے ہجرت وقت اذیت دی گئی
کہ:
وہ میری بیٹیوں میں سب سے افضل ہے جسے
(اس موقع پر) تکلیف پہنچی۔
مسند ابی یعلی میں سیدنا عثمانؓ اور سیدنا
حفصہؓ کے پیغام نکاح سے متعلق حدیث ہے کہ:
عثمانؓ نے حفصہؓ سے بہتر خاتون سے نکاح
کیا، اور حفصہؓ نے عثمانؓ سے بہتر شخص سے نکاح کیا۔
اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے قصے کا
جواب پہلے گزر چکا، اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس بات کو اس طرح سمجھا جائے یا کہا جائے
کہ یہ بات اس وقت کی ہے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وہ فضیلت والا مقام حاصل نہیں
ہوا تھا جو انہیں اپنی بہنوں سے ممتاز کرتا ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا۔
(فتح الباري لابن حجر: جلد
7 صفحہ 109)
معلوم ہوا کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ کے نزدیک سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اس امت کی سب سے افضل خاتون ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کے ازواج
مطہرات کے متعلق جو یہ آیا ہے کہ وہ سب سے افضل خواتین ہیں تو اس سے سیدہ فاطمہؓ اور
رسول اللہ ﷺ کی دیگر بیٹیاں اس لیے مستثنی ہیں کہ آپ سب بہنیں رسول اللہ ﷺ کے جگر کے
ٹکڑے ہیں مگر سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بعد میں وہ فضائل حاصل ہوئے ہیں جنہوں
نے انکو انکی دیگر بہنوں سے ممتاز کردیا ہے۔ باقی رہا معاملہ سیدہ خدیجہ الکبری سلام
اللہ علیہا کا اور سیدہ عائشہ سلام اللہ علیہا کا تو امام ابن حجر عسقلانیؒ کے نزدیک
اس میں بھی سیدہ خدیجہ الکبریؒ افضل ہیں کیونکہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والی ہیں
اور اس وجہ سے انکے بعد بھی جو لوگ دین اسلام پہ عمل کریں گے تو انکے عمل کرنا کا ثواب
بھی سیدہ خدیجہ الکبریؑ کو پہنچے گا، میرے خیال میں امام ابن حجر عسقلانیؒ یہاں سیدہ
عائشہ سلام اللہ علیہا کی طرف اشارہ کررہے ہیں کیونکہ وہ سیدہ خدیجہ الکبری سلام اللہ
علیہا کے بعد ایمان لائی ہیں تو انکے اعمال کا ثواب بھی سیدہ خدیجہ الکبریؑ پہنچے گا،
واللہ اعلم بالصواب۔
یہ وہ نقاط ہیں جو امام ابن حجر عسقلانیؒ
کے کلام سے مجھے سمجھ آئے ہیں۔ اللہ کمی کوتاہی معاف کرے۔ آمین ثم آمین
والسلام: ابو الحسنین ڈاکٹر شہزاد احمد
آرائیں
Post a Comment