-->

تفہیم القرآن - امام سید ابو الاعلی مودودیؒ

 

"تفہیم القرآن - امام سید ابو الاعلی مودودی"

تفہیم القرآن بیسویں صدی میں تفسیری لٹریچر میں انتہائی اہم اضافہ ہے اس کے متنوع خصوصیات وامتیازات ہیں جن کی وجہ سے یہ عوام و خواص میں بے حد مقبول ہے یہ حقیقی معنوں میں ایک شاہکار تفسیر ہے۔ جو اپنے آغاز سے لیکر اب تک بے شمار اثرات نئی نسل پر مرتب کر چکی ہے نیز یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اگرچہ سبھی تراجم و تفاسیر منفرد خصوصیات کے حامل ہیں لیکن تفہیم القرآن عصر حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل کا وحی الٰہی کی روشنی میں جس انداز سے حل پیش کرتا ہے وہ اس کا نمایاں امتیاز ہے۔ مغربی فکر و تہذیب سے متاثر نئی نسل مختلف ذہنی اشکالات اور تہذیب حاضر کے نت نئے مسائل اور الجھنوں میں گھری ہوئی تھی اس کو امام موصوف نے بحسن وخوبی ایڈرس کیا ہے۔

برصغیر میں فہم قرآن کا جو ذوق وشوق ابھرا اس میں امام مودودیؒ کا اہم حصہ ہے۔ بقول مولانا عنایت اللہ سبحانی

"بہر کیف یہ واقعہ ہے کہ ہند و پاک میں اس وقت مطالعہ قرآن کا جو کچھ تھوڑا بہت ذوق پیدا ہوا ہے وہ زیادہ تر مولانا مودودیؒ کا مرہون منت اور تفہیم القرآن ہی کی برکت ہے۔ ‘‘

بیسویں صدی میں برصغیر پاک وہند میں فہم قرآن کا ذوق ابھرنا ہی تفہیم القرآن کی عظیم الشان فتوح ہے۔  تفاسیر میں صرف تفہیم القرآن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کتابی صورت میں طبع ہونے سے قبل ہی رسالہ ترجمان القرآن میں شائع ہوتا رہا اور صاحب تفہیم القرآن نے اپنے معاصر علماء کو اس بات کی دعوت بھی دی کہ آپ حضرات کو اگر کہیں اس میں کوئی غلطی نظر آئے یا کسی حذف و اضافے کی ضرورت محسوس ہوتو ضرور مطلع فرمائیں۔ خواجہ اقبال احمد ندوی کے مطابق ’’مولانا مودودیؒ نے اصحاب علم اور علمائے کرام سے درخواست کی تھی کہ مسودہ میں اگر کسی مقام پر کوئی غلطی نظر آئے یا کسی مقام پر انہیں محسوس ہو کہ یہاں مزید تشریح کی ضرورت ہے آپ براہ کرم دلائل کے ساتھ مجھے متنبہ فرماتے رہیں تاکہ غلطیوں کی اصلاح اور تشریح رسالہ میں شائع ہوتی رہے۔ جب بھی مسودہ پر دلائل کے ساتھ کوئی اعتراض وارد ہوتا، مولانا خط پڑھتے ہی سارا کام چھوڑ کر، اس کا جائزہ لیتے تھے۔ ‘‘

تفہیم القرآن کا اسلوب نہایت عمدہ ہے، یہ اردو نثر کا ایک عظیم شہ پارہ ہے۔ چونکہ اس کے مخاطب عام تعلیم یافتہ طبقہ ہے اس لیے امام مودودی نے زبان نہایت ہی آسان اور عام فہم استعمال کی ہے اور انداز بیان بہت ہی دلکش اور دلنشین ہے۔

ینگس ٹاون یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر مستنصر میر اس کی زبان کے بارے میں لکھتے ہیں :

“Tafhim has been called the first bestselling Urdu Quran commentary, and the main reason for its popularity is the limped beauty of its style

📚 [American journal of social sciences, vol: 2, 1985]

امام مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں جگہ جگہ اس فکر کا تعارف کرایا کہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام انسان کو ہر لمحہ رہنمائی کا کام کرتا ہے۔ امام موصوف کو اس بات پر یقین محکم تھا کہ اسلام روحانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، خاندانی، اخلاقی مسائل کا ایسا مکمل حل پیش کرتا ہے جس کے بعد کسی اور نظریہ یا مذہب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے یہ عقیدہ امام نے تفہیم القرآن کے ذریعے سے عام کیا ہے۔

امام موصوف نے اسلام کی دور حاضر سے ایسی ہم آہنگی پیدا کی کہ اب ہر خاص وعام اس بات پر متفق ہے کہ اسلام عصر حاضر کا دین ہے۔ اور تفہیم القرآن میں اکثر مقامات پر انہوں نے اس بات کی خوب وضاحت کی کہ اسلام کیسے عصر حاضر سے مطابقت رکھتا ہے اور اس میں امام پوری طرح کامیاب بھی رہے۔ مغربی فکر وتہذیب سے مرعوبیت کے شکار نئی نسل اسلام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے وہ اسلام کو فرسودہ اور ازمنہ وسطیٰ کا مذہب سمجھتے تھے اور الحاد کو اپنا قبلہ منتخب کر چکے تھے۔

اس تعلق سے دار العلوم دیوبند کے ایک مشہور عالم دین مولانا عامر عثمانیؒ لکھتے ہیں کہ تفہیم القرآن کا گراں قدر امتیاز یہ ہے کہ وہ موجودہ مغرب زدہ اذہان کو قرآن کریم اور اسلام کو سمجھانے اور قریب لانے میں نہایت دلکش انداز و پیرایہ کا شاہکار ہے۔ ہر جگہ تفہیم اور سید مودودیؒ کے مضامین نے باغی سے باغی مسلم نوجوان کو حیرت انگیز حد تک یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ الحاد و بغاوت کی مذلت سے نکال کر سراپا دلدادہ اسلام بنا دیا ہے‘‘۔

یہ بات بھی واضح رہے کہ جدیدیت اور مغربی فکر وتہذیب کے پیدا شدہ مسائل سے نپٹنے کے لیے سید مودودیؒ کے معاصر مفسرین ذہنی وعملی طور سے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے چند مسائل کا حل اگرچہ پیش بھی کیا لیکن وہ زیادہ مدلل نہیں ہوتے تھے۔ پروفیسر مستنصر میر لکھتے ہیں:

“Mawdudi is keenly aware of the importance of issues and problems of modernity which even today many Muslim Quran scholars refuse to recognize as proper grist for their mills.’’

تفہیم القرآن قدیم و جدید علوم کا ایک خزینہ ہے۔ یہ محض علوم اسلامیہ کا ہی نہیں بلکہ جدید علوم بھی ایک ضخیم انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اس میں تمام ضروری علوم کی سیر حاصل بحثیں ملتی ہیں۔ امام کو قدیم و جدید علوم پر ید طولیٰ حاصل تھا۔ انہوں نے علوم کے تمام موتی تفہیم القرآن میں ڈال دیے ہے۔ تفہیم القرآن میں جہاں علم کلام کو ایک نئی سمت بخشی گئی وہیں فلسفہ کو اسلامی رنگ میں پیش کیا گیا۔ اس میں اگر سائنس کے مختلف شاخوں پر وافر مقدار میں مواد موجود ہے وہیں سماجیات پر بھی اچھا خاصا ذخیرہ قارئین کے لیے دستیاب ہے۔ اس میں اگر قدیم افکار پر نہایت اہم گفتگو کی گئی وہیں عصر حاضر کے افکار ونظریات کے رد اور تحلیلی جائزے پر بھی انتہائی قیمتی بحثیں ملتی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ مولانا نے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام، مادہ پرستی، اشتراکیت اور مغربی فکر وفلسفے کے تار بکھیر دیے بلکہ مارکس، ہیگل، ڈارون اور فرائیڈ کو آڑے ہاتھوں لیا جنہوں نے انسانی زندگی پر تباہ کن اثرات ڈال دیے تھے۔ تفہیم القرآن میں جہاں تہذیب وسیاست کے متعلق ایک ہمہ گیر بحث کو آگے بڑھایا گیا وہیں اقتصادیات جیسے اہم موضوع پر رہنمائی کا وافر سامان بھی موجود ہے۔

مولانا نعیم صدیقی نے بالکل درست فرمایا کہ: ’’تفہیم القرآن میں اسلامی نظام حیات کے ہر شعبے پر ٹھوس مواد یکجا کر دیا گیا ہے۔ سیاست، معیشت، تاریخ اخلاقیات، نفسیات، علوم الاقوام، قصص الانبیاء اور خود سیرۃ النبیؐ پر اس میں اتنا کچھ مواد سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے کہ اب اسے نظر انداز کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ ‘‘

تفہیم القرآن میں امام مودودیؒ نے عیسائیت، یہودیت اور دیگر اقوام و ملت کی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی اور قرآن کی تعلیمات کے ساتھ تقابلی مطالبہ پیش کیا ہے۔ امام نے تورات، زبور اور انجیل کی تحریفات کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا نیز عیسائی پادریوں کے ذاتی مفادات اور ان کی کارستانیوں کو بھی عیاں کیا ہے۔

تفہیم القرآن میں مستشرقین کی طرف سے اٹھائے گئے بے جا اعتراضات کے بھی مدلل جوابات ملتے ہیں۔ امام نے دوسرے مذاہب کا بے لاگ اور بے باق تنقیدی جائزہ پیش کر کے ان کی جملہ کمزوریوں کو عیاں کیا ہے۔ بنا بریں یہ بھی ثابت کیا کہ کس طرح سے عیسا/ئیت اور یہودیت نے اپنی اہمیت اور معنویت کھو دی ہے۔ یہودیت و عیسائیت کے بنیادی عقائد میں بگاڑ، تورات انجیل اور زبور کی مجرمانہ غلطیاں، عقیدۂ تثلیث پر محاکمہ، بنی اسرائیل کا انبیاء کے ساتھ روگردانی اور سابق اقوام کی نافرمانیاں، جیسے موضوعات پر تفہیم القرآن کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن فروری ۱۹۴۲ء میں لکھنا شروع کیا۔ پانچ سال کے عرصے کے بعد یعنی سورہ یوسف کے اختتام تک بے حد تحریکی مصروفیت کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا۔ پھر ۱۹۴۸ء میں جب جیل جانا پڑا تو بحالت قید ہی اس سلسلے کو پھر سے شروع کیا۔ مولانا مودودی نے ۳۰ سال کی مدت میں ۷؍جون ۱۹۷۲ء میں پایہ تکمیل پہنچائی۔ یہ چھ ضخیم جلدوں اور ۴۱۴۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ مولانا نے ۱۹۵۸ء میں تفہیم ہی کے سلسلے میں اپنے ایک رفیق محمد عاصم الحداد کے ساتھ مشرق وسطیٰ کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے بنفس نفیس ان تمام تاریخی مقامات اور آثار کو دیکھا جن کا تذکرہ قرآن مجید میں جگہ جگہ وارد ہے۔

"خُدا کی رحمتیں ہوں آپ پر سو بار مودودی

دعائیں دے رہی ہے اُمت بیدار مودودی"

 

تحریر:  طالب رسول بھائی۔

مولانا امام سید ابو الاعلی مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کو آپ مندرجہ ذیل لنک سے باآسانی ڈاؤنلوڈ بھی کرسکتے ہیں اور اسکو آنلائن بھی پڑھ سکتے ہیں، مزید کسی بھی سوال  اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلیے آپ کمنٹ سیکشن کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ انشاءاللہ عزوجل ہم جلد ہی مولانا امام سید مودودیؒ کی دیگر تصانیف بھی یہاں اپلوڈ کریں گے۔