مولا علی المرتضیؑ کی سبقت والی روایت پہ اعتراض کا تحقیقی جائزہ
﴿سیدنا مولا علی المرتضیؑ کی سبقت والی روایت
پہ اعتراض کا تحقیقی جائزہ﴾
ہم نے ایک موقوف حدیث مبارکہ سیدنا
مولا علی المرضیؑ کی شان میں پوسٹ کی گئی، جس پہ نواصب نے دجل و فریب کے ساتھ بیہودہ
اعتراض کیے ہیں، پہلے ہم اس روایت کو نقل کرتے ہیں اور پھر انکا رد کرتے ہیں:
امام محمد بن عمرو البختری الرزازؒ
(المتوفی 339ھ) فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عمرو، قال: حدثنا محمد
بن عبد الملك الدقيقي، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: أخبرنا فطر، قال: سمعت أبا
الطفيل يقول: قال بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: لقد كان لعلي بن أبي طالب
من السوابق ما لو أن سابقة منها بين الخلائق لوسعتهم خيرا
سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کرام کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی
طالبؑ کے پاس ایسی سبقتیں ہیں جن میں سے ایک سبقت بھی مخلوق کے درمیان تقسیم کی
جائے تو وہ ان سب کی خیر کیلیے وسیع ہوجائے۔
(مجموع فيه مصنفات أبي جعفر
ابن البختري: صفحہ 197 رقم 166، وسندہ صحیح)
اسی روایت کو اپنی صحیح سند سے امام
ابن عساکرؒ الشافعی (المتوفی 571ھ) بھی امام محمد بن عمرو البختریؒ کی سند سے نقل
کرتے ہیں:
أخبرنا أبو الحسن (علي بن المسلم)
الفقيه الشافعي نا عبد العزيز إملاء أنا محمد بن محمد بن إبراهيم بن مخلد نا محمد
بن عمرو بن البختري نا محمد بن عبد الملك الدقيقي نا يزيد بن هارون نا فطر قال
سمعت أبا الطفيل يقول قال بعض أصحاب النبي (صلى الله عليه وسلم) لقد كان علي بن
أبي طالب من السوابق ما لو أن سابقة منها بين الخلائق لوسعتهم خيرا
سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کرام کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی
طالبؑ کے پاس ایسی سبقتیں ہیں جن میں سے ایک سبقت بھی مخلوق کے درمیان تقسیم کی
جائے تو وہ ان سب کی خیر کیلیے وسیع ہوجائے۔
(تاريخ دمشق لابن عساكر:
جلد 42 صفحہ 418، وسندہ صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواصب کی جانب سے اعتراض سامنے آیا ہے
کہ یہ روایت منکر ہے، اسے منکر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں رافضی راوی ہیں، آئیں
ہم ان رواۃ کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کے اعتراض کی حقیقت کیا ہے؟
پہلا اعتراض فطر بن خلیفہ پہ کیا گیا
ہے کہ یہ معاذ اللہ رافضی تھے اور انکی رفض کی وجہ سے انہیں ترک کیا گیا ہے اور
توثیق کرنے والے آئمہ اس کے متعلق جاہل رہے ہیں:
واضع رہے کہ فطر بن خلیفہ ثقہ صدوق
راوی ہیں، ہم متقدمین سے لیکر متاخرین سے ہوتے ہوئے معاصرین تک، تمام علماء کا
کلام نقل کرتے ہیں اور نواصب کی خباثت کا جائزہ لیتے ہیں:
⍟
امام ابن سعد الزھریؒ (المتوفی 230ھ) لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة الحناط. ويكنى أبا
بكر.
توفي بالكوفة بعد علي بن حي بقليل
كأنه مات سنة خمس وخمسين ومائة في خلافة أبي جعفر. وكان ثقة إن شاء الله. ومن
الناس من يستضعفه. وقد حدث عنه وكيع وأبو نعيم وغيرهما. وكان لا يدع أحدا يكتب عنده.
وكانت له سن عالية ولقاء. وروى عن أبي وائل وغيره
فطر بن خلیفہ الحناط، انکی کنیت ابو
بکر ہے، اور یہ کوفے میں علی بن حی کے کچھ عرصے بعد فوت ہوئے گویا وہ ابو جعفر کی
خلافت میں ایک سو پچپن ہجری میں فوت ہوئے،اور یہ ان شاء اللہ ثقہ ہیں، اور لوگوں میں
کچھ اسے کمزور سمجھتے ہیں، اور ان سے وکیع اور ابو نعیم وغیرہ نے حدیث بیان کی ہے،
وہ کسی کو خود سے لکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، انكے پاس بڑی عمر اور ملاقات تھی،
اور انہوں نے ابی وائل وغیرہ سے روایت کی ہے۔
(الطبقات الكبرى - ط
العلمية: جلد 6 صفحہ 344 رقم 2614)
⍟
امام یحیی بن معینؒ (المتوفی 233ھ):
امام عباس الدوریؒ (المتوفی 271ھ) لکھتے ہیں:
سألت يحيى عن فطر بن خليفة فقال
ثقة
میں نے امام یحیی بن معینؒ سے فطر بن
خلیفہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں۔
(تاريخ ابن معين - رواية
الدوري: جلد 3 صفحہ 267 رقم 1254)
⍟
دوسری مرتبہ امام عباس الدوریؒ لکھتے ہیں:
سمعت يحيى يقول فطر بن خليفة ثقة وهو
شيعى
میں نے امام یحیی بن معینؒ کو یہ کہتے
ہوئے سنا کہ فطر بن خلیفہ ثقہ ہیں اور شیعہ ہیں۔
(تاريخ ابن معين - رواية الدوري: جلد
3 صفحہ 333 رقم 1609)
⍟
ایک اور مرتبہ امام عباس الدوریؒ لکھتے ہیں:
سمعت يحيى يقول فطر بن خليفة قد
رأى عمرو بن حريث
میں نے امام یحیی بن معینؒ کو یہ کہتے
ہوئے سنا کہ فطر بن خلیفہ نے عمرو بن حریث کو دیکھا ہے۔
(تاريخ ابن معين - رواية
الدوري: جلد 3 صفحہ 374 رقم 1819)
⍟
امام ابو عمرو خلیفہ بن خیاط البصریؒ (المتوفی 240ھ)
لکھتے ہیں:
وفطر بن خليفة.
يكنى أبا بكر، قرشي. مات سنة ثلاث
وخمسين ومائة
اور فطر بن خلیفہ، انکی کنیت ابو بکر
قرشی ہے، یہ سن ایک سو تریپن ہجری میں فوت ہوئے۔
(الطبقات - لخليفة بن خياط
- ت زكار: صفحہ 285 رقم 1275)
⍟
امام بخاریؒ (المتوفی 256ھ) لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة، مولى عمرو بن حريث،
الخياط، الكوفي.
سمع أبا الطفيل، وعمرو بن حريث
المخزومي، وعكرمة، وعطاء.
روى عنه وكيع، وأبو نعيم
فطر بن خلیفہ الخیاط الکوفی، عمرو بن
حریث کے آزاد کردہ غلام ہیں، انہوں نے سیدنا ابو طفیلؓ اور عمرو بن حریث المخزومی
اور عکرمہ اور عطاء سے سماع کیا ہے اور ان سے وکیع اور ابو نعیم روایت کرتے ہیں۔
(التاريخ الكبير للبخاري :
جلد 7 صفحہ 139 رقم 625)
⍟
ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی (ناصبی) (المتوفی 259ھ)
لکھتا ہے:
فطر بن خليفة زائغ غير ثقة
فطر بن خلیفہ گمراہ اور غیر ثقہ ہے۔
(أحوال الرجال: صفحہ 95 رقم
72)
⍟
امام ابو الحسین مسلم بن حجاجؒ (المتوفی 261ھ) لکھتے ہیں:
أبو بكر فطر بن خليفة مولى عمرو بن
حريث عن أبي الطفيل وعمرو بن حريث روى عنه يحيى ابن سعيد ووكيع بن الجراح
ابو بکر فطر بن خلیفہ، عمرو بن حریث
کے آزاد کردہ غلام ہیں، یہ سیدنا ابو طفیلؓ اور عمرو بن حریث سے روایت کرتے ہیں
اور ان سے یحیی بن سعید اور وکیع بن جراح روایت کرتے ہیں۔
(الكنى والأسماء - للإمام
مسلم: جلد 1 صفحہ 120 رقم 306)
⍟ امام ابو الحسن
احمد بن عبد اللہ بن صالح العجلیؒ (المتوفی 261ھ) لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة الحناط كوفى ثقة حسن
الحديث وكان فيه تشيع قليل
فطر بن خلیفہ الحناف کوفی ثقہ حسن
الحدیث ہیں، اور ان میں تھوڑا سا تشیع ہے۔
(الثقات للعجلي ت البستوي:
جلد 2 صفحہ 208 رقم 1489)
⍟
اسی طرح امام عقیلیؒ (المتوفی 322ھ) انکا ترجمہ قائم
کرتے ہیں:
(الضعفاء الكبير للعقيلي:
جلد 3 صفحہ 464 رقم 1521)
⍟
امام ابن ابی حاتم الرازیؒ (المتوفی 327ھ) لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة الخياط أبو بكر مولى
عمرو بن حريث الكوفى روى عن عمرو بن حريث وابى الطفيل وابى خالد الوالبى روى عنه
يحيى بن سعيد القطان ووكيع بن الجراح وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم سمعت أبي يقول
ذلك، نا عبد الرحمن أنا عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل فيما كتب إلي قال (سألت
ابى عن فطر بن خليفة فقال ثقة صالح الحديث، وقال ابى كان فطر عند يحيى يعنى ابن
سعيد ثقة، أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال)
سمعت يحيى بن معين يقول فطر بن خليفة
ثقة، حدثني عبد الرحمن قال سألت ابى عن فطر بن خليفة فقال صالح كان يحيى القطان
يرضاه ويحسن القول فيه ويحدث عنه
فطر بن خلیفہ الخیاط ابو بکر، حضرت
عمرو بن حریثؓ کوفی کے آزاد کردہ غلام ہیں، یہ حضرت عمرو بن حریثؓ اور سیدنا ابو
طفیلؓ اور ابی خالد الوالبی سے روایت کرتے ہیں اور ان سے یحیی بن سعید القطان اور
وکیع بن الجراح اور عبد اللہ بن موسی اور ابو نعیم روایت کرتے ہیں، میں نے اپنے
والد کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، عبد الرحمن کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن احمد بن محمد بن
حنبلؒ نے انہیں لکھا اور کہا کہ میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبلؒ) سے فطر بن
خلیفہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ثقہ، صالح الحدیث ہیں، اور میرے
والد نے کہا کہ امام یحیی بن سعید القطان کے نزدیک فطر ثقہ ہیں، ابو بکر بن خیثمہ
نے مجھے لکھا اور کہا کہ میں نے امام یحیی بن معینؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ فطر بن خلیفہ
ثقہ ہیں، عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے میرے والد (امام ابو حاتم الرازیؒ
المتوفی 277ھ) سے فطر بن خلیفہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ صالح ہیں،امام
یحیی القطان ان سے راضی تھے، اور انکے متعلق خوب باتیں کہتے تھے اور ان سے احادیث
بیان کرتے تھے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي
حاتم: جلد 7 صفحہ 90 رقم 512)
⍟
امام ابو حاتم ابن حبانؒ (المتوفی 354ھ) انکا ثقات میں
زکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة الخياط القرشي أبو
بكر من أهل الكوفة سمع أبا الطفيل روى عن عامة التابعين روى عنه أهل الكوفة مات
سنة ثلاث وخمسين ومائة
فطر بن خلیفہ الخیاط القرشی ابو بکر
اہل کوفہ سے ہیں، انہوں نے سیدنا ابو طفیلؓ سے سماع کیا ہے اور یہ عام طور پہ تابعین
سے روایت کرتے ہیں، یہ سن ایک سو تریپن ہجری میں فوت ہوئے۔
(الثقات لابن حبان: جلد 5
صفحہ 300)
⍟
الثقات میں ہی امام ابن حبانؒ انکا ایک اور جگہ ترجمہ
قائم کرتے ہیں، لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة الخياط من أهل الكوفة
كنيته أبو بكر يروي عن أبي الزبير روى عنه يحيى القطان والكوفيون مات سنة ثلاث
وخمسين ومائة وقد قيل إنه سمع أبا الطفيل فإن صح ذلك فهو من التابعين
فطر بن خلیفہ الخیاط اہل کوفہ میں سے
ہیں، انکی کنیت ابو بکر ہے، یہ ابو زبیر سے روایت کرتے ہیں اور ان سے یحیی القطان
اور اہل کوفہ روایت کرتے ہیں، انہوں نے سن ایک سو تریپن ہجری میں وفات پائی، اور یہ
بھی کہا گیا کہ انہوں نے سیدنا ابو الطفیل رضی اللہ عنہ سے سماع کیا ہے تو اگر یہ
صحیح ہے تو یہ تابعین میں سے ہیں۔
(الثقات لابن حبان: جلد 7 صفحہ
323)
⍟
امام ابن عدی الجرجانیؒ (المتوفی 365ھ) انکا ترجمہ قائم
کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة الكوفي الشيعي.
حدثنا علي بن أحمد بن سليمان، حدثنا
ابن أبي مريم سمعت يحيى بن معين يقول فطر بن خليفة ثقة كان يتشيع، وهو يكتب حديثه.
حدثنا ابن أبي عصمة، حدثنا أحمد بن
حميد قال سئل يعني أحمد بن حنبل عن فطر ومحل فقال فطر كان يغالي في التشيع ومحل
قليل الحديث فطر كتب حديثا ومحل كان مكفوفا ثقة.
حدثنا ابن حماد، حدثني صالح بن أحمد،
حدثنا علي، قال: سمعت سفيان وذكر فطر فقال: كان بعض كوفيينا يغمزه.
سمعت ابن حماد يقول: قال السعدي فطر
بن خليفة زائغ غير ثقة
فطر بن خلیفہ کوفی شیعہ
علی بن احمد بیان کرتے ہیں کہ انہیں
ابن ابی مریم نے بیان کیا کہ انہوں نے امام یحیی بن معین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ
فطر بن خلیفہ ثقہ اور شیعہ ہیں اور انکی احادث لکھی جائیں گی۔
ابن ابی عصمۃ بیان کرتے ہیں کہ انہیں
احمد بن حمید نے بیان کیا کہ انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ سے فطر اور محل کے متعلق
سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ فطر شیعت میں غالی تھا اور محل قلیل الحدیث ہے، فطر
نے احادیث لکھی ہیں اور محل نابینا تھے ثقہ ہیں۔
ابن حماد بیان کرتے ہیں کہ صالح بن
احمد نے بیان کرتے ہیں کہ انہیں علی نے بیان کیا کہ انہوں نے سفیان کو سنا اور فطر
کا زکر کیا تو انہوں نے کہا کہ: بعض کوفی ان کی طرف اشارہ کرتے تھے۔
میں نے ابن حماد کو کہتے ہوئے سنا کہ
السعدی (یعنی جوزجانی) کہتے ہیں کہ فطر بن خلیفہ گمراہ اور غیر ثقہ ہے۔
⍟
اسکے بعد امام ابن عدی انکی چند احادیث نقل کرتے ہیں
اور آخر میں اپنا نتیجہ لکھتے ہیں کہ:
وفطر بن خليفة له أحاديث صالحة عند
الكوفيين يروونها عنه في فضائل علي وغيره، وهو متماسك وأرجو أنه لا بأس به، وهو
ممن يكتب حديثه
اور فطر بن خلیفہ، ان کے پاس صالح
احادیث ہیں اہل کوفہ کیلیے جو انہوں نے فضائل سیدنا مولا علیؑ وغیرہ میں روایت کی
ہیں، اور یہ مضبوط تھے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے، اور وہ
ان لوگوں میں سے ہیں جنکی احادیث لکھی جاتی ہیں۔
(الكامل في ضعفاء الرجال:
جلد 7 صفحہ 145 رقم 1576)
⍟
امام ابو الفتح الازدیؒ (المتوفی 374ھ) لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة المخزومي مولى عمرو
بن حريث، تابع
فطر بن خلیفہ مخزومی، عمرو بن حریث کے
آزاد کردہ غلام ہیں، یہ تابعی ہیں۔
(ذكر اسم كل صحابي ممن لا
أخ له يوافق اسمه للأزدي: صفحہ 210 رقم 394)
⍟
امام ابو احمد الحاکم الکبیرؒ (المتوفی 378ھ) بھی انکا
ترجمہ قائم کرتے ہیں:
(الأسامي والكنى - أبو أحمد
الحاكم - ت الأزهري: جلد 1 صفحہ 346 رقم 644)
⍟
امام ابو الحسن الدارقطنی الشافعیؒ (المتوفی 385ھ) اپنی
کتاب "ذكر أسماء التابعين ومن بعدهم ممن صحت
روايته عن الثقات عند البخاري ومسلم" معنی: ان
تابعین اور انکے بعد والوں کے ناموں کا زکر جن کی ثقات سے روایات امام بخاری اور
امام مسلم کے نزدیک صحیح ہیں" میں آپکا ترجمہ قائم کرکے یہ بتا دیتے ہیں کہ
آپکی روایت امام بخاری و مسلم کی شرط پہ پوری اترتی ہے۔
(ذكر أسماء التابعين ومن
بعدهم ممن صحت روايته عن الثقات عند البخاري ومسلم: جلد 1 صفحہ 443 رقم 1370)
اسی طرح امام دارقطنیؒ ایک اور جگہ بھی
آپکا ترجمہ قائم کرتے ہیں:
(المؤتلف والمختلف
للدارقطني: جلد 4 صفحہ 1905)
⍟
امام محمد بن اسحاق ابن مندہؒ (المتوفی 395ھ) بھی آپکا
ترجمہ قائم کرتے ہیں:
(فتح الباب في الكنى
والألقاب: صفحہ 133 رقم 971)
⍟
امام ابو نصر الکلاباذی (المتوفی 398ھ) آپکا ترجمہ ثقات
میں قائم کرتے ہیں:
(رجال صحيح البخاري =
الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد: جلد 2 صفحہ 867 رقم 1470)
⍟
امام ابو عبد اللہ الحاکم النیشاپوریؒ (المتوفی 405ھ)
آپکا ترجمہ صحیح بخاری کے رجال میں قائم کرتے ہیں:
(تسمية من أخرجهم البخاري
ومسلم: جلد 207 رقم 1385)
⍟
امام ابو الولید الباجی القرطبی (المتوفی 474ھ) بھی
آپکا ترجمہ صحیح بخاری کے رجال میں کرتے ہیں اور امام ابو حاتم الرازیؒ، امام یحیی
بن سعید القطانؒ، امام یحیی بن معینؒ اور ابراہیم بن یعقوب جوزجانی (ناصبی) کے
اقوال نقل کرتے ہیں:
(التعديل والتجريح، لمن خرج
له البخاري في الجامع الصحيح: جلد 3 صفحہ 1053 رقم 1233)
⍟
امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ) لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة قال السعدي زائغ غير ثقة وقال يحيى يكتب حديثه
فطر بن خلیفہ، السعدی (الجوزجانی،
ناصبی) کہتا ہے کہ یہ گمراہ اور غیر ثقہ ہے، اور امام یحیی کہتے ہیں کہ انکی حدیث
لکھی جائے گی۔
(الضعفاء والمتروكون لابن
الجوزي: جلد 3 صفحہ 10 رقم 2729)
⍟
امام عبد الغنی المقدسیؒ (المتوفی 600ھ) آپکا ترجمہ
قائم کرکے آئمہ کے اقوال نقل کرتے ہیں:
قال أحمد بن حنبل: ثقة.
وقال أبو حاتم: صالح الحديث، وقال:
كان يحيى بن سعيد يرضاه، ويحسن القول فيه، ويحدث عنه.
وقال أحمد بن عبد الله: كوفي، ثقة،
حسن الحديث، وكان فيه تشيع قليل
روي له الجماعة إلا مسلما
امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ ثقہ
ہیں۔
اور امام ابو حاتم الرازیؒ کہتے ہیں
کہ یہ صالح الحدیث ہیں، اور کہتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید القطانؒ ان سے راضی تھے
اور انکے متعلق عمدہ بات کہتے تھے اور ان سے احادیث بیان کرتے تھے۔
اور امام احمد بن عبد اللہ العجلیؒ
کہتے ہیں: یہ کوفی ہیں، ثقہ ہیں، حسن الحدیث ہیں، اور ان میں تھوڑا سا تشیع ہے۔
ان سے امام مسلم کے علاوہ ایک جماعت
نے روایت کی ہے۔
(الكمال في أسماء الرجال:
جلد 8 صفحہ 168 رقم 5064)
⍟
اسی طرح امام یوسف المزیؒ (المتوفی 742ھ) انکا ترجمہ
قائم کرتے ہوئے آئمہ کے اقوال لکھتے ہیں:
قال البخاري عن علي بن المديني: له
نحو ستين حديثا.
وقال عبد الله بن حنبل، عن أبيه: ثقة،
صالح الحديث.
قال: وقال أبي: كان فطر عند يحيى بن
سعيد ثقة.
وقال أبو بكر بن أبي خيثمة، عن يحيى
بن معين: ثقة. وقال العجلي: كوفي، ثقة، حسن الحديث، وكان فيه تشيع قليل
وقال أبو حاتم: صالح الحديث، كان يحيى
بن سعيد يرضاه، ويحسن القول فيه، ويحدث عنه.
وقال أبو عبيد الآجري عن أبي داود:
سمعت أحمد بن عبد الله بن يونس، قال: كنا نمر على فطر وهو مطروح لا نكتب عنه.
وقال النسائي: ليس به بأس.
وقال في موضع آخر: ثقة، حافظ، كيس.
قال محمد بن عبد الله الحضرمي: مات
سنة خمس، ويقال: سنة ست وخمسين ومئة
روى له البخاري مقرونا بغيره، والباقون سوى مسلم
امام بخاری امام علی بن مدینی سے روایت
کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: انکے پاس تقریبا ساٹھ احادیث ہیں۔
اور امام عبد اللہ بن حنبل اپنے والد
سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں، صالح الحدیث ہیں۔
کہتے یں اور میرے والد نے کہا کہ فطر
امام یحیی بن سعید القطان کے نزدیک ثقہ ہیں۔
اور ابو بکر ابن خیثمہ امام یحیی بن
معین سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں۔
اور امام عجلی کہتے ہیں کہ یہ کوفی ہیں،
ثقہ ہیں، حسن الحدیث ہیں، اور ان میں تھوڑا سا تشیع ہے۔
اور ابو عبید الاجری امام ابو داؤد سے
روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے احمد بن عبد اللہ یونس کو سنا وہ کہتے ہیں
کہ ہم فطر بن خلیفہ کے پاس سے گزر رہے تھے، وہ مطروح ہے، ہم اس سے نہیں لکھتے۔
اور امام نسائیؒ کہتے ہیں کہ ان میں
کوئی حرج نہیں ہے۔
اور دوسری مرتبہ کہتے ہیں، یہ ثقہ
حافظ اور دانشمند ہیں۔
محمد بن عبد اللہ حضرمی کہتے ہیں: یہ
سن پانچ میں ہوئے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سن ایک سو چھپن ہجری میں فوت ہوئے۔
ان سے امام بخاريؒ نے دوسروں كے ساتھ
روايت کیا ہے، اور باقیوں نے بھی سوائے امام مسلم کے۔
(تهذيب الكمال في أسماء
الرجال: جلد 23 صفحہ 312 رقم 4773)
⍟
امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ) انکا زکر ان رواۃ
میں کرتے ہیں جن پہ کلام تو ہے مگر وہ ثقہ ہیں:
فطر بن خليفة (م على) :
صدوق وثق وقال الجوزجاني زائغ غير ثقة وقال الدارقطني زائغ لا يحتج به وغمزه ابن المديني له في البخاري حديث
فطر بن خلیفہ، صدوق ہیں، انکی توثیق کی
گئی ہے، اور جوزجانی کہتا ہے کہ یہ گمراہ اور غیر ثقہ ہے، اور امام دارقطنی نے کہا
کہ گمراہ ہے اور اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا، اور ابن مدینی نے اسکی طرف بخاری
کی حدیث میں اشارہ کیا ہے۔
(من تكلم فيه وهو موثق ت
أمرير: صفحہ 151 رقم 277)
⍟
امام شمس الدین الذھبیؒ انکا ایک اور جگہ ترجمہ قائم
کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فطر بن خليفة أبو بكر المخزومي
الشيخ، العالم، المحدث، الصدوق، أبو بكر الكوفي، المخزومي، مولى عمرو بن حريث -رضي الله عنه- الحناط
فطر بن خلیفہ ابو بکر المخرومی
شیخ، عالم، محدث، صدوق، ابو بکر الکوفی،
المخزومی، حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام، الحناط۔
پهر آپ ان پہ جرح و تعديل كے اقوال
نقل كرتے ہیں کہ:
وثقه: أحمد بن حنبل، وقال مرة: كان
فطر عند يحيى بن سعيد ثقة، لكنه خشبي مفرط.
وقال أحمد العجلي: ثقة، حسن الحديث،
فيه تشيع يسير.
وقال ابن سعد: ثقة - إن شاء الله -
منهم من يستضعفه، له سن ولقاء، وكان لا يدع أحدا يكتب عنده.
وعن أبي بكر بن عياش، قال: ما تركت
الرواية عن فطر، إلا بسوء مذهبه.
وقال عبد الله بن أحمد: سألت أبي عن
فطر، فقال:
ثقة، صالح الحديث، حديثه حديث رجل
كيس، إلا أنه يتشيع.
وقال أحمد بن يونس: تركته عمدا، وكان يتشيع، وكنت أمر به بالكناسة في أصحاب الطعام، وكان أعرج، فأمر وأدعه مثل الكلب.
اور انہیں امام احمد بن حنبلؒ نے ثقہ
قرار دیا، اور دوسری مرتبہ کہا: فطر امام یحیی بن سعید القطان کے نزدیک ثقہ ہے، لیکن
یہ سخت خشبی تھے،
اور امام احمد العجلی کہتے ہیں کہ یہ
ثقہ حسن الحدیث ہے، اس میں تھوڑا سا تشیع ہے۔
اور امام ابن سعد کہتے ہیں کہ یہ ان
شاء اللہ ثقہ ہیں، ان میں کچھ انہیں کمزور سمجھتے تھے، انکے پاس بڑی عمر اور
ملاقات تھی، وہ خود سے کسی کو لکھنے نہیں دیتے تھے،
اور ابی بکر بن عباش سے مروی ہے کہ وہ
کہتے ہیں کہ میں نے فطر سے روایات کرنا ترک نہیں کیا سوائے اسکے برے مذہب کی وجہ
ہے۔
اور عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں کہ
انہوں نے اپنے والد سے فطر کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا:
ثقہ صالح الحدیث ہیں، انکی حدیث
دانشمد شخص کی حدیث ہے سوائے اسکے کہ یہ شیعہ ہیں۔
اور احمد بن یونس کہتے ہیں: میں نے
انہیں جان بوجھ کر چھوڑا، اور یہ شیعہ تھے، اور میں نے انہیں کھانا کھانے والوں کے
پاس جھاڑو دینے کا حکم دیا، اور یہ لنگڑے تھے، چناچہ میں نے اسے حکم دیا اور کتے کی
طرح چھوڑ دیا۔
اسکے بعد امام ذھبیؒ لکھتے ہیں:
وما يبعد أن يكون لقي المشايخ المذكورين، لكنه ليس بذاك المتقن، مع ما فيه من بدعة، ومن أجل ذلك قرنه البخاري بآخر، وحديثه من قبيل الحسن
اور يه بعید ہے کہ انہوں نے ان مذکورہ
شیوخ سے ملاقات کی ہو، لیکن وہ اپنی بدعت کے ساتھ اتنے متقن نہیں ہیں، اور یہی وجہ
ہے کہ امام بخاری نے انہیں دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے، اور انکی حدیث حسن کی قبیل سے
ہے۔
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 7 صفحہ 30 رقم 14)
⍟
امام ذھبیؒ دوسری جگہ انکو ثقہ قرار دیتے ہیں:
فطر بن خليفة: ثقة، شيعي، قال الجوزجاني: زائغ غير ثقة
فطر بن خلیفہ، ثقہ ہیں، شیعہ ہیں،
جوزجانی کہتا ہے: گمراہ اور غیر ثقہ ہے۔
(ديوان الضعفاء: صفحہ 321
رقم 3395)
⍟
ایک اور جگہ امام ذھبیؒ انکے ترجمے میں کہتے ہیں کہ
ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شیعہ تھے۔
قلت: وهو ظاهر التشيع
(تذهيب تهذيب الكمال في
أسماء الرجال: جلد 7 صفحہ 353 رقم 5487)
⍟
اسی امام ذھبیؒ نے انکا ترجمہ درج ذیل کتب میں بھی قائم
کیا ہے:
(ميزان الاعتدال: جلد 3
صفحہ 363 رقم 6779)
(الكاشف: جلد 2 صفحہ 125
رقم 4494)
⍟
امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ) انکا ترجمہ قائم
کرتے ہیں:
اور وہی اقوال نقل کرتے ہیں جو اوپر
نقل کرچکا، اسکے علاوہ لکھتے ہیں:
وقال الساجي صدوق ثقة ليس بمتقن كان أحمد بن حنبل يقول هو خشبي مفرط قال الساجي وكان يقدم عليا على عثمان
اور الساجی کہتے ہیں یہ صدوق ثقہ ہیں
مگر پختہ نہیں ہیں، احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ سخت خشبی تھے۔ الساجی کہتے ہیں یہ
سیدنا مولا علیؑ کو سیدنا عثمان پہ مقدم رکھتے تھے۔
(حاشیے میں محقق لکھتے ہیں کہ خشبی
جھمیہ کے ایک فرقے کا نام تھا)۔
اسی طرح مزید نقل کرتے ہیں:
وقال أبو زرعة الدمشقي سمعت أبا نعيم يرفع من فطر ويوثقه ويذكر أنه كان ثبتا في الحديث
ابو ذرعہ الدمشقی کہتے ہیں کہ انہوں
نے ابو نعیم کو فطر کا ذکر کرتے ہوئے سنا اور وہ انکو ثقہ کہتے اور انکے متعلق زکر
کرتے تھے کہ وہ حدیث میں ثبت ہیں۔
اسی طرح امام ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے
ہیں:
وقال بن أبي خيثمة سمعت قطبة بن العلاء يقول تركت فطرا لأنه يروي أحاديث فيها إزراء على عثمان
ابن ابی خیثمہ کہتے ہیں کہ انہوں نے
قطبہ بن العلاء کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس نے فطر کو ترک کردیا کیونکہ اس سے ایسی
احادیث مروی ہیں جن میں سیدنا عثمانؓ کی توہین ہوتی ہے۔
(تهذيب التهذيب: جلد 8 صفحہ
300 رقم 550)
⍟
اس کے بعد امام ابن حجر عسقلانیؒ خود ان پہ حکم لگاتے ہیں
کہ یہ صدوق ہیں اور ان پہ شیعت کا الزام ہے اور یہ پانچویں طبقے میں سے ہیں۔
(تقريب التهذيب: صفحہ 448
رقم 5441)
⍟
امام ابن حجر عسقلانیؒ کی تقریب التھذیب پہ تحقیق لکھتے
ہوئے شیخ بشار الاعواد المعروف اور شیخ شعیب الارنوؤط لکھتے ہیں:
بل: ثقة، وثقه يحيى بن سعيد القطان -
وناهيك به من متشدد -، وأحمد بن حنبل، وابن معين، والعجلي، والنسائي، وابن سعد،
وعبدالله بن داود، وأبو زرعة الدمشقي، والساجي، وقال أبو حاتم: صالح الحديث، كان
يحيى بن سعيد يرضاه، ويحسن القول فيه، ويحدث عنه. قلنا: وإنما تكلم فيه بعضهم، مثل
الدارقطني، وأبي بكربن عياش، والجوزجاني، بسبب المذهب، صرحوا بذلك.
وقد روى له البخاري مقرونا بغيره
بلکہ یہ ثقہ ہیں، انہیں یحیی بن سعید
القطان نے ثقہ قرار دیا، اور وہ بہت ہی متشدد ہیں، اور احمد بن حنبل، ٰیحیی بن معین،
العجلی، النسائی، ابن سعد، عبد اللہ بن داؤد، ابو ذرعہ الدمشقی، والساجی نے بھی
ثقہ کہا، اور ابو حاتم نے کہا: صالح الحدیث ہیں، ان سے یحیی بن سعید القطان راضی
تھے اور ان کے متعلق عمدہ قول کہتے تھے اور ان سے احادیث بیان کرتے تھے۔ ہم نے کہا
کہ اور ان پہ بعض نے کلام کیا ہے، جیسے کہ امام دارقطنی، ابی بکر بن عیاش اور
جوزجانی نے، انکے مذہب کی وجہ سے، جوکہ صاف صاف واضع ہے۔ اور ان سے بخاری نے
دوسروں کے ساتھ روایت لی ہے۔
(تحرير تقريب التهذيب: جلد
3 صفحہ 164 رقم 5441)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین یہ تھی کل کائنات اس راوی پہ
جرح و تعدیل کی۔ سب سے پہلے ہم جارحین کی جرح کو دیکھتے ہیں:
1۔ ابو اسحاق الجوزجانی:
جوزجانی کی جرح کہ یہ گمراہ اور غیر
ثقہ ہیں، مردود ہے کیونکہ وہ ناصبی تھا اور اہل کوفہ اور شیعہ رواۃ پہ اپنے بغض کی
بنیاد پہ جرح کرتا تھا۔
امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ)
لکھتے ہیں:
وأما الجوزجاني فقد قلنا غير مرة إن جرحه لا يقبل في أهل الكوفة لشدة انحرافه ونصبه
اور جہاں تک الجوزجانی کا تعلق ہے تو
ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اسکی اہل کوفہ پہ جرح اسکے شدید انحراف اور ناصبیت کی
وجہ سے قبول نہیں ہے۔
(فتح الباري لابن حجر: جلد
1 صفحہ 446)
اسی طرح امام شمس الدین الذھبیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:
وقال أبو إسحاق الجوزجاني -
كعوائده في فظاظة عبارته: كان من أهل الكوفة قوم لا يحمد الناس مذاهبهم، هم رءوس محدثي الكوفة، مثل أبي إسحاق، ومنصور، وزبيد اليامى، والأعمش، وغيرهم من أقرانهم احتملهم الناس لصدق ألسنتهم في الحديث وتوقفوا عندما أرسلوا
اور ابو اسحاق الجوزجانی اپنی سخت
عادت کے تحت یہ الفاظ کہہ رہے ہیں، اہل کوفہ میں ایسے لوگ تھے جن کے مذہب کی لوگ
تعریف نہیں کرتے تھے، وہ کوفے کے محدثین کے سربراہ تھے، ابی اسحاق، منصور، زبید الیامی،
اعمش کے معاصرین وغیرہ کی مثل کے، لوگوں نے احادیث میں انکی زبانوں کے سچے ہونے کے
سبب انہیں قبول کیا اور جب انہوں نے ارسال کیا تو توقف کیا۔
(ميزان الاعتدال: جلد 2
صفحہ 66)
اسی طرح امام ابن حجر عسقلانیؒ ایک
اور جگہ لکھتے ہیں:
وممن ينبغي ان يتوقف في قبول قوله في الجرح من كان بينه وبين من جرحه عداوة سببها الاختلاف في الاعتقاد فان الحاذق إذا تأمل ثلب أبي إسحاق الجوزجاني لأهل الكوفة رأى العجب وذلك لشدة انحرافه في النصب وشهرة أهلها بالتشيع فتراه لا يتوقف في جرح من ذكره منهم بلسان ذلقة وعبارة طلقة حتى انه أخذ يلين مثل الأعمش وأبي نعيم وعبيد الله بن موسی
اور لوگوں کو جرح میں اقوال کو قبول
کرنے میں توقف کرنا چاہیے، ایسے لوگ کے جو اپنے اور دوسروں کے درمیان عقائد کے
اختلاف کی وجہ سے عداوت کی بنا پہ جرح کرتے ہیں، اور علم رکھنے والا شخص جب اہل
کوفہ کے متعلق ابو اسحاق الجوزجانی کی غیبت دیکھے گا تو حیران رہ جائے گا، اور یہ
انکی ناصبیت میں شدید انحراف اور اہل تشیع کی شہرت کی وجہ سے تھا، آپ دیکھیں گے کہ
وہ انکے متعلق جرح زکر کرنے میں توقف نہیں کریں گے تیز زبان اور بےباک عبارتوں كے
ساتھ، یہاں تک کہ وہ اعمش، ابو نعیم اور عبید اللہ بن موسی جیسے لوگوں په بھی باز
نہ آئے۔
(لسان الميزان: جلد 1 صفحہ
16)
اسکے علاوہ مزید کئی حوالہ جات نقل کیے
جاسکتے ہیں، طوالت كے پيش نظر اتنا كافی ہے، یہ حکم امام ابن حجر عسقلانیؒ لگا رہے
ہیں اور اس سے معلوم ہوا کہ جوزجانی کی اہل کوفہ اور شیعہ رواۃ پہ جرح کو قبول نہیں
کیا جاسکتا جب کہ اس کے مقابلے پہ اس سے زیادہ اوثق اور عمدہ آئمہ زبردست توثیق
کررہے ہیں۔ بعض آئمہ نے انکو السعدی کہہ کر بھی انکے قول کو نقل کیا ہے۔
2۔ قطبہ بن العلاء:
نواصب اسکے قول کو دلیل بنا کر کہتے ہیں
کہ فطر بن خلیفہ سے ایسی احادیث مروی ہیں جن میں سیدنا عثمان کی تنقیص شامل تھی
لہزا یہ راوی رافضی ہے، یہ تو کذب اور منافقت ہے کہ اس قول کو دلیل بنا کر ان پہ
رافضیت کی جرح کی جائے کیونکہ قطبہ بن العلاء تو خود ضعیف ہے اور ضعیف کی جرح
مردود ہوتی ہے۔
امام بخاریؒ اسکے متعلق کہتے ہیں کہ لیس
بالقوی،
یہ قوی نہیں ہے
(التاريخ الكبير للبخاري:
جلد 7 صفحہ 191 رقم 851)
دوسری جگہ امام بخاریؒ لکھتے ہیں کہ
وليس بالقوي وفيه نظر ولا يصح حديثه
اور اس سے کچھ بھی قوی نہیں ہے، اور
اس میں نظر ہے اور اسکی احادیث صحیح نہیں ہیں
(الضعفاء الصغير للبخاري ت
زايد: صفحہ 96 رقم 304)
اسے امام ابو ذرعہ الرازیؒ ضعفاء میں
زکر کرتے ہیں:
(أسامي الضعفاء: جلد 2 صفحہ
651 رقم 274)
امام نسائیؒ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں:
(الضعفاء والمتروكون
للنسائي: صفحہ 89 رقم 501)
امام ابو حاتم الرازیؒ کہتے ہیں:
يكتب حديثه ولا يحتج به
اسکی حدیث لکھی جائے گی اور اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا
(قبول الأخبار ومعرفة الرجال:
جلد 2 صفحہ 309 رقم 710)
امام یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ:
يحدث عن سفيان باحاديث منكرة
یہ سفیان سے منکر احادیث روایت کرتا
ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي
حاتم: جلد 7 صفحہ 142)
امام ابن حبانؒ اسے مجروحین میں زکر
کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کثرت سے خطائیں کرتا تھا
(المجروحين لابن حبان ت
حمدي: جلد 2 صفحہ 223 رقم 886)
اسے امام ابو نعیم نے ضعفاء میں زکر کیا
ہے:
(الضعفاء لأبي نعيم: صفحہ
131 رقم 194)
اسے امام ابن الجوزیؒ ضعفاء اور متروکین
میں درج کرتے ہیں
(الضعفاء والمتروكون لابن
الجوزي: جلد 3 صفحہ 18 رقم 2768)
امام ذھبی بھی اسے ضعفاء میں زکر کرتے
ہیں اور ضعف کا قول نقل کرتے ہیں
(ديوان الضعفاء: صفحہ 327
رقم 3448)
اسکے علاوہ مزید حوالہ جات بھی موجود
ہیں، چند ایک آئمہ نے معمولی توثیق بھی کی ہے مگر وہ اسے فائدہ نہیں دیتی اور
مرجوع رہتی ہے۔ لہزا اسکا یہ قول جس کی بنیاد پہ فطر بن خلیفہ کو رافضی کہا جارہا
ہے وہ ضعیف اور غیر ثابت ہے۔ کتنے بڑی خیانت کی بات ہے کہ ایک ضعیف راوی کا اعتبار
کرکے ایک ثقہ محدث کا انکار کیا جارہا ہے اور اس پہ تہمت لگائی جاتی ہے۔ اس سے بڑی
کذب بیانی اور کیا ہوگی؟
علامہ ظفر احمد عثمانیؒ (المتوفی 1394ھ) علم حدیث میں قائدہ لکھتے ہیں کہ:
فالعدل لا يُجرح بقول المجروح
عال شخص پہ مجروح کے قول سے جرح نہیں کی جاسکتی۔
(قواعد فی علوم الحدیث: صفحہ 402)
3۔ امام دارقطنیؒ:
امام دارقطنیؒ نے جہاں انکے متعلق یہ
کہا کہ ان سے احتجاج نہیں کیا جائے گا وہاں انہوں نے ان کا ترجمہ ان رواۃ میں کیا
جن کی ثقات سے روایت امام بخاری و مسلم کی شرط پہ صحیح ہے۔ جسکا ذکر اوپر کرچکا
ہوں، لہزا انکی جرح کوئی نقصان نہیں دیتی۔
4۔ احمد بن یونس:
انکے قول کو بھی نواصب آدھا استعمال
کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے انکو کتا رافضیت کی وجہ سے کہا اور ترک کردیا،
جبکہ امام ذھبی سیر اعلام النبلاء میں انکا پورا قول نقل کرچکے ہیں کہ انہوں انکو
صرف اپنی من مرضی کی بنیاد پہ انکے شیعہ ہونے کی وجہ سے ترک کیا تھا ناکہ رافضیت کی
بنیاد پہ، جب کسی شخص کا اپنی دعوی موجود ہے کہ وہ کیوں ترک کررہا ہے تو پھر اس میں
اپنی لقمہ ڈال کر تحریف کرنا خیانت ہے، اور انہوں نے انکو کتا اس لیے کہا کہ یاں
تو وہ لنگڑے تھے اور جھاڑو لگاتے ہوئے کتے کی طرح لگ رہے تھے یاں پھر ان کو انکی شیعت
سے مسئلہ تھا، جیسا کہ یہ خود کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے اپنی مرضی کی وجہ سے ترک
کردیا۔ یعنی ان کو ان میں کوئی قابل اعتراض خامی نہیں ملی۔
5۔ ابی بکر بن عیاش:
ابی بکر بن عیاش بھی ان کی روایات کو
انکے مذہب کی بنیاد پہ ترک کرتے ہیں، یہاں ناصبیت تحریف کرکے مذہب کے آگے رافضیت
داخل کردیتے ہیں جب کہ پورے علم الرجال میں کسی نے بھی ان پہ رافضیت کا الزام نہیں
کیا، یہاں واضع طور پہ مراد تشیع ہے۔ اسکے علاوہ امام عجلیؒ کہتے ہیں کہ ان میں
تھوڑا سا تشیع ہے اور امام ابن حجر عسقلانیؒ کہتے ہیں کہ ان پہ تشیع کا الزام ہے، یعنی
بعض آئمہ کے نزدیک تو ان پہ تشیع بھی اتنا قوی نہیں کہ ان کو مطلقا شیعہ قرار دے دیا
جائے بلکہ یہاں نواصب تحریفات کرکے انکو رافضی کہہ رہے، کتنی عمدگی سے جھوٹ بولا
جارہا ہے۔
6۔ نواصب کی جانب سے تحریفات:
امام ابن عدیؒ کہتے ہیں کہ:
وفطر بن خليفة له أحاديث صالحة عند الكوفيين يروونها عنه في فضائل علي وغيره، وهو متماسك وأرجو أنه لا بأس به، وهو ممن يكتب حديثه
اور فطر بن خلیفہ، ان کے پاس صالح
احادیث ہیں اہل کوفہ کے لیے جو انہوں نے فضائل سیدنا مولا علیؑ وغیرہ میں روایت کی
ہیں، اور یہ مضبوط تھے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے، اور وہ
ان لوگوں میں سے ہیں جنکی احادیث لکھی جاتی ہیں۔
(الكامل في ضعفاء الرجال:
جلد 7 صفحہ 146)
یہاں امام ابن عدیؒ انکے متعلق کہہ
رہے ہیں کہ انکی احادیث صالح ہیں، پھر کہتے ہیں انکے متعلق لا باس بہ کا کلمہ
استعمال کرتے ہیں، یہ کلمہ تو توثیق کا ہے اور اس راوی کی روایت کم از کم بھی حسن
لذاتہ ہوتی ہے، اور آگے امام ابن عدیؒ یہ بتا رہے ہیں کہ یہ ان میں سے ہیں جن کی
احادیث کو لکھا جاتا ہے، یہاں نواصب تحریف کرکے بریکٹ میں متابعت لکھ کر غلط تاثر
دیتے ہیں کہ انکے نزدیک اہل کوفہ کے علاوہ دیگر جو روایت کرتے ہیں وہ منکر ہوتی ہیں،
یہ وہ واضع تحریف ہے جس کو ہر صاحب علم باآسانی دیکھ سکتا ہے، اگر یہاں امام ابن
عدیؒ کا یہ مطلب ہوتا تو وہ پھر یہ کیوں کہتے کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہیں؟
اور امام ابن عدیؒ نے یہ کہاں لکھا کہ اہل کوفہ کے علاوہ تمام راوی جب روایت کریں
تو ان میں مناکیر ہیں؟ یہ بات نواصب کو معلوم ہوئی مگر یہ بات امام یحیی بن سعید
القطان، امام احمد بن حنبل، امام یحیی بن معین، امام ابو حاتم الرازی، امام نسائی،
امام ذھبی اور امام ابن حجر عسقلانیؒ جیسے رجال کے آئمہ کو معلوم نہیں ہوئی اور
نواصب کو ہو گئی؟ من گھڑت تحریفات کی بھی حد ہوتی ہے۔
اسی طرح ناصبی نے امام عقیلی کے حوالے
سے ابو بکر بن عیاش کے قول میں بھی تحریف کرکے لفظ رافضیت داخل کردیا، حالانکہ ان
پہ رافضیت کی تہمت کسی آئمہ نے رجال نے نہیں لگائی۔ اسی طرح مزید تحریف یہ کردی کہ
امام احمد بن حنبل کے قول کو بدل دیا گیا کہ انہوں نے کہ یہ سخت خشبی تھا کو بدل
کر یہ کردیا کہ یہ سخت فرقہ پرست تھا، ناصبی یاں تو جاہل ہیں کہ انہیں خشبی گروہ
کے متعلق معلوم نہیں یا پھر وہ یہاں تحریف کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ راوی
بھی ان کی طرح کوئی سخت فرقہ پرست تھے، حالانکہ ایسا سرے سے یہاں کچھ موجود ہی نہیں۔
اس کے علاوہ جن آئمہ نے انکا تذکرہ
ضعفاء کی کتب میں کیا ہے انہوں نے انہی کے اقوال کے پیش نظر کیا ہے جو ہم نے ذکر
کرکے انکا جواب لکھ دیا اور ساتھ میں ان آئمہ نے ان پہ تحسین و توثیق کے اقوال بھی
اسی جگہ نقل کیے ہوئے ہیں، لہزا یہ چیز بھی مرجوع ہوئی۔
لہزا ثابت ہوا کہ فطر بن خلیفہ پہ ضعف
کے اقوال مرجوع ہیں، جمھور اور کبیر آئمہ کے نزدیک یہ ثقہ صدوق ہیں، ان پہ رافضیت
کی تہمت لگانا کذب اور جھوٹ ہے، کسی راوی کا شیعہ ہونا کوئی جرح نہیں ہے اور ناہی یہ
کوئی عیب ہے اور ناہی اس وجہ سے روایت پہ کوئی ضعف آتا ہے، مزید یہ ثابت ہوتا ہے
کہ ان احادیث صالح ہوتی ہیں اور ان پہ منکر کی تہمت لگانا جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نواصب کا یہ
دعوی کہ اس راوی نے یہ روایت گھڑی ہے، خود من گھڑت ہے اور یہ دعوی کرنے والا خود
کذاب اور دجال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت کے متن پہ اعتراض:
نواصب نے ایک اعتراض یہ بھی کیا کہ اس
روایت کے متن میں فطر بن خلیفہ نے تدلیس کی ہے اور انبیاء کرام سلام اللہ علیہم
اجمعین کے مقام تک کا خیال نہیں رکھا۔
یہ بھی جھوٹ ہے کہ اس روایت کے متن میں
تدلیس ہوئی ہے، نواصب نے اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی، بلکہ ایک جھوٹا دعوی کردیا
ہے، کیونکہ اگر اس راوی نے خود تدلیس کی ہے تو یہ جھوٹا ہے کیونکہ یہ سماع کی تصریح
سے روایت کررہا ہے اور متن میں تدلیس کرکے جھوٹ بول رہا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے،
ہم اوپر اس راوی کے سچے اور ثقہ صالح ہونے کی گواہیاں نقل کرچکے ہیں، امام یحیی بن
سعید القطان جیسے متشدد ترین ناقد امام ان سے عمدہ طور پہ راضی تھے اور ان سے احادیث
بیان کیا کرتے تھے۔ یہ الزام لگانے کی وجہ ایک اور الزام ہے اور وہ
آخری الزام جو بریلوی اور ناصبی لگا
سکتے ہیں وہ توہین کا ہی لگا سکتے ہیں، اس راوی پہ جھوٹی تہمتوں کی بھرمار کرتے
ہوئے نواصب اس الزام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایسا غلو ہے کہ انبیاء
کے مقام کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔
یہاں سوائے جاہل عقل و علم سے پیدل یا
پھر منافق انسان کو ہی یہ الزام لگ سکتا ہے مگر ہر وہ انسان جسے قرآن و حدیث کو
فہم ہوگا تو وہ اس کے فہم کو سمجھ جائے گا۔
یہاں یہ الزام اس وجہ سے لگایا جارہا
ہے کہ مولا علی المرتضیؑ کی ایک سبقت بھی اگر مخلوق میں تقسیم کی جائے تو وہ انکی
بھلائی کیلیے کافی ہوئے، یہاں مخلوق (بالعموم) میں انہوں نے انبیاء کرام (بلخصوص)
کو شامل کرکے یہ الزام لگانے کی کوشش کی ہے کہ یہ روایت معاذ اللہ انبیاء کی گستاخی
ہے اور انکے مقام کا احترام نہیں کیا گیا۔
ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں
اسی طرح کے بلعموم دلائل موجود ہیں، فلہام ہم ایک قرآن مجید سے اور ایک حدیث نبوی
سے پیش کرتے ہیں۔ کیا تو اب ان پہ بھی یہی خود ساختہ قیاص کرکے توہین کی بات کرنی
چاہیے؟ اگر نہیں رو سوچیں کہ یہ منافقانہ رویہ کیونکر ہے؟
1۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَ لَقَدِ اخۡتَرۡنٰہُمۡ عَلٰی عِلۡمٍ
عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۳۲﴾
اورہم نے دانستہ طور پر بنی اسرائیل
کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی۔
(سورۃ الدخان: آیت 32)
وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ
اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ
جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ
﴿۲۰﴾
اور یاد کرو موسیٰ ( علیہ السلام ) نے
اپنی قوم سے کہا ، کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالٰی کے اس احسان کا ذکر کرو کہ
اس نے تم میں سے پیغمبر بناۓ
اور تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا ۔
(سورۃ المائدہ: آیت 20)
کیا کوئی اب ان آیات سے یہ اخذ کرسکتا
ہے کہ ان آیات میں امت محمدیہ کے مقام کا خیال نہیں رکھا گیا؟ یا پھر یہ معاذ اللہ
رسول اللہ ﷺ کے مقام کے منافی ہیں کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو تمام جہان والوں پہ
فوقیت دے دی، یا پھر یہ اللہ نے بنی اسرائیل کو وہ کچھ دیا جو کسی اور کو نہیں دیا،
لہزا ان سے بنی اسماعیل اور امت محمدیہ بھی محروم ہوگئی؟ بھلا یہ معنی کوئی جاہل
ان سے کرسکتا ہے جب کہ قرآن نے خود دوسری جگہ امت محمدیہ کو بہتر امت قرار دیا ہے!
(سورۃ آل عمران: آیت 110) سوائے جہالت کے یہ کچھ نہیں۔
2۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی فرماتے ہیں:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن اولى الناس بالله من بداهم بالسلام".
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے بہتر شخص وہ ہے جو سلام
کرنے میں پہل کرے“۔
(سنن ابو داؤد: رقم 5197 صحیح)
کیا اب رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے کوئی یہ
معنی لے سکتا ہے کہ جو سلام کہنے میں پہل کررہا ہے وہ سب لوگوں سے بہتر ہے تو کیا
انبیاء سے بھی بہتر ہوگیا ہے؟ یہ معنی کوئی جاہل ہی لیکر یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ
انبیاء کے مقام کا خیال نہیں رکھا گیا۔
یہ باتیں عموم کے ساتھ کی گئی ہے، اس
سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ مولا علی کی سبقت کی روایت میں انبیاء کرام بھی مراد ہیں۔
یہ بیہودہ اعتراض کرنے والوں کی ناصبیت اور منافقت ہے، انکو فضائل مولا علی المرتضیؑ
ہضم نہیں ہوئے۔
اللہ ان نواصب کو ان کے کیے کا عمدہ
بدلہ عطا فرمائے۔ آمین
تحریر و تحقیق:
شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment