امام ابن قدامہ الحنبلیؒ کا عدت میں نکاح کے متعلق فقہی موقف
﴿امام ابن قدامہ الحنبلیؒ کا عدت میں نکاح کے
متعلق فقہی موقف﴾
عدت میں نکاح کے متعلق کل میں تحقیق و
مطالعہ کررہا تھا تو فقہاء میں مجھے اس باب میں سب سے عمدہ اور بہترین کلام امام
ابن حزمؒ اور امام ابن قدامہؒ کا لگا۔ میں نے سوچا کیوں نہ اس مسئلے پہ بھی ایک
مختصر تحریر لکھ دی جائے۔ لہزا
امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد ابن
قدامہ المقدسی الحنبلیؒ (المتوفی 620ھ) فرماتے ہیں:
وكل نكاح أجمع على بطلانه، كنكاح
خامسة، أو متزوجة، أو معتدة، أو نكاح المطلقة ثلاثا، إذا وطئ فيه عالما بالتحريم،
فهو زنى، موجب للحد المشروع فيه قبل العقد. وبه قال الشافعي. وقال أبو حنيفة،
وصاحباه: لا حد فيه؛ لما ذكروه في الفصل الذي قبل هذا. وقال النخعي: يجلد مائة،
ولا ينفى. ولنا، ما ذكرناه فيما مضى، وروى أبو نصر المروذى، بإسناده عن عبيد بن
نضيلة، قال: رفع إلى عمر بن الخطاب امرأة تزوجت في عدتها، فقال: هل علمتما؟ فقالا:
لا. قال: لو علمتما لرجمتكما. فجلدهما أسواطا، ثم فرق بينهما. وروى أبو بكر،
بإسناده عن خلاس، قال: رفع إلى علي، عليه السلام، امرأة تزوجت ولها زوج كتمته،
فرجمها، وجلد زوجها الآخر مائة جلدة. فإن لم يعلم تحريم ذلك، فلا حد عليه، لعذر
الجهل، ولذلك درأ عمر عنهما الحد؛ لجهلهما
اور ہر وہ نکاح جس کے باطل ہونے پہ
اجماع ہے، جیسے کہ پانچواں نکاح، یا شادی شدہ عورت سے، یا عدت میں ہونے والی عورت
سے، یا تین دفع طلاق دی گئی عورت سے نکاح، اگر اس میں یہ جانتے ہوئے کہ یہ حرام ہے
مباشرت ہوئی تو وہ زنا ہے، اور اس میں شرعی حد عقد سے پہلے واجب ہوگی، اور یہی
امام شافعیؒ نے کہا ہے۔ اور امام ابو حنیفہؒ اور انکے اصحاب (امام ابو یوسفؒ اور
امام محمدؒ) نے کہا ہے: ان پہ کوئی حد نہیں ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اس سے پچھلے باب
میں ذکر کیا ہے۔
اور امام ابراہیم نخعیؒ نے کہا: اسے
سو کوڑے مارے جائیں گے اور جلاوطن نہیں کیا جائے گا، اور ہمارے پاس وہی (دلیل) ہے
جو ہم نے پہلے ذکر کی ہے۔
اور ابو نصر المروذی نے اسناد کے ساتھ
عبید بن نضیلۃ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: ایک عورت کو سیدنا عمر بن الخطابؓ کے
پاس لایا گیا جس نے عدت میں نکاح کیا تھا، تو انہوں نے پوچھا: کیا تمہیں علم تھا؟
تو انہوں نے کہا: نہیں۔ آپؓ نے فرمایا: اگر تمہیں علم ہوتا تو میں تمہیں رجم
کردیتا، پھر انہیں کوڑے مارے اور پھر انکے درمیان جدائی کروادی۔
اور ابو بکر نے اسناد کے ساتھ خلاس سے
روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: سیدنا مولا علی علیہ السلام کے پاس ایک عورت کو
لایا گیا جس نے اپنے شوہر سے چھپاتے ہوئے دوسری شادی کرلی تھی، تو انہوں نے اسے
رجم کردیا اور دوسرے شوہر کو سو کوڑے مارے،
تو اگر اسے اسکی حرمت کا علم نہیں تھا
تو اس پہ کوئی حد نہیں ہے، جہالت کے عذر کی وجہ سے، اور اسی طرح سیدنا عمرؓ نے
انکی جہالت کی وجہ سے حد کو نرم کردیا۔
(المغني
لابن قدامة - ت التركي: جلد 12 صفحه 343)
اسی طرح امام ابن قدامہؒ ایک اور جگہ
فرماتے ہیں:
وإذا تزوج معتدة، وهما عالمان
بالعدة، وتحريم النكاح فيها، ووطئها، فهما زانيان، عليهما حد الزنى، ولا مهر لها،
ولا يلحقه النسب. وإن كانا جاهلين بالعدة، أو بالتحريم، ثبت النسب، وانتفى الحد،
ووجب المهر. وإن علم هو دونها، فعليه الحد والمهر، ولا نسب له. وإن علمت هى دونه،
فعليها الحد، ولا مهر لها، والنسب لاحق به. وإنما كان كذلك؛ لأن هذا نكاح متفق على
بطلانه، فأشبه نكاح ذوات محارمه
اور اگر عدت والی عورت شادی کرتی ہے
اور دونو عدت کو اور اس میں نکاح کرنے کی حرمت کو جانتے ہیں، اور وہ اس میں جماع
کرتے ہیں تو وہ دونو زانی ہیں، اور ان پہ زنا کی حد لاگو ہوگی، اور ان پہ کوئی مہر
نہیں ہے اور نہ ہی نسب اس سے جڑتا ہے۔ اور اگر وہ دونو کو عدت سے جاہل ہوں یا اس
کی حرمت سے، تو نسب ثابت ہوجاتا ہے اور حد ختم ہوجاتی ہے اور مہر واجب ہوجاتا ہے۔
اگر عورت کے علاوہ مرد کو علم ہے تو اس پہ حد اور مہر ہے اور اسکا کوئی نسب نہیں
ہے، اور اگر مرد کے علاوہ عورت کو علم ہے، تو اس پہ حد ہے، اور اس کیلیے مہر نہیں
ہے، اور نسب پہ اسکا حق نہیں ہے۔ اور ایسا اس لیے کہ یہ ایسا نکاح ہے کہ جس باطل
ہونے پہ اتفاق ہے، اور یہ محرمات سے نکاح کے مشابہ ہے۔
(المغني لابن قدامة - ت التركي: جلد 11 صفحه 242)
امام ابن قدامہؒ کا کلام مختصر کریں
تو اگر جان بوجھ کر نکاح کیا جائے گا تو حد رجم لاگو ہوگی اور اگر علم نہیں تو رجم
کی حد لاگو نہیں ہوگی مگر کوڑے لگائے جائیں گے اور عورت کو مہر نہیں دیا جائے گا،
اور نہ ہی اس کی وجہ سے ہونے والے بچے کو نسب ملے گا۔ مرد کو علم تھا تو اسے مہر
دینا ہوگا مگر وہ بیت المال میں جمع ہوگا اور عورت کو نہیں ملے گا۔ اور امام ابو
حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمد بن حسن الشیبانیؒ یعنی اہل کوفہ فقہ حنفی کا
قول یہ ہے یہ معلوم ہونے کے بعد بھی ان پہ قسم کی کوئی حد نہیں ہے اور اہل کوفہ سے
ہی امام ابراہیم نخعیؒ کا قول ہے کہ انہیں کوڑے تو ماریں جائیں گے مگر رجم نہیں
کیا جائے گا۔ امام ابن قدامہؒ نے بھی سیدنا عمرؓ اور سیدنا مولا علیؑ کے فتوی سے
حجت پکڑی ہے۔ اور امام ابن قدامہؒ نے عدت میں نکاح کے باطل ہونے پہ اجماع نقل کیا
ہے لہزا اس کے مرتکب کیلیے کسی قسم کی کوئی راہ فرار نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ تعالی اعلم۔
واسلام: شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment