-->

مروان ملعون کو سب و شتم کرنے کیلیے گورنر مقرر کرنا

 

﴿مروان ملعون کو سب و شتم کرنے کیلیے گورنر مقرر کرنا﴾

 

ہم نے پچھلی پوسٹ میں یہ روایت نقل کی گئی کہ مروان کو گورنر لگایا گیا تو وہ معلون مولا علی کرم اللہ وجہ کو گالیاں دیا کرتا تھا، اس روایت پہ بعض مروانی نواصب نے اعتراضات کیے، پہلے میں اس روایت کو دوبارہ نقل کرتا ہوں اور پھر ہم ان اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔

 

امام عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ (المتوفی 290ھ) لکھتے ہیں:

ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻦ ﻋﻮﻥ ﻋﻦ ﻋﻤﻴﺮ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻗﺎﻝ ﻛﺎﻥ ﻣﺮﻭاﻥ ﺃﻣﻴﺮا ﻋﻠﻴﻨﺎ ﺳﺖ ﺳﻨﻴﻦ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺴﺐ ﻋﻠﻴﺎ ﻛﻞ ﺟﻤﻌﺔ ﺛﻢ ﻋﺰﻝ ﺛﻢ اﺳﺘﻌﻤﻞ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﻌﺎﺹ ﺳﻨﺘﻴﻦ ﻓﻜﺎﻥ ﻻ ﻳﺴﺒﻪ ﺛﻢ ﺃﻋﻴﺪ ﻣﺮﻭاﻥ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺴﺒﻪ

 

عمیر بن اسحاق فرماتے ہیں: مروان بن الحکم چھے سال تک ہم پر امیر تھا، اور وہ ہر جمعہ کو منمبر پر علی رضی اللہ عنہ کو گلیاں دیتا تھا، پھر اس کو معزول کر دیا گیا اور حضرت سعید بن العاص رض کو دو سال کے لئے امیر مقرر کردیا گیا لیکن وہ گلیاں نہیں دیتا تھا پھر اس کو ہٹا کر واپس مروان کو امیر لگادیا اور وہ پھر سے گلیاں دیتا تھا۔

(العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله: جلد 3 صفحہ 176 رقم 4781، وسندہ صحیح)

کتاب کے محقق دکتور وصی اللہ بن محمد عباس اسکی سند کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس پہ نواصب کی جانب سے یہ اعتراض سامنے آیا ہے کہ عمیر بن اسحاق سخت مجروح اور متکلم فی راوی ہے اور یہ غیر ثابت روایت ہے۔

سب سے پہلے تو ناصبیوں کا یہ جھوٹ ہے یاں پھر یہ عقل و علم سے پیدل ہیں جنہیں علم الرجال اور علم جرح و تعدیل کی زرہ برابر ہوا تک نہیں لگی اور موصوف اس علم کے ساتھ من مانی کرکے دجل و فریب کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہم تابعی عمیر بن اسحاق پہ جرح و تعدیل کے تمام اقوال نقل کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان نواصب کے اعتراضات کی کیا حقیقت ہے۔

 

֍ امام يحيی بن معینؒ (المتوفی 233ھ):

امام عباس الدوریؒ لکھتے ہیں:

سمعت يحيى يقول كان ‌عمير ‌بن ‌إسحاق لا يساوي شيئا ولكن يكتب حديثه قال أبو الفضل يعني يحيى بقوله إنه ليس بشيء يقول إنه لا يعرف ولكن بن عون روى عنه فقلت ليحيى ولا يكتب حديثه قال بلى

 

میں نے امام یحیی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ عمیر بن اسحاق کی کوئی شے برابر نہیں ہے اور لیکن اسکی حدیث لکھی جائے گی۔ ابو الفضل امام الدوریؒ کہتے ہیں کہ اسکا معنی کہ امام یحیی کے قول "یہ کوئی شے نہیں ہے" وہ یہ کہتے ہیں کہ ہیں وہ نہیں جانتے اور لیکن ابن عون اس سے روایت کرتے ہیں چناچہ میں نے یحیی سے کہا کہ اسکی حدیث نہ لکھوں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔

(تاريخ ابن معين - رواية الدوري: جلد 4 صفحہ 250 رقم 4209)

 

֍ امام عثمان بن سعيد الدارمیؒ (المتوفی 280ھ) لکھتے ہیں:

قلت فعمير بن إسحاق كيف حديثه فقال ثقة

 

میں نے امام ٰیحیی بن معینؒ سے کہا کہ عمیر بن اسحاق حدیث میں کیسے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ثقہ ہیں۔

)تاريخ ابن معين - رواية الدارمي: صفحہ 162 رقم 576)

 

֍ امام ابو جعفر عقیلیؒ (المتوفی 322ھ) لکھتے ہیں:

‌عمير ‌بن ‌إسحاق أبو محمد حدثنا زكريا بن يحيى قال: حدثنا أبو موسى محمد بن المثنى قال: حدثني محمد بن عبد الله الأنصاري قال: حدثني رجل، قال: قلت لمالك بن أنس: من ‌عمير ‌بن ‌إسحاق؟ قال: لا أدري، إلا أنه روى عنه، رجل لا نستطيع أن نقول، فيه شيئا، ابن عون. حدثنا محمد بن عيسى قال: حدثنا عباس قال: سمعت يحيى قال: ‌عمير ‌بن ‌إسحاق لا يساوي شيئا، ولكنه يكتب حديثه

 

عمیر بن اسحاق ابو محمد۔ ہم سے زکر بن یحیی الساجی نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ انہیں ابو موسی محمد بن مثنی نے بیان کیا اور کہا کہ انہیں محمد بن عبد اللہ الانصاری نے بیان کیا کہ انہیں ایک شخص نے کہا کہ اس نے امام مالکؒ سے کہا کہ عمیر بن اسحاق کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں اسے نہیں جانتا سوائے اس کے کہ اس سے ایک آدمی ابن عون نے اس روایت کی ہے، ہم اسکے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مجھے محمد بن عیسی نے بیان کیا کہ انہیں عباس الدوریؒ نے بتایا کہ انہوں نے امام یحیی بن معینؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ عمیر بن اسحاق کی کوئی چیز برابر نہیں ہے اور لیکن اسکی حدیث لکھی جاتی ہے۔

(الضعفاء الكبير للعقيلي: جلد 3 صفحہ 317 رقم 1333)

 

֍ امام ابن ابی حاتمؒ الرازی (المتوفی 327ھ) لکھتے ہیں:

‌عمير ‌بن ‌اسحاق أبو محمد مولى بنى هاشم سمع ابا هريرة وعمرو ابن العاص والحسن بن علي روى عنه ابن عون ولا نعلم روى عنه غير ابن عون سمعت أبي يقول ذلك، نا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق فيما كتب إلى قال أنا عثمان بن سعيد قال قلت ليحيى بن معين ‌عمير ‌بن ‌اسحاق كيف حديثه؟ فقال ثقة

 

عمير بن اسحاق ابو محمد بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلام، انہوں نے سیدنا ابو ھریرہؓ، سیدنا عمرو ابن العاصؓ اور سیدنا امام حسن بن علیؑ سے سماع کیا ہے، ان سے ابن عون روایت کرتے ہیں، اور میں ابن عون کے علاوہ کسی اور کو ان سے روایت کرنے والا نہیں جانتا، میں نے اپنے والد امام ابو حاتم الرازیؒ سے یہ سنا۔ عبد الرحمن کہتے ہیں کہ مجھے یعقوب بن اسحاق نے بیان کیا کہ مجھے عثمان بن سعید نے لکھا کہ انہوں نے امام یحیی بن معین سے کہا کہ عمیر بن اسحاق حدیث میں کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ثقہ ہے۔

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 6 صفحہ 375 رقم 2074)

 

֍ امام ابن حبانؒ (المتوفی 354ھ) انکا ترجمہ ثقات میں قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‌عمير ‌بن ‌إسحاق مولى بنى هاشم كنيته أبو محمد يروي عن أبي هريرة وعمرو بن العاص روى عنه عبد الله بن عون وهو من أهل المدينة قد رأى الحسن بن علي بن أبي طالب

 

عمیر بن اسحاق بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلام ہیں، آپکی کنیت ابو محمد ہے۔ آپ سیدنا ابو ھریرہؓ اور سیدنا عمرو بن العاصؓ سے روایت کرتے ہیں اور آپ سے عبد اللہ بن عون روایت کرتے ہیں، آپ اہل مدینہ میں سے تھے اور آپ نے سیدنا امام حسن بن علی بن ابی طالبؑ کو دیکھا۔

(الثقات لابن حبان: جلد 5 صفحہ 254)

 

֍ امام ابن عدی الجرجانیؒ (المتوفی 365ھ) لکھتے ہیں:

وعمير بن إسحاق لا أعلم يروي عنه غير بن عون، وهو ممن يكتب حديثه وله من الحديث شيء يسير

 

اور عمیر بن اسحاق، میں ان سے ابن عون کے علاوہ کوئی اور روایت کرنے والا نہیں جانتا، اور یہ ان میں سے ہیں جن کی حدیث کو لکھا جائے گا اور اسکے پاس احادیث میں تھوڑا سا کچھ ہے۔

(الكامل في ضعفاء الرجال: جلد 6 صفحہ 134 رقم 1247)

 

֍ امام ابو الحسن دارقطنیؒ (المتوفی 385ھ) ایک کتاب "ان تابعین اور بعد کے لوگوں کے نام جن کی ثقات سے روایت امام بخاری و امام مسلم کے نزدیک صحیح ہے" کے نام سے لکھتے ہیں اور اس میں عمیر بن اسحاق کا نام بھی درج کرتے ہیں۔

(ذكر أسماء التابعين ومن بعدهم ممن صحت روايته عن الثقات عند البخاري ومسلم: جلد 2 صفحہ 184 رقم 913)

 

֍ امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ) لکھتے ہیں:

‌عمير ‌بن ‌إسحاق أبو محمد البصري يروي ابن عون قال يحيى بن سعيد لم يكن لا يساوي حديثه شيئا لكنه يكتب حديثه

 

عمیر بن اسحاق ابو محمد البصری، ان سے ابن عون روایت کرتے ہیں، یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ انکی کوئی شے برابر نہیں ہے لیکن ان کی احادیث لکھی جائیں گی۔

(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي: جلد 2 صفحہ 234 رقم 2605)

 

֍ امام عبد الغنی المقدسیؒ (المتوفی 600ھ) لکھتے ہیں:

‌عمير ‌بن ‌إسحاق مولى بني هاشم .

سمع: الحسن بن علي، وعمرو بن العاص، وأبا هريرة.

روى عنه: عبد الله بن عون.

قال أبو حاتم: لا نعلم روى عنه غيره.

قيل ليحيى بن معين: كيف حديثه؟ قال: ثقة.

روي له: مسلم

 

عمیر بن اسحاق بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلام

انہوں نے سیدنا امام حسن بن علیؑ، حضرت عمرو بن العاصؓ اور سیدنا ابو ھریرہؓ سے سماع کیا ہے۔

ان سے عبد اللہ بن عون روایت کرتے ہیں۔

امام ابو حاتمؒ کہتے ہیں: میں ان سے اسکے علاوہ کسی اور کو روایت کرنے والا نہیں جانتا۔

امام یحیی بن معینؒ سے کہا گیا کہ یہ حدیث میں کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: ثقہ ہیں۔

ان سے امام مسلم نے روایت لی ہے۔

(الكمال في أسماء الرجال: جلد 8 صفحہ 62 رقم 4897)

 

֍ امام جمال الدین یوسف المزیؒ (المتوفی 742ھ) آپکا ترجمہ قائم پہلے تو امام یحیی بن معینؒ کے دونو اقوال امام الدارمی سے مروی قول بھی اور امام الدوری سے مروی قول بھی نقل کرتے ہیں جنکا زکر میں اوپر کرچکا ہوں، اسکے بعد آپ لکھتے ہیں:

وقال النسائي: ليس به بأس.

وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات۔

روى له البخاري في "الأدب"، والنسائي

 

اور امام نسائیؒ کہتے ہیں کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور ان کو امام ابن حبانؒ نے اپنی کتاب الثقات میں زکر کیا ہے۔ ان سے امام نسائیؒ او امام بخاریؒ نے ادب المفرد میں روایت لی ہے۔

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال: جلد 22 صفحہ 370 رقم 4512)

 

֍ امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ) اپنی ایک کتاب من تكلم فيه وهو موثق (وہ راوی جن پہ کلام کیا گیا مگر وہ ثقہ ہیں) میں آپکا ترجمہ قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

عمير بن إسحاق (س) :

شيخ ابن عون خرج له مسلم وفيه جهالة قال ابن معين لا يساوي شيئا

 

عمیر بن اسحاق ابن عون کے استاد ہیں، ان سے امام مسلمؒ نے روایت لی ہے اور ان میں جہالت ہے، امام یحیی بن معین نے کہا کہ انکی کوئی چیز برابر نہیں ہے۔

(من تكلم فيه وهو موثق ت أمرير: صفحہ 148 رقم 270)

 

֍ امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ) میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ:

‌عمير ‌بن ‌إسحاق [س] .

وثق.

ما حدث عنه سوى ابن عون.

وقال يحيى بن معين: لا يساوى حديثه شيئا، لكن يكتب حديثه.

هذه رواية عباس عنه.

وأما عثمان فروى عن يحيى أنه ثقة.

وقال النسائي وغيره: ليس به بأس.

روى عن المقداد بن الأسود، وعمرو بن العاص، وجماعة

 

عمیر بن اسحاق۔ انکی توثیق معتبر ہے۔ ان سے سوائے ابن عون کے کوئی حدیث بیان نہیں کرتا۔ اور امام یحیی بن معین نے کہا کہ انکی کوی حدیث برابر نہین ہے لیکن انکی حدیث لکھی جائے گی، یہ امام عباس الدوری کی آپ سے روایت ہے اور جہاں تک امام عثمان الدارمی کا تعلق ہے تو وہ امام یحیی سے روایت کرتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں، اور امام نسائیؒ وغیرہ نے کہا کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے سیدنا مقداد بن الاسودؓ اور سیدنا عمرو بن العاصؓ اور ایک جماعت سے روایت کی ہے۔

(ميزان الاعتدال في نقد الرجال: جلد 3 صفحہ 296 رقم 6485)

 

֍ اسی طرح امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ) ایک اور جگہ آپکا ترجمہ قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‌عمير ‌بن ‌إسحاق عن المقداد وأبي هريرة وعنه بن عون لينه بن معين وقواه غيره

 

عمیر بن اسحاق سیدنا مقدادؓ اور سیدنا ابو ھریرہؓ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابن عون روایت کرتے ہیں، امام یحیی بن معین نے لین قرار دیا ہے اور دیگر نے تقویت دی ہے۔

(الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة: جلد 2 صفحہ 96 رقم 4282)

 

֍ ایک اور جگہ امام ذھبیؒ بھی یہی کچھ لکھتے ہیں:

‌عمير ‌بن ‌إسحاق شيخ ابن عون وثق وقال ابن معين لا يسواي حديثه شيئا

 

عمیر بن اسحاق ابن عون کے شیخ ہیں، انکی توثیق معتبر ہے اور ابن معین نے کہا کہ انکی حدیث میں کوئی چیز برابر نہیں ہے۔

(المغني في الضعفاء: جلد 2 صفحہ 492 رقم 4735)

 

֍ اسی طرح امام ذھبی آپکا ترجمہ دیوان الضعفاء میں بھی قائم کرتے ہیں:

(ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين: صفحہ 307 رقم 3232)

 

֍ اسطرح امام ذھبی آپکا ترجمہ تذھیب التھذیب میں قائم کرتے ہیں:

(تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال: جلد 7 صفحہ 238 رقم 5222)

 

֍ امام ذھبیؒ المستدرک للحاکم کی تلخیص میں آپکی روایت کو شیخین کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں:

(المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية: جلد 3 صفحہ 214 رقم 4880)

 

֍ امام تقی الدین المقریزیؒ (المتوفی 845ھ) بھی اپنے اختصار میں آپکا زکر کرتے ہیں:

(مختصر الكامل في الضعفاء: صفحہ 525)

 

֍ امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ) لکھتے ہیں:

عمير بن إسحاق القرشي أبو محمد مولى بني هاشم روى عن المقداد بن الأسود وعمرو بن العاص والحسن بن علي وعبد الله بن عبد الله بن أمية وأبي هريرة ومروان بن الحكم وسعيد بن العاص وعنه عبد الله بن عون قال أبو حاتم والنسائي لا نعلم روى عنه غيره وقال بن معين لا يساوي شيئا ولكنه يكتب حديثه وقال عثمان الدارمي قلت لابن معين كيف حديثه قال ثقة وقال النسائي ليس به بأس وذكره بن حبان في الثقات قلت ذكر الساجي أن مالكا سئل عنه فقال قد روى عنه رجل لا أقدر أن أقول فيه شيئا وذكره العقيلي في الضعفاء لأنه لم يرو عنه غير واحد قال بن عدي لا أعلم روى عنه غير بن عون وله منه الحديث شيء يسير ويكتب حديثه

 

عمیر بن اسحاق القریشی ابو محمد بنی ہاشم کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ یہ سیدنا مقداد بن الاسودؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ اور سیدنا امام حسن بن علیؓ اور عبد اللہ بن عبد اللہ بن امیۃ اور حضرت ابو ھریرہؓ اور مروان بن حکم اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے عبد اللہ بن عون روایت کرتے ہیں۔ امام ابو حاتمؒ اور امام نسائیؒ کہتے ہیں کہ وہ انکے علاوہ ان سے روایت کرنے والے کسی کو نہیں جانتے۔ اور امام ابن معین کہتے ہیں کہ انکی کوئی چیز برابر نہیں ہے لیکن انکی حدیث لکھی جائے گی اور امام عثمان الدارمیؒ کہتے ہیں کہ انہوں نے امام ابن معین سے کہا کہ یہ حدیث میں کیسے ہیں تو انہوں نے کہا ثقہ ہیں، اور امام نسائیؒ نے کہا کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام ابن حبان نے الثقات میں زکر کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ الساجی نے زکر کیا ہے کہ امام مالک سے انکے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان سے صرف ایک شخص روایت کرتے ہیں میں ان کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا اور امام عقیلی نے ضعفاء میں زکر کیا ہے کیونکہ ان سے ایک شخص کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی، امام ابن عدی نے کہا میں ان سے سوائے ابن عون کے کسی اور کو روایت کرنے والا نہیں جانتے اور ان کے پاس حدیث میں سے کچھ ہے اور انکی حدیث لکھی جاتی ہے۔

(تهذيب التهذيب: جلد 8 صفحہ 143)

 

֍ امام ابن حجر عسقلانیؒ خود انکو مقبول قرار دیتے ہیں۔

(تقریب التھذیب: صفحہ 431 رقم 5179)

 

اس کتاب پہ جب شیخ شعیب الارنوؤط اور شیخ بشار عواد معروف جب تحقیق لکھتے ہیں تو اس حکم پہ کوئی کلام نہیں کرتے۔

(تحریر تقریب التھذیب: جلد 3 صفحہ 119 رقم 5179)

 

֍ امام ابن حجر عسقلانیؒ ایک اور مقام پہ انکو ضعیف قرار دیتے ہیں:

(مختصر زوائد مسند البزار: جلد2 صفحہ 8 رقم 1338)

 

֍ اسی طرح امام بدر الدین العینی الحنفیؒ (المتوفی 855ھ) بھی آپکا ترجمہ قائم کرتے ہیں:

(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار: جلد 2 صفحہ 417)

 

֍ امام شمس الدین سخاویؒ (المتوفی 902ھ) بھی آپکا ترجمہ قائم کرتے ہیں:

(التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة - ط العلمية: جلد 2 صفحہ 359 رقم 3340)

 

֍ امام ابن حبانؒ (المتوفی 354ھ) آپکی روایات اپنی صحیح میں درج کرتے ہیں اور انکو صحیح قرار دیتے ہیں:

(صحیح ابن حبان: جلد 4 صفحہ 212 رقم 3302)

(صحیح ابن حبان: جلد 6 صفحہ 430 رقم 5562)

 

֍ امام حاکم النیشاپوریؒ (المتوفی 405ھ) آپکی روایات کو امام بخاری و امام مسلم کی شرائط پہ صحیح قرار دیتے ہیں اور امام ذھبیؒ بھی امام حاکم کی موافقت کرتے ہوئے شیخین کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں:

(المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية: جلد 3 صفحہ 214 رقم 4880)

(المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية: جلد 3 صفحہ 393 رقم 5488)

 

֍ امام نور الدین الھیثمیؒ (المتوفی 807ھ) بھی آپکو ثقہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

وعمير بن إسحاق وثقه ابن حبان وغيره، وفيه كلام لا يضر

 

اور عمیر بن اسحاق، انہیں امام ابن حبانؒ وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے اور ان پہ جو کلام ہے وہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: جلد 6 صفحہ 29 رقم 9844)

 

֍ ایک دوسری مقام پہ امام ھیثمیؒ واضع طور پہ انکو ثقہ قرار دیتے ہیں:

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: جلد 9 صفحہ 177 رقم 15046)

 

֍ ایک تیسرے مقام پہ امام ھیثمیؒ انکی روایت پہ کہتے ہیں کہ اسکے رجال صحیح کے رجال ہیں:

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: جلد 9 صفحہ 268 رقم 15463)

 

֍ امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ) انکی روایت کو حسن قرار دیتے ہیں:

(المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية: جلد 17 صفحہ 263 رقم 4231)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو یہ کل کائنات ہے اس راوی پہ جرح و تعدیل اور آئمہ کا اس کی روایت کے ساتھ کیے گئے سلوک سے متعلق۔ سوائے دو تین آئمہ کے کسی نے بھی ان پہ جرح نہیں کی اور وہ جرح بھی نہایت کمزور اور مرجوع ہے اور دیگر تمام آئمہ انکی توثیق کرتے ہیں، انکو جمھور ثقہ قرار دیتے ہیں اور اسکی روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ ہم نے ابھی اختصار سے کام لیتے ہوئے یہاں ان آئمہ کا زکر نہیں کیا جنہوں نے ان کا ترجمہ تو قائم کیا مگر کوئی جرح وغیرہ نہیں کی۔ انکا یہ کہنا کہ یہ سخت مجروح ہے تو حقیقت آپکے سامنے ہے کہ اس پہ کوئی خاص جرح موجود ہی نہیں ہے، سب سے پہلے جرح کرنے والے امام یحیی ابن معینؒ نے انکے اوپر معمولی سا کلام کیا مگر ان سے دوسری روایت کے مطابق یہ ثقہ ہیں، لہزا یہ تو جرح خود ہی امام یحیی بن معین سے رد ہوگئی۔ اس طرح انکے بعد جتنے آئمہ نے جرح کی ہے انہوں نے امام یحیی بن معینؒ کے اس قول سے دلیل پکڑی ہے، مثلا امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ نے اور امام عقیلیؒ نے۔ امام عقیلیؒ نے امام مالک سے امام الساجیؒ کی سند سے جو قول نقل کیا ہے وہ ضعیف اور غیر ثابت ہے، امام مالک سے سوال کرنے والا شخص مجھول ہے، لہزا امام عقیلیؒ کے پاس بھی صرف دلیل امام یحیی بن معینؒ کا قول بچتا ہے جس کا ہم بتا چکے ہیں۔ اسکے بعد امام ابن حجر عسقلانیؒ اور امام ذھبیؒ کے ہی ضعف کے اقوال بچتے ہیں تو اسکا بھی ہم زکر کر چکے کہ انہوں نے اسکو ثقہ اور مقبول بھی قرار دیا ہے اور اسکی روایات کی تحسین بھی کی ہے۔ لہزا یوں ثابت ہوا کہ

 

نواصب کا یہ اعتراض باطل ثابت ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مروان بن حکم ملعون کو اسی وجہ سے گورنر بنایا جاتا تھا کہ وہ امیر المومنین سیدنا مولا علی المرتضیؑ کو گالیاں دے۔ دنیا میں ابلیس بھی سچا ہوسکتا ہے مگر نواصب کبھی سچے نہیں ہوتے۔ اللہ انہیں انکی گمراہی پہ پکڑ کرے۔ آمین۔

 

تحریر و تحقیق: شہزاد احمد آرائیں