-->

امام احمد بن حنبلؒ کا یزید پلید پہ لعنت سے متعلق موقف

 

﴿امام احمد بن حنبلؒ کا یزید  پلید پہ لعنت سے متعلق موقف﴾

امام احمد بن حنبلؒ کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ یزید پہ لعنت کو درست نہیں سمجھتے تھے، مگر ایسا نہیں ہے، ایسا صرف مطالعے کی قلت، نواصب و روافض وغیرہ کے تاثر کی وجہ سے ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا موقف بھی باقی فقہاء ثلاثہ کی طرح یزید پہ لعنت کے جواز کا ہی ہے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل روایات انکی طرف سے منقول ہیں:

֍ امام ابو بکر الخلال الحنبلیؒ (المتوفی 311ھ) لکھتے ہیں:

أخبرني أحمد بن محمد بن مطر، وزكريا بن يحيى، أن أبا طالب حدثهم قال: سألت أبا عبد الله: من قال: ‌لعن ‌الله ‌يزيد ‌بن ‌معاوية؟ قال: لا أتكلم في هذا "، قلت: ما تقول؟ فإن الذي تكلم به رجل لا بأس به، وأنا صائر إلى قولك. قال أبو عبد الله: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لعن المؤمن كقتله» وقال: «خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم» ، وقد صار يزيد فيهم، وقال: «من لعنته أو سببته فاجعلها له رحمة» ، فأرى الإمساك أحب لي

ابو طالب کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے پوچھا کہ وہ یزید بن معاویہ پہ لعنت کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: اسکے متعلق بات نہ کرو۔ میں نے کہا: آپ کیا کہتے ہیں؟ کیونکہ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس شخص میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اور میں آپکی بات ماننے جارہا ہوں۔ امام احمد بن حنبل نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: "مومن پہ لعنت کرنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے" اور فرمایا ہے کہ: "سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں (یعنی صحابہ کرامؓ) اور پھر جو انکی پیروی کریں گے (یعنی تابعین کرام)" اور یزید ان میں شامل ہے، اور فرمایا کہ: "میں جس پہ بھی لعنت کروں یا برا بھلا کروں تو اسے رحمت بنا دے"۔ بس ميں ديكهتا ہوں کہ میرے لیے رکے رہنا پسندیدہ ہے۔

)السنة لأبي بكر بن الخلال: جلد 3 صفحہ 521 رقم 846 وسندہ صحیح، وقال محقق عطية الزهراني: اسنادہ صحیح(

֍ اس قول کو امام ابن قدامہ المقدسیؒ (المتوفی 620ھ) بھی نقل کرتے ہیں:

)المنتخب من علل الخلال: جلد 1 صفحہ 238 رقم 151(

بعض لوگوں نے پہلی روایت سے یہ خیال کرلیا کہ امام احمد بن حنبلؒ مومنین جن پہ لعنت کرنا جائز نہیں ہے ان میں یزید ملعون کو شمار کرلیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا جواب متعدد آئمہ کرام نقل کرچکے ہیں کہ یہاں امام احمد بن حنبلؒ کی مراد کیا ہے۔ جیسے کہ۔

֍ اس روایت کا ذکر امام ابن فلح المقدسیؒ (المتوفی 763ھ) کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وذكر ابن الجوزي: ما ذكره القاضي في المعتمد من رواية صالح وما لي لا ألعن من لعنه الله عز وجل في كتابه. إن صحت الرواية قال: وقد صنف القاضي أبو الحسين كتابا في بيان من يستحق اللعن، وذكر فيهم يزيد قال: وقد جاء في الحديث لعن من فعل ما لا يقارب معشار عشر ما فعل يزيد، وذكر الفعل العام كلعن الوامصة وأمثاله، وذكر رواية أبي طالب سألت أحمد بن حنبل عمن قال: لعن الله يزيد بن معاوية. فقال: لا تكلم في هذا، الإمساك أحب إلي۔

قال ابن الجوزي: هذه الرواية تدل على اشتغال الإنسان بنفسه عن لعن غيره. والأولى على جواز اللعنة كما قلنا في تقديم التسبيح على لعنة إبليس، وسلم ابن الجوزي أن ترك اللعن أولى، وقد روى مسلم عن أبي هريرة قال: قيل: يا رسول الله ادع الله على المشركين قال: «إني لم أبعث لعانا، وإنما بعثت رحمة» قال ابن الجوزي: وقد لعن أحمد بن حنبل من يستحق اللعن. فقال في رواية مسدد: قالت الواقفية الملعونة، والمعتزلة الملعونة۔

وقال عبيد الله بن أحمد الحنبلي: سمعت أحمد بن حنبل يقول على الجهمية: لعنة الله، وكان الحسن يلعن الحجاج، وأحمد يقول: الحجاج رجل سوء

امام ابن جوزيؒ زكر كرتے ہیں: جو القاضی نے المعتمد میں صالح کی روایت ذکر کی ہے کہ اور میں کیوں نہ اس پہ لعنت کروں جس پہ اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے؟ اگر روایت صحیح ہے تو انہوں نے کہا: اسکے ساتھ قاضی ابو الحسین نے لعنت کے مستحق کے بیان میں ایک کتاب تصنیف کی اور انہوں نے اس میں یزید کا ذکر کیا اور کہا: اور یہ حدیث میں آیا ہے کہ اس پہ لعنت ہے جو اس فعل کے دسویں حصے کے قریب بھی نہیں گیا جو یزید نے کیا، اور ایک عام عمل ذکر کیا ہے جیسے کہ واصمہ اور اسکی مثل لوگوں پہ لعنت کرنا۔اور روایت کی ذکر کی کہ ابی طالب نے احمد بن حنبل سے سوال کیا کہ کسی نے کہا: اللہ کی یزید بن معاویہ پہ لعنت ہو، تو انہوں نے کہا: اسکے متعلق بات نہ کرو، رکے رہنا مجھے زیادہ پسندیدہ ہے۔

امام ابن جوزیؒ کہتے ہیں کہ یہ روایت اس په اشاره كرتی ہے کہ انسان اپنے نفس سے دوسروں پہ لعنت میں مشغول رہتا ہے، اور اس سے پہلے لعنت کے جواز پہ جیسا کہ انہوں نے تقدیم التسبیح میں ابلیس پہ لعنت کے متعلق کہا ہے۔ اور امام ابن جوزی نے تسلیم کیا ہے کہ لعنت کو ترک کرنا اولی ہے۔ اور امام مسلم نے سیدنا ابو ھریرہؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: کہا گیا: یا رسول اللہ ﷺ مشرکین کے خلاف اللہ سے دعا کریں، آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے کیلیے نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ امام ابن جوزیؒ کہتے ہیں کہ: امام احمد بن حنبلؒ نے ان لوگوں پہ لعنت کی جو لعنت کے مستحق ہیں، انہوں نے مسدد کی روایت میں کہا: واقفیہ ملعون ہیں اور معتزلہ ملعون ہیں۔ اور عبید اللہ بن احمد الحنبلی کہتے ہیں کہ انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ کو جہمیہ کے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا " ان پہ اللہ کی لعنت ہو"، اور حسن حجاج پہ لعنت کرتے تھے، اور امام احمدؒ کہتے تھے: " حجاج برا شخص ہے"۔

)الآداب الشرعية والمنح المرعية: جلد 1 صفحہ 270(

֍ اس جواب کو علامہ ابو العون السفارینی الحنبلی (المتوفی 1188ھ) بھی نقل کرتے ہیں:

)غذاء الألباب في شرح منظومة الآداب: جلد 1 صفحہ 122(

֍ اسی طرح امام ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ) لکھتے ہیں:

فقال لي صاحبي افدني في بيان الصواب والتفت إلي لا إليه في الخطاب، فقلت: لو قال هذا الشيخ الأولى أن لا يضيع الزمان في ذم أحد ما خولف. فإنه قد قال: بعض الصالحين (لأن يخرج من صحيفتي لا إله إلا الله أحب إلي من أن يخرج لعن الله إبليس)۔

وأما إنكاره على من استجاز ذم المذموم ولعن الملعون فجهل صراح فقد استجازه كبار العلماء منهم الإمام أحمد بن حنبل، وقد ذكر أحمد في حق يزيد ما يزيد على اللعنة۔

میرے ایک دوست نے مجھے کہا کہ حق و صواب کے بیان میں میرا فدیہ قبول کیجیے اور مجھے مخاطب کیجیے اور اسے نہ کیجیے۔ تو میں نے کہا: اگر یہ شخص یہ کہتا کہ بہتر اور اولی یہ ہے کہ کسی کی مذمت میں وقت ضائع نہ کیا جائے تو اسکی مخالفت نہ کی جاتی۔ کیونکہ اس بارے میں بعض صالحین نے کہا ہے کہ: میرے نامہ اعمال میں سے کلمہ طیبہ کا نکلنا زیادہ محبوب ہے اس سے کہ اس میں سے ابلیس پہ اللہ کی لعنت ڈالنا نکلے۔

اور جہاں تک مذموم کی مذمت اور ملعون پہ کرنے کے جواز کا انکار ہے تو یہ صریح جہالت ہے کیونکہ اسکی اجازت تو کبائر علماء نے دی ہے، جن میں امام احمد بن حنبلؒ بھی شامل ہیں۔ اور جو کچھ امام احمد بن حنبلؒ نے یزید کے متعلق ذکر کردیا ہے وہ یزید پہ لعنت سے بڑھ کر ہے۔

)الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد: صفحہ 39 و 40(

֍ اسی طرح امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ) لکھتے ہیں:

قال وتوقف جماعة في لعنته يعني ‌يزيد مع أنه عندهم ظالم وقد قال تعالى (ألا ‌لعنة الله على الظالمين) وقد سأل مهنا ‌أحمد ‌بن ‌حنبل عن ‌يزيد فقال هو الذي فعل ما فعل۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ایک جماعت نے لعنت بھیجنا چھوڑ دیا یعنی یزید پہ حالانکہ وہ انکے نزدیک ظالم ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے: (أَلَا لَعۡنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلظَّٰلِمِينَ ١٨)سورۃ ھود آیت نمبر 18، (ترجمہ: ایسے ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے)۔ اور مھنا نے امام احمد بن حنبلؒ سے یزید کے متعلق سوال پوچھا تو آپ نے فرمایا: وہ وہی ہے جس نے جو کیا سو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(پھر امام ذھبی امام صالح بن احمد بن حنبلؒ کی روایت کو نقل کرتے ہیں، جسکا ذکر آگے آرہا ہے)۔

)المنتقى من منهاج الاعتدال: صفحہ 289(

یعنی ملعوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ اس روایت میں یزید پہ صریحا لعنت بھیجنے پہ توقف کررہے ہیں اور ان احادیث سے وہ یہ معنی نہیں لے رہے کہ یزید مومن ہے بلکہ وہ یہ معنی لے رہے ہیں کہ ان احادیث کے مطابق صریحا نام لیکر لعنت کرنا مستحب نہیں ہے۔ بعد میں اپ نے اس سے رجوع کرلیا اور دوسرا موقف آپکا صریحا نام لیکر یزید پہ لعنت کرنے کا ہی ہے۔ جیسے کہ:

֍ امام ابو بكر الخلال الحنبلیؒ (المتوفی 311ھ) لکھتے ہیں:

أخبرني محمد بن علي، قال: ثنا مهنى، قال: سألت أحمد عن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، قال: هو فعل بالمدينة ما فعل؟ قلت: وما فعل؟ قال: قتل بالمدينة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وفعل، قلت: وما فعل؟ قال: نهبها، قلت: فيذكر عنه الحديث؟ قال: لا يذكر عنه الحديث، ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثا، قلت لأحمد: ومن كان معه بالمدينة حين فعل ما فعل؟ قال: أهل الشام؟ قلت له: وأهل مصر، قال: لا، إنما كان أهل مصر معهم في أمر عثمان رحمه الله

مھنا بن عبد الحمید کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے کہا: وہ وہ ہے جس نے مدینے میں جو کیا سو کیا۔ میں نے کہا: اس نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا: اس نے مدینے میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو شہید کیا اور جو کچھ کیا۔ میں نے کہا: اور کیا کیا؟ انہوں نے کہا: انہیں لوٹا۔ میں نے کہا: کیا اس سے حدیث ذکر کرنی چاہیے؟ انہوں نے کہا: اس سے حدیث ذکر نہیں کرنی چاہیے، اور کسی کیلیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اس سے حدیث لکھے۔ میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے کہا: اس کے ساتھ مدینے میں کون تھا جب اس جو کیا سو کیا؟ انہوں نے کہا: اہل شام تھے۔ میں نے ان سے کہا: اور اہل مصر؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ اہل مصر انکے ساتھ سیدنا عثمانؓ کے معاملے میں تھے۔

)السنة لأبي بكر بن الخلال: جلد 3 صفحہ 520 رقم 845 وسندہ صحیح، وقال محقق عطية الزهراني: اسنادہ صحیح(

֍ امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ) لكهتے ہیں:

وذكر القاضي (أبو يعلى محمد بن الحسين بن الفراء) في كتابه (المعتمد في الأصول) عن أبي جعفر العكبري ثنا أبو علي الحسين بن الجنيد قال ثنا أبو طالب بن شهاب العكبري قال سمعت أبا بكر محمد بن العباس قال سمعت صالح بن أحمد بن حنبل :يقول :قلت لأبي أن قوما ينسبونا إلى توالي يزيد، فقال يا بني وهل يتولى يزيد احد يؤمن بالله، فقلت فلم لا تلعنه؟ فقال ومتى رأيتني ألعن شيئا ولم لا يلعن من لعنه الله في كتابه، فقلت وأين لعن الله يزيد في كتابه فقرأ(فَهَلۡ عَسَيۡتُمۡ إِن تَوَلَّيۡتُمۡ أَن تُفۡسِدُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَتُقَطِّعُوٓاْ أَرۡحَامَكُمۡ ٢٢ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ فَأَصَمَّهُمۡ وَأَعۡمَىٰٓ أَبۡصَٰرَهُمۡ ٢٣) (سورۃ محمد آیت نمبر 22 و 23) فهل يكون الفساد أعظم من القتل۔

اور امام ابو يعلي القاضي نے اپنی کتاب المعتمد فی الاصول میں باسند صالح بن احمد بن حنبل سے نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد (امام احمد بن حنبلؒ) سے کہا: بعض لوگ ہماری طرف یزید کے حمایتی ہونے کی نسبت کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے کیا اللہ پہ ایمان رکھنے والا کوئی شخص یزید کا حمایتی ہوسکتا ہے؟ تو میں نے کہا: تو آپ اس پہ لعنت کیوں نہیں کرتے؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم نے کبھی مجھے کسی چیز پہ لعنت بھیجتے دیکھا ہے؟ اور لعنت کیوں نہ کریں جبکہ اللہ نے اپنی کتاب میں اس پہ لعنت کی ہے۔ میں نے کہا: اللہ نے اپنی کتاب میں یزید پہ کہاں لعنت کی ہے؟ تو آپ نے تلاوت کی:

(پس تم سے اس کے سوا کچھ متوقع نہیں ہے کہ اگر تم لوگوں کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچائو گے اور اپنے رحمی رشتے کاٹو گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے پس ان کے کانوں کو بہرا اور ان کی نگاہوں کو اندھا کردیا ہے۔) سورۃ محمد آیت نمبر 22 اور 23۔

تو کیا فساد قتل سے بھی بڑا جرم ہے؟

)الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد: صفحہ 40 و 41(

֍ اس روایت کو امام ابن تیمیہ (المتوفی 728ھ) نے بھی نقل کیا ہے۔

)منهاج السنة النبوية: جلد 4 صفحہ 565 و 566(

مندرجه بالا هم امام احمد بن حنبلؒ سے دونو اقوال نقل كرچكے ہیں، ایک میں انہوں نے صریحا نام لیکر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور دوسری میں انہوں نے اپنے لیے صریحا لعنت کرنے سے ركے رہنے پسند کیا ہے۔ دونو روایات اور آئمہ حنابلہ کو دیکھیں تو یہ بات واضع ہوتی ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ کا بعد کا موقف اور راجع موقف صریحا لعنت کے جواز کا ہی ہے، ایسا اس لیے کہ امام احمد بن حنبلؒ سے جب انکے بیٹے نے یہ کہا کہ ہمارے صریحا لعنت نہ کرنے کی وجہ سے لوگ ہمیں یزید کا حمایتی خیال کرتے ہیں تو امام احمد بن حنبلؒ نے اپنا عمومی عمل بھی بتایا کہ وہ کبھی صریحا کسی پہ لعنت نہیں کرتے اور پھر آپ نے قرآن پاک کی آیت کو دلیل بنا کر یزید ملعون پہ لعنت بھی کردی کہ اللہ نے اس پہ خود لعنت کی ہے تو ہم کیوں نہ کریں۔

مزید یہکہ يزيد پہ لعنت کے جواز میں آئمہ اربعہ کا اجماع بھی موجود ہے۔

֍ امام ابو العباس شمس الدین ابن خلکانؒ (المتوفی 681ھ) حافظ ابو طاہر السلفی کا امام ابا الحسن عماد الدین علی بن محمد بن علی الطبری المعروف بالكيا الهراسي رحمه الله (المتوفی 504ھ) سے سوال کو لکھتے ہیں:

وسئل الكيا أيضاً عن يزيد بن معاوية فقال: إنه لم يكن من الصحابة لأنه ولد في أيام عمر بن الخطاب، رضي الله عنه، وأما قول السلف ففيه لأحمد قولان تلويح وتصريح، ولمالك قولان تلويح وتصريح، ولأبي حنيفة قولان تلويح وتصريح، ولنا قول واحد التصريح دون التلويح وكيف لا يكون كذلك وهو اللاعب بالنرد والمتصيد بالفهود ومدمن الخمر، وشعره في الخمر معلوم۔

امام الکیہ الھراسی الطبریؒ سے یزید بن معاویہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: یہ صحابہ میں سے نہیں ہے کیونکہ یہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں پیدا ہوا ہے۔ اور رہی بات (اس پہ لعنت سے متعلق) سلف کے اقوال کی اس پہ تو امام احمد بن حنبلؒ سے دو قول ہیں، ایک اشارتا اور دوسرا صریحا۔ اور امام مالکؒ کے بھی دو قول ہیں، ایک اشارتا اور دوسرا صریحا۔ اور امام ابو حنیفہؒ کے بھی دو قول ہیں، ایک اشارتا اور دوسرا صریحا۔ اور ہمارا (شافع کا) ایک ہی صریحا قول ہے بغیر کسی اشارے کے۔ اور ایسا کیسے نہ ہو کہ وہ جوا کھیلنے والا، چیتوں کا شکار کرنے والا اور عادی شرابی تھا۔ اور شراب کے بارے میں اسکے اشعار معلوم ہیں۔

(وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان: جلد 3 صفحہ 287)

֍ امام طبری المعروف بالکیا الھراسیؒ کے اس موقف کی توثیق امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ) نے بهی کی ہے۔

(الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع / ويليه أسئلة من خط الشيخ العسقلاني: صفحہ 96)

֍ اور اسی اجماع کو مصر کے فقیہ اور محدث علامہ سلیمان بن محمد البجیرمیؒ (المتوفی 1221ھ) بھی نقل کرتے ہیں۔

(حاشية البجيرمي على الخطيب = تحفة الحبيب على شرح الخطيب: جلد 4 صفحہ 228)

اس سے بھی واضع ہوگیا کہ امام احمد بن حنبلؒ کا پہلا موقف توقف وغیرہ کا نہیں بلکہ صریحا لعنت نہ کرنے کا ہے اور دوسرا موقف صریحا لعنت کرنے کا ہے۔

اور يزيد ملعون پہ لعنت كرنے سے كون سے افراد منع کرتے ہیں؟

֍ انکے متعلق امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ) لکھتے ہیں:

وصنف القاضي (أبو الحسين محمد ابن القاضي أبي يعلى بن الفراء) كتاباً فيه بيان من يستحق اللعن وذكر فيهم يزيد وقال (الممتنع من ذلك إما أن يكون غير عالم بجواز ذلك أو منافقاً يريد أن يوهم بذلك) وربما استفز الجهال بقوله (المؤمن لا يكون لعانا) قال وهذا محمول على من لا يستحق اللعن. فقلت هذا من خط القاضي أبي الحسين وتصنيفه.

اور قاضی ابو الحسینؒ نے ایک کتاب تصنیف کی جس میں لعنت کے مستحقین کو بیان کیا گیا۔ اور اس میں انہوں نے یزید کا ذکر کیا۔ اور کہا جو کوئی اس پہ لعنت سے منع کرتا ہے وہ یاں تو اسکے جواز سے جاہل ہے یا پھر منافق ہے جو چاہتا ہے کہ اسکے ذریعے شکوک و شبہات پیدا کردے۔ اور کبھی جاہل اس قول کے ذریعے مغالتہ ڈالتے ہیں کہ "مومن لعنت کرنے والا نہیں ہوتا"۔ کہا: یہ اس پہ محمول ہے کہ جو لعنت کا مستحق نہ ہو۔ میں نے اس عبارت کو قاضی ابی الحسین کے قلم اور انکی کتاب سے نقل کیا ہے۔

(الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد: صفحہ 41)

معلوم ہوا کہ صرف جاہل جنہیں لعنت کے جواز کا علم نہیں ہے اور منافق ہی یزید پہ لعنت سے منع کرتے ہیں۔

لہزا مندرجہ بالا تحریر و تحقیق سے یہ واضع ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ کا راجع موقف بھی یزید پہ صریحا لعنت بھیجنا ہی ہے۔

تحریر و تحقیق: شہزاد احمد آرائیں۔