سحری میں دیری کرنا اور افطاری میں جلدی کرنا
﴿امام شافعیؒ کے
مذہب میں مولا علی المرتضیؑ کی فقہ﴾
قسط
نمبر 1
﴿سحری
میں دیری کرنا اور افطاری میں جلدی کرنا﴾
امام ابو الحسن علی بن
محمد الماوردیؒ (المتوفی 450ھ) سحری کو سنت اور اسکو تاخیر سے کرنے کو مستحب قرار دیتے
ہوئے احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وروي عن علي بن أبي طالب
عليه السلام أنه كان يقول لغلامه قنبر ائتني بالغذاء المبارك فيتسحر ويخرج فيؤذن ويصلي،
ولأن في تعجيل الفطر وتأخير السحور قوة لجسده ومعونة لأداء عبادته
سیدنا علی بن ابی طالب
علیہ السلام سے روایت ہے کہ وہ اپنے غلام قنبر سے کہتے تھے: میرے لیے مبارک غذا لے
آؤ۔ پھر وہ سحری کرتے، باہر نکلتے، اذان دیتے اور نماز پڑھتے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ
افطار کو جلدی کرنے اور سحری کو تاخیر سے خانے سے جسم کو قوت ملتی ہے اور عبادت کی
ادائیگی میں مدد ملتی ہے۔
(الحاوي
الكبير: جلد 3 صفحہ 444)
سیدنا علی المرتضیؑ کی روایت مندرجہ ذیل ہے:
امام شافعیؒ اسے روایت
کرتے ہیں:
أخبرنا ابن عيينة، عن
شبيب بن غرقدة، عن حبان بن الحارث قال: أتيت عليا وهو يعسكر بدير أبي موسى فوجدته
يطعم فقال: " ادن فكل، قلت: إني أريد الصوم "، قال: وأنا أريده، فدنوت فأكلت،
فلما فرغ قال: «يا ابن التياح، أقم الصلاة»
حبان بن الحارث سے روایت
ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں سیدنا علی المرتضیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اس وقت حضرت ابو
موسی اشعریؓ کے ہاں تھے، میں نے انہیں کھانا کھاتے ہوئے پایا۔ انہوں نے کہا: آگے ہوجاؤ
اور کھاؤ۔ میں نے عرض کی: میں آج روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا: میرا
بھی یہی ارادہ ہے۔ میں قریب ہوا اور میں نے بھی کھانا اور میں نے بھی کھانا شروع کیا۔
جب وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا: اے ابن تیاح! نماز کیلیے اقامت کہو۔
(مسند الشافعي
- ترتيب سنجر: جلد 1 صفحہ 214 رقم 124، وسندہ ضعیف لجھالۃ حبان بن الحارث)
اسکی سند ضعیف ہے کیونکہ
حبان بن الحارث مجھول ہے، اس كو امام ابن حبانؒ نے دو مرتبہ اپنی کتاب الثقات میں درج
کیا ہے مگر اسکے علاوہ اس پہ کوئی تعدیل موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس پہ کوئی جرح ہے۔
البتہ امام ابن حزمؒ نے اسے اپنی کتاب المحلیؒ میں روایت کیا ہے چناچہ یہ توثیق ظمنی
بھی مروی ہے۔ پھر بھی یہ چیز اسکی جہالت کو رفع کرنے کو کافی نہیں ہے۔
(المحلى
بالآثار: جلد 4 صفحہ 371)
اسی طرح افطاری میں جلدی کرنے کی روایت مندرجہ ذیل ہے:
امام ابن ابی شیبہؒ (المتوفی
235ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا وكيع عن مسلم بن
يزيد عن أبيه قال: كان علي بن أبي طالب يقول لابن (النباح): غربت الشمس فيقول:
لا تعجل فيقول: غربت الشمس، (فيقول: لا تعجل، فيقول: غربت الشمس)، فإذا قال: نعم،
أفطر ثم نزل فصلى
مسلم بن یزید کے والد
سے روایت ہے کہ:
سیدنا علی بن ابی طالبؓ
ابن النباح سے کہتے: کیا سورج غروب ہوگیا ہے؟ تو وہ کہتا: جلدی مت کیجیے، وہ پھر کہتے
کہ کیا سورج غروب ہوگیا ہے؟ تو وہ کہتا: جلدی مت کیجیے۔ وہ پھر کہتے کہ کیا سورج غروب
ہوگیا؟ تو جب وہ کہتا کہ جی ہاں (سورج غروب ہوگیا ہے)، تو سیدنا علیؑ افطار کرتے اور
پھر اتر کر نماز ادا کرتے۔
(المصنف
- ابن أبي شيبة - ت الشثري: جلد 4 صفحہ 483 رقم 9198 وسندہ ضعیف لجھالۃ یزید)
اسکی سند بھی ضعیف ہے
کیونکہ مسلم بن یزید کا والد یزید مجھول ہے۔
البتہ
شافعی فقہاء نے یہ مسئلہ محض سیدنا علی المرتضیؑ سے مروی اقوال سے ہی اخذ نہیں کیا
بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے امام المارودیؒ کا کلام ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے
رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے بھی حجت پکڑی ہے۔
امام شافعیؒ روایت کرتے ہیں:
أخبرنا مالك، عن أبي حازم
بن دينار، عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:
«لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر»
سیدنا سہل بن سعد الساعدیؓ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لوگ ہمیشہ بھلائی سے رہیں
گے جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
(مسند الشافعي
- ترتيب سنجر: جلد 2 صفحه 102 رقم 614 وسنده صحيح)
امام عبد الرزاقؒ رویت
کرتے ہیں:
عبد الرزاق، عن الثوري،
عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون الأودي، قال: كان أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم
- أسرع الناس إفطارا وأبطأه سحورا
عمرو بن ميمون الأوديؒ
سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں:
محمد ﷺ کے صحابہؓ لوگوں
میں سب سے جلدی افطار کرنے والے اور سب سے زیادہ تاخیر سے سحری کرنے والے تھے۔
(المصنف
- عبد الرزاق - ط التأصيل الثانية: جلد 4 صفحہ 519 رقم 7827)
اسکی سند ميں ضعف هے،
ابي اسحاق السبيعي کا تفرد ہے البتہ یہ متن صحیح ہے، اسکے متعدد شواہد و متابعات موجود
ہیں، ابی اسحاق السبیعی سے اسکو سفیان ثوری کے علاوہ شریک نے بھی روایت ہے اور اسرائیل
نے بھی روایت کیا ہے، شریک اور اسماعیل، ابی اسحاق کی روایت میں سب سے زیادہ اثبت ہیں
اور اسماعیل نے اختلاط کے بعد اور پہلے دونو مرتبہ سماع کیا ہے مگر اس کے پاس کتاب
بھی تھی جس سے یہ روایت کرتے تھے تو یہ اس روایت کی علل کا مختصر سا کلام ہے۔
اسکے علاوہ آئمہ محدثین نے اسکو صحیح قرار دیا ہے:
امام ابن حجر عسقلانیؒ
اسکی اسنادکو صحیح قرار دیتے ہیں (فتح الباري لابن حجر: جلد 4 صفحہ 199)
امام نوویؒ اسکی سند کو
صحیح قرار دیتے ہیں (المجموع
شرح المهذب - ط المنيرية: جلد 6 صفحہ 362)
شیخ أبو عبد الله الداني
بن منير بھی اسکو صحیح قرار دیتے ہیں (سلسلة الآثار الصحيحة أو الصحيح المسند من أقوال الصحابة والتابعين: جلد 2 صفحہ
298 رقم 625)
البتہ میری اور شیخ مصطفی
العدوی حفظہ اللہ کی تحقیق میں اسکی سند ضعیف ہے۔ مگر اسکا متن صحیح ہے، شواہد موجود
ہیں۔
امام ابن حبانؒ روایت کرتے ہیں:
أخبرنا الحسن بن سفيان،
قال: حدثنا حرملة بن يحيى، قال: حدثنا ابن وهب، قال: أخبرنا عمرو بن الحارث، أنه سمع
عطاء بن أبي رباح، يحدث عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إنا
معشر الأنبياء أمرنا أن نؤخر سحورنا، ونعجل فطرنا، وأن نمسك بأيماننا على شمائلنا
في صلاتنا"
"ہم انبیاء کی جماعت کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے سحری کو مؤخر
کریں، اور اپنے افطار کو جلدی کریں، اور اپنی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ
پر رکھیں۔"
(صحيح ابن
حبان: التقاسيم والأنواع: جلد 5 صفحہ 470 رقم 4762، وترقیم الآخر: 1770، واسنادہ صحیح)
امام ابن رجب الحنبلیؒ
اس روایت کو ظاہری طور پہ امام مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں (فتح الباري لابن رجب: جلد 6 صفحہ 360)
اس روایت کو طلحہ بن عمرو
نے عطاء بن ابی رباح سے مرسلا روایت کیا ہے تو یہ ضعف طلحہ بن عمرو کی وجہ سے ہے اور
وہ فی نفسی ضعیف بھی ہے۔ اور اسی پہ آئمہ نے کلام کیا ہے۔
(الطبقات
الكبرى - ط الخانجي: جلد 1 صفحہ 331)
مگر امام عبد بن الحمیدؒ
وغیرہ اسے طلحہ بن عمرو سے روایت کرتے ہیں تو وہ سیدنا ابن عباسؓ کا حوالہ دیکر پھر
روایت کرتا ہے ناکہ مرسلا روایت کرتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ طلحہ نے اپنے ضعف کے
سبب اس میں وہم کھایا ہے اور اسکو کبھی مرسلا اور کبھی واسطے سے روایت کیا ہے۔
(المنتخب
من مسند عبد بن حميد ت صبحي السامرائي: رقم 624)
البتہ امام ابن حجر عسقلانیؒ
اسکے برعکس اس خطا کو حرملہ بن یحیی کی طرف منسوب کرتے ہیں جوکہ درست بات نہیں ہے کیونکہ
حرملہ بن یحیی ثقہ صدوق راوی ہے، اور انکے پاس ابن وہب کی کتاب تھی اور یہ انکی کتاب
سے روایت کرتے تھے لہزا یہاں امام ابن حجر عسقلانیؒ کو تسامح ہوا ہے اور صحیح ابن حبان
کی سند محفوظ اور صحیح ہے۔
(التلخيص
الحبير - ط العلمية: جلد 1 صفحہ 548 رقم 330)
(الكامل
في ضعفاء الرجال: جلد 3 صفحه 409)
بہرحال اسکی علل پہ کلام
کے بعد اس روایت پہ حکم یہ ہے کہ یہ روایت صحیح غریب ہے۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی
سحری میں اور فجر کی نماز میں صرف پچاس آیتیں پڑھنے جتنا وقفہ ہوتا تھا، آپ ﷺ سحری
کرنے کے فورا بعد ہی نماز فجر ادا کرلیتے تھے (صحیح البخاری: رقم 1921)
اور اس پہ استاد الآئمہ محمد بن ادریس الشافعیؒ کہتے ہیں:
وأحب تعجيل الفطر وتأخير
السحور اتباعا لرسول الله - صلى الله عليه وسلم
میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی
میں افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کو پسند کرتا ہوں۔
(مختصر
المزني - ط الفكر بآخر كتاب الأم: جلد 8 صفحہ 153)
لہزا معلوم ہوا کہ یہ
رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے کہ سحری میں دیری اور افطاری میں جلدی کی جائے۔ اور اسی پہ ہی
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل ہے۔
تمام ساتھی اس ناچیز کو
دعاؤں میں لازمی یاد رکھا کریں۔ اللہ آپ سب کو اور ہمکو رمضان المبارک کی برکتیں عطا
فرمائے۔ آمین ثم آمین
از قلم: ابو الحسنین ڈاکٹر
شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment