خوارج کن وجوہات کی بنا پہ وجود میں آئے؟ سیدنا ابن عباسؓ کا خوارج سے بےمثال مناظرہ
خوارج کن وجوہات کی بنا
پہ وجود میں آئے؟ انکے بنیادی اختلافات کیا تھے؟
سیدنا ابن عباسؓ کا خوارج
سے بےمثال مناظرہ
تحریر و تحقیق: ابو الحسنین ڈاکٹر شہزاد
احمد آرائیں
﷽
بہت سارے محبان اہل بیتؑ اور نوجوانان
اہل سنت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ خوارج کا وجود کن بنیادی اختلافات کی وجہ سے
ہوا تھا؟ وہ کون لوگ ذمہدار تھے جنہوں نے خوارج کے بننے میں انکی معاونت کی۔ اس
حوالے سے ہم ایک تفصیلی روایت آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور پھر اسکے نقاط آپکے سامنے
واضع کرتے ہیں:
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب بن
علی النسائیؒ (المتوفی 303ھ) اپنی کتاب خصائص علیؑ میں باب قائم کرتے ہیں کہ:
ذكر مناظرة عبد الله بن عباس الحرورية
واحتجاجه فيما أنكروه على أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رض
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کا حروریہ کے
ساتھ مناظرے کا ذکر اور اس میں انکا مولا علیؑ پہ اعتراضات کا رد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر امیر المومنین فی الحدیث امام
نسائیؒ روایت درج کرتے ہیں کہ:
أخبرنا عمرو بن علي قال حدثنا عبد
الرحمن بن مهدي قال حدثنا عكرمة بن عمار قال حدثني أبو زميل قال حدثني عبد الله بن
عباس قال لما خرجت الحرورية اعتزلوا في دار وكانوا ستة آلاف فقلت لعلي يا أمير
المؤمنين أبرد بالصلاة لعلي أكلم هؤلاء القوم قال إني أخافهم عليك قلت كلا فلبست
وترجلت ودخلت عليهم في دار نصف النهار وهم يأكلون فقالوا مرحبا بك يا ابن عباس فما
جاء بك قلت لهم أتيتكم من عند أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم المهاجرين والأنصار
ومن عند ابن عم النبي صلى الله عليه وسلم وصهره وعليهم نزل القرآن فهم أعلم
بتأويله منكم وليس فيكم منهم أحد لأبلغكم ما يقولون وأبلغهم ما تقولون فانتحى لي
نفر منهم قلت هاتوا ما نقمتم على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وابن عمه
قالوا ثلاث قلت ما هن قال أما إحداهن فانه حكم الرجال في أمر الله وقال الله {إن
الحكم إلا لله} الأنعام 57 يوسف 40 67 ما شأن الرجال والحكم قلت هذه واحدة
قالوا وأما الثانية فانه قاتل ولم يسب
ولم يغنم إن كانوا كفارا لقد حل سبيهم ولئن كانوا مؤمنين ما حل سبيهم ولا قتالهم
قلت هذه ثنتان فما الثالثة وذكر كلمة معناها
قالوا محى نفسه من أمير المؤمنين فإن
لم يكن أمير المؤمنين فهو أمير الكافرين قلت هل عندكم شيء غير هذا قالوا حسبنا هذا
قلت لهم أرأيتكم إن قرأت عليكم من كتاب الله جل ثناءه وسنة نبيه صلى الله عليه
وسلم ما يرد قولكم أترجعون قالوا نعم
قلت أما قولكم حكم الرجال في أمر الله
فإني أقرأ عليكم في كتاب الله أن قد صير الله حكمه إلى الرجال في ثمن ربع درهم
فأمر الله تبارك وتعالى أن يحكموا فيه أرأيت قول الله تبارك وتعالى {يا أيها الذين
آمنوا لا تقتلوا الصيد وأنتم حرم ومن قتله منكم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم
يحكم به ذوا عدل منكم} المائدة 95 وكان من حكم الله انه صيره إلى رجال يحكمون فيه
ولو شاء يحكم فيه فجاز من حكم الرجال أنشدكم بالله أحكم الرجال في صلاح ذات البين
وحقن دمائهم أفضل أو في أرنب قالوا بلى هذا أفضل
وفي المرأة وزوجها {وإن خفتم شقاق
بينهما فابعثوا حكما من أهله وحكما من أهلها} النساء 35 فنشدتكم بالله حكم الرجال
في صلاح ذات بينهم وحقن دمائهم افضل من حكمهم في بضع امرأة خرجت من هذه قالوا نعم
قلت وأما قولكم قاتل ولم يسب ولم يغنم
أفتسبون أمكم عائشة تستحلون منها ما تستحلون من غيرها وهي أمكم فإن قلتم إنا نستحل
منها ما نستحل من غيرها فقد كفرتم وان قلتم ليست بأمنا فقد كفرتم {النبي أولى
بالمؤمنين من أنفسهم وأزواجه أمهاتهم}
الأحزاب 6 فأنتم بين ضلالتين فأتوا
منها بمخرج افخرجت من هذه قالوا نعم
وأما محي نفسه من أمير المؤمنين فأنا
آتيكم بما ترضون إن نبي الله صلى الله عليه وسلم يوم الحديبية صالح المشركين فقال
لعلي اكتب يا علي هذا ما صالح عليه محمد رسول الله قالوا لو نعلم انك رسول الله ما
قاتلناك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم امح يا علي اللهم انك تعلم إني رسول
الله امح يا علي واكتب هذا ما صالح عليه محمد بن عبد الله والله لرسول الله صلى
الله عليه وسلم خير من علي وقد محى نفسه ولم يكن محوه نفسه ذلك محاه من النبوة
أخرجت من هذه قالوا نعم فرجع منهم ألفان وخرج سائرهم فقتلوا على ضلالتهم قتلهم
المهاجرون والأنصار
ترجمہ:
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ:
سید
نا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ اہل حرورہ نے جب خروج کیا، وہ چھ ہزار کی بڑی
تعداد میں ایک گھر پر علیحدہ جمع تھے۔ میں نے سیدنا علی المرتضی علیہ السلام سے
عرض کیا : اے امیر المومنینؑ! آپ ذرا نماز کو ٹھنڈا کیجیے تا کہ میں اس قوم
(خوارج) سے کچھ گفتگو کرلوں، سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے خدشہ
ہے کہ وہ کہیں آپ کو اذیت نہ دیں، میں نے عرض کیا: ایسا ہر گز نہیں ہوگا چنانچہ
میں نے ایک خوب صورت ترین حلہ (جوڑا) زیب تن کیا، کنگھی وغیرہ کی اور ٹھیک دوپہر
کے وقت ان کے پاس پہنچا جبکہ وہ کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے مجھ کو دیکھ کر مرحبا
مرحبا کہا اور کہنے لگے کہ اے ابن عباسؓ! آپ کا آنا کیسے ہوا؟ میں نے کہا: میں
مہاجرین وانصار صحابہؓ، آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور نبی کریم ﷺ کے داماد کے پاس سے
آرہا ہوں، انہی کے دور میں قرآن نازل ہوا، وہ قرآن کی تفسیر اور اس کا معنی و
مفہوم تم سے زیادہ جانتے ہیں، ان کا کوئی شخص تمہارے ساتھ نہیں، میں تمہیں ان کے
خیال سے اور ان کو تمہارے خیال سے متعارف کراؤں گا، چنانچہ کچھ لوگ الگ ہو کر میرے
پاس آئے۔ میں نے کہا: اصحاب رسول اللہ ﷺ اور سیدنا علیؑ کے خلاف تمہیں کیا شکایات ہیں؟
انھوں نے کہا: تین شکایتیں ہیں۔ میں نے کہا: وہ کیا ہیں؟ انھوں نے کہا:
پہلی
شکایت تو یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے معاملہ میں انسانوں کو حکم (فیصلہ کرنے والا)
تسلیم کر لیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "حکم صرف اللہ کے لیے ہے”۔
پس
اس آیت کی روشنی میں انسانوں کا حکم سے کیا تعلق؟ میں نے کہا: ایک ہوئی۔ دوسری
شکایت کیا ہے؟ انھوں نے کہا:
دوسری
شکایت یہ ہے کہ انہوں نے (معاویہ اور ان کے ساتھیوں سے) قتال کیا، لیکن نہ انھیں
قیدی بنایا اور نہ ان کا مال لوٹا، اگر وہ کافر تھے تو انھیں قیدی بنانا جائز تھا
اور اگر مومن تھے تو نہ انھیں قید کیا جاسکتا تھا اور نہ ان سے قتال جائز تھا۔
میں
نے کہا: یہ دوسری ہوئی۔ تیسری شکایت کیا ہے؟ یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور بات کہی۔
انہوں
نے کہا: انہوں نے عہد نامہ تحکیم سے خود امیر المومنین کا لقب مٹادیا، اگر وہ امیر
المومنین نہیں تو کیا (معاذ اللہ) امیر الکافرین ہیں؟
پھر
میں نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی شکایت ہے؟ انہوں نے کہا : نہیں، بس اتناہی
ہے۔ میں نے ان سے کہا: کیا میں کتاب اللہ اور سنت رسول کی روشنی میں تمھاری باتوں
کو غلط ثابت کروں تو لوٹ آؤ گے؟ (یعنی اپنے مؤقف سے رجوع کر لو گے) انہوں نے کہا:
ہاں! پھر میں نے کہا کہ تمہاری یہ شکایت کہ انھوں نے اللہ کے معاملہ میں انسانوں
کو حکم بنایا، اس کے جواب میں میں تمھیں قرآن کی ایک آیت سناتا ہوں، جس میں اللہ
نے ربع درہم جیسی معمولی چیز کے بارے میں انسانوں کو حکم ٹھہرایا ہے اور انھیں حکم
دیا ہے کہ اس میں فیصلہ کریں، اللہ کے اس کلام کے
بارے
میں کیا خیال ہے :
ترجمہ:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! شکار مت کرو، اس حال میں کہ تم احرام والے ہو اور تم
میں سے جو اسے جان بوجھ کر قتل کرے تو چو پاؤں میں سے اس کی مثل بدلہ ہے، جو اس نے
قتل کیا، جس کا فیصلہ تم میں سے دو انصاف والے کریں۔
اللہ
کا حکم یہ ہے کہ اس نے اپنا حکم لوگوں کے حوالے کر دیا ہے، تاکہ وہ اس کے مابین
فیصلہ کریں، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس بات کا خود فیصلہ فرمادیتا، اس کے باوجود
اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں لوگوں کے فیصلے کو جائز قرار دیا، میں تمہیں اللہ کا
واسطہ دے کر پوچھتا ہوں! لوگوں کے اختلاف کو مٹا کر صلح پیدا کرنے اور انہیں خون
ریزی سے بچانے کے لیئے حکم مقرر کرنا بہتر ہے، یا ایک خرگوش کے بارے میں (جس کی
قیمت ربع درہم ہے) انھوں نے کہا: ہاں، یہ افضل و بہتر ہے۔
مزید
سنو! اللہ تعالیٰ نے خاوند اور بیوی کے بارے میں فرمایا:
ترجمہ:
“اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف، مرد کے گھر والوں سے اور
ایک منصف، عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو۔”
پس
میں تمہیں پھر اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسلمانوں کے درمیان مصالحت
کروانے اور ان کی باہمی خون ریزی کو روکنے میں حکم مقرر کرنا اس عورت کے سامان لذت
سے بہتر ہے؟ ۔ کیا میں (پہلے اعتراض سے) نکل گیا۔ (یعنی میں نے آپ کا پہلا اعتراض
دور کر دیا) انہوں نے کہا: جی ہاں۔
پھر
میں نے کہا: تمہاری یہ شکایت کہ انہوں نے قتال کیا لیکن مقابل کو برا بھلا نہیں
کہا، ان کا مال نہیں لوٹا، تو اس سلسلے میں میں پوچھتا ہوں کہ تم اپنی ماں سیدہ
عائشہؓ کی (معاذ اللہ) تنقیص کرنا پسند کرتے ہو، ان کے بارے میں بھی ان باتوں کو
حلال جانو گے جو ان کے علاوہ دوسروں کے لیے حلال جانتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہاری ماں
ہے۔ اگر تم یہ کہو : ان کے ساتھ وہ سب کچھ حلال ہے، جو لونڈیوں کے لئے حلال ہوتا
ہے، تو تم نے کفر کیا اور اگر یہ کہو کہ وہ ہماری ماں نہیں ہیں تو پھر بھی تم کافر
ہو گئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:
“یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور ان کی بیویاں
ان کی مائیں ہیں۔”
تو
تم دو گراہیوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہو ، اس سے نکلنے کا راستہ تمہی بتاؤ۔ کیا میں
اس شکایت سے نکل گیا (یعنی میں نے آپ کا دوسرا اعتراض بھی دور کر دیا)، انہوں نے
کہا: جی ہاں۔
پھر
میں نے کہا: تمہاری یہ شکایت کہ انہوں نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لقب کیوں
مٹادیا، تو میں اس کی دلیل
تمہیں
دیتا ہوں، جو تمہیں پسند آئے گے، نبی کریم ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین سے
جب مصالحت کی تھی تو سیدنا علی صلی اللہ سے فرمایا:
اے
علی! لکھو: یہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ صلح کر رہے ہیں۔
یہ
سن کر مشرکین کہنے لگے: اگر ہم آپ کو رسول اللہ ﷺ مانتے تو پھر آپ سے جنگ کیوں
لڑتے، تب رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
اے
علی اسے مٹادو، اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اے علی! مٹا دو
اور لکھو: یہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ صلح کر رہے ہیں۔
(یہ دلیل بیان کرنے کے بعد سید نا عبد اللہ بن عباسؓ نے خوارج سے
فرمایا): اللہ کی قسم!
اللہ
کے رسول ﷺ سیدنا علی علیہ سے بہتر ہیں۔
پھر
آپ میں ہم نے خود ہی (محمد رسول اللہ سنی عالم کے لفظ کو مٹادیا) پس اس کا یہ مطلب
نہ تھا کہ آپ ﷺ نے خود کو نبوت سے مٹادیا ہے۔ بتاؤ کیا میں اس آخری شکایت سے بھی
نکل گیا (یعنی میں نے آپ کے آخری اعتراض کا مدلل جواب دے دیا)، انہوں نے کہا: جی
ہاں! پھر ان میں سے دو ہزار لوگ دوبارہ سیدنا مولا علیؑ کی جماعت میں واپس لوٹ
آئے، بقیہ نے انکار کر دیا، اپنی گمراہی پر انہوں نے قتال کیا اور مہاجرینؓ و
انصارؓ نے انھیں قتل کیا۔
(خصائص علی: صفحہ 195 رقم
190، صحیح علی شرط امام مسلمؒ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متن کے نقاط:
معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباسؓ نے جب
جنگ صفین کے بعد خوارج کا اختلاف دیکھا تو وہ خلیفہ راشد امیر المومنین سیدنا مولا
علی المرتضیؑ کی اجازت سے انکی طرف سے وکیل بن کر خوارج کی طرف گئے تاکہ انکے
اعتراضات جان سکیں اور مولا علیؑ کی طرف سے وکالت کرسکیں۔ چناچہ ان کے پوچھنے پہ
خوارج نے جو بنیادی تین اعتراضات بتائے کہ اگر وہ چیزیں نہ ہوتی تو انکا وجود بھی
نہ ہوتا، وہ اعتراضات ہم نقاط کی صورت میں درج کرتے ہیں:
1۔ انہوں نے غیر اللہ کے فیصلہ کو
تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ وہ حکم نہیں ہوسکتا، حکم صرف وہی ہے جو شریعت نے بتا
دیا لہزا باغیوں سے تحکیم کا معاملہ انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔
2۔ انہوں نے تحکیم کو غلط قرار دیا تو
پھر انہوں نے باغیوں سے قتال کے فیصلہ پہ بھی اعتراض کردیا کہ اگر ان سے قتال کیا
ہے تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتے لہزا انکا مال لوٹنا جائز ہے، اور اگر وہ مسلمان ہیں
تو نہ تو ان سے قتال جائز ہے اور ناہی انکا مال لوٹنا۔ لہزا مولا علیؑ کا باغیوں
سے جنگ انکا تحکیم کی وجہ سے انکے نزدیک جائز نہیں رہا۔
3۔ جب تحکیم کا صلح نامہ لکھا گیا تو
امیر شام یعنی باغیوں کی طرف سے یہ مطالبہ رکھا گیا کہ خلیفہ راشد مولا علی
المرتضیؑ کے نام کے ساتھ امیر المومنین کے لقب کو مٹا دیا جائے کیونکہ وہ باغی لوگ
انہیں اپنا امیر نہیں مانتے، لہزا مولا علی المرتضیؑ نے صلح حدیبیہ کی سنت رسول ﷺ
پہ عمل کرتے ہوئے مٹا دیا۔ اس بات نے بھی خوارج کو متنفر کیا کہ مولا علی المرتضیؑ
نے ایسا کیوں کیا؟ کیونکہ ایسا کرنے کی وجہ سے انہوں نے یہ سمجھا کہ مولا علیؑ نے
خود کو مسلمانوں کا امیر ماننے سے انکار کردیا ہے۔
لہزا اگر غور و تدبر سے دیکھا جائے تو
ان تینوں اعتراضات کی وجہ باغیوں کی بغاوت ہے، باغیوں نے بغاوت کی اور اسطرح کا
فتنہ پھیلایا کہ خلیفہ راشد کے ساتھ موجود اسکے لشکری بھی خلیفہ راشد سے متنفر
ہوگئے اور ایک نئے گروہ کی بنیاد رکھی۔ خوارج کے جتنے بھی اعتراضات ہیں ان سب کی
وجہ باغیوں کی بغاوت ہے۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باغی
گروہ امیر شام کا مولا علی المرتضیؑ کا خلیفہ راشد تو دور مسلمانوں کا امیر تک
نہیں مانتا تھا۔ لہزا عوام میں یہ جھوٹا پراپوگنڈا پھیلایا جارہا کہ امیر شام
خلافت راشدہ کو مانتا تھا۔ خود سیدنا عبد اللہ ابن عباسؓ نے خوارج کے اعتراض میں
اس کا جواب صلح حدیبیہ کی سنت نبوی ﷺ سے دیا کہ یہی معاملہ یہاں واقعہ ہوا ہے،
جسطرح کفار مکہ کے اعتراض سے رسول اللہ ﷺ کے نام کے ساتھ رسول اللہ کو مٹایا گیا
اسی طرح باغیوں کے اعتراض کی وجہ سے امیر المومنین مولا علی المرتضیؑ کے نام سے
بھی امیر المومنین کو مٹایا گیا۔ اس کی وجہ سے نہ تو آقا دوجہاں رسول اللہ ﷺ کی
نبوت پہ کوئی فرق پڑا اور ناہی انکے خلیفہ راشد امیر المومنین مولا علی المرتضی ﷺ
کی خلافت پہ کوئی فرق پڑا۔ لہزا یہ واضع دلیل بلکہ صحابیؓ کی گواہی ہے کہ امیر شام
کا باغی گروہ مولا علیؑ کو خلیفہ نہیں مانتے تھے اور خلافت کے منکر تھے۔
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مولا علی
المرتضیؑ نے باغیوں سے قتال کیا جیسا کہ قرآن پاک کا حکم تھا مگر انہیں قیدی
ولونڈی نہیں بنایا، جبکہ باغیوں کا عمل آپکو معلوم ہے، نیز یہ بھی کہ مولا علی
المرتضیؑ نے باغیوں کے مال بھی حفاظت کی اور اسے مال غنیمت نہیں بنایا۔
مزید یہ معلوم ہوا کہ مولا علی
المرتضیؑ کے ساتھی اور انکے فوجی تو باغیوں کا سفایا کرنے تک لڑ مرنے کو تیار تھے
مگر مولا علی المرتضیؑ نے انسانی جان کا احترام کرتے ہوئے تحکیم کا معاملہ قبول
کیا۔ یہ قربانی مولا علی المرتضیؑ نے دی کہ باغیوں کا مکمل سفایا کرکے وہ اپنی
اسلامی خلافت کو اس قسم کے فتنے سے ہمیشہ کیلیے محفوظ اور پاک بھی کرسکتے تھے اور
ریاست کے انتظامی امور پہ بھی پوری توجہ صرف کرسکتے تھے۔ مگر یہ قربانی دے کر مولا
علی المرتضیؑ نے انسان جان و مال کا وقار برقرار رکھا۔
مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ خوارج کے
سامنے جب سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ نے مولا علی المرتضیؑ کی شاندار وکالت کی اور
انکے تمام اعتراضات دور کردیے تو بہت سارے خوارج نے رجوع بھی کرلیا اور واپس خلیفہ
کی بیعت میں شامل ہوگئے اور جو باقی سرکش بچ گئے تو ان پہ چونکہ حجت تمام ہوچکی
تھی اور انکے تمام اعتراضات کا مفصل جواب انکو مل چکا تھا تو ان سے قتال کیا گیا۔
وہ قتال بھی فوری نہیں تھا بلکہ انکو پھر بھی مہلت دی گئی مگر جب انکی سرکشی حد سے
تجاوز کرگئی تو پھر خلافت راشدہ کیلیے اسکے بغیر چارہ نہیں رہا اور سيدنا مولا
علیؑ نے ان سے قتال کا حکم دے دیا تو مہاجرین وانصار صحابہ کرامؓ نے مولا علی
المرتضیؑ کے حکم پہ لبیک کہا اور باغی خوارج سے قتال کیا۔
لہزا
یہ روایت دلیل ہے کہ خوارج کے بنیادی اعتراضات کی بنیاد باغیوں کی بغاوت پہ مشتمل
ہے، لہزا خوارج کے متعلق یہ کہنا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ راشد کے ساتھی تھے
درست نہیں۔ کیونکہ:
1۔ جس وقت تک خوارج نے خروج نہیں کیا
تھا تب تک وہ خارجی بنے ہی نہیں تھے، لہزا جس وقت انہوں نے جو کام کیا ہی نہیں تو
اسکا انہیں الزام دینا ویسے ہی مردود ہے جیسے آپ ایک بچے کے پیدا ہونے سے متعلق آپ
یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ پیدا ہوکر ایسا کرے گا۔ پہلے اسے پیدا تو ہونے دیں۔
2۔ جس وقت خوارج نے خروج کردیا اور ان
تین اعتراضات کو بنیاد بنا کر سرکشی کی تو اس وقت تو وہ مولا علی المرتضیؑ کے
ساتھی رہے ہی نہیں بلکہ ان سے علیحدہ ہوگئے اور باغیوں کے اعمال کی وجہ سے
اعتراضات اٹھا کر انہی پہ کردیے، بلکل اسی طرح جسطرح غزوہ احد میں منافقین نے اپنا
دستہ علیحدہ کرلیا تھا۔ لہزا خارجیوں کو اس وجہ سے بھی مولا علی المرتضیؑ کا ساتھی
کہنا رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ پہ جھوٹ اور تہمت ہے۔
پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا مولا
علی المرتضیؑ کے ساتھ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی کثیر تعداد موجود تھی، جنہوں
نے تمام باغیوں سے قتال کیا۔ لہزا رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ راشد مولا علی المرتضیؑ کے
متعلق یہ تہمت بازی کرنا کہ صحابہ کرامؓ نے انکا ساتھ نہیں دیا تو یہ جھوٹ ہے،
اسکی کوئی حقیقت نہیں۔ بھلا رسول اللہ ﷺ کے جس خلیفہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ
کرامؓ نہ ہوں تو وہ شخص بھلا خلیفہ ہو کیسے سکتا ہے؟ اگر ساتھ تھے تو پھر خلیفہ کا
ساتھ دینا ان پہ واجب تھا، جنہوں نے بیعت ہی نہیں کی مثلا حضرت ابن عمر وغیرہ تو وہ
لوگ خود آخری عمر میں پچھتاتے رہے، نیز کچھ شرعی عضر کے باعث بھی رہ گئے۔ تو نواصب
کی یہ تہمت بازی جائز نہیں کیونکہ صحابہ کرامؓ تو شرعی عضر کی بنا پہ اور بغیر عضر
کے بھی غزوات میں بھی بعض اوقات شرکت نہیں کرتے تھے تو کیا پھر وہاں بھی یہی اصول
لوگو ہوگا جو رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ کے متعلق نواصب کا شیوہ ہے؟
لہزا
سیدنا ابن عباسؓ خوارج کے پاس جاتے ہیں تو جاکر کہتے ہیں کہ:
(میں مہاجرین وانصار صحابہؓ، آپ ﷺ کے
چچا زاد بھائی اور نبی کریم ﷺ کے داماد کے پاس سے آرہا ہوں)
سیدنا ابن عباسؓ یہ فرمان اس بات پہ
واضع دلیل ہے کہ مولا علی المرتضیؑ کے ساتھ خوارج کے خروج سے پہلے بھی مہاجرین
وانصار سابقون الاوالون صحابہ کرامؓ کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اور اسی طرح
انہی مہاجرین وانصار صحابہ کرامؓ نے اپنے خلیفہ راشد مولا علی المرتضیؑ کے ساتھ مل
کر خوارج کے ساتھ قتال کیا۔ جیسا کہ سیدنا ابن عباسؓ کا ہی فرمان ہے کہ:
(مہاجرینؓ و انصارؓ نے انھیں قتل کیا۔)
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کا فرمان کہ:
(پھر ان میں سے دو ہزار لوگ دوبارہ
سیدنا علیؑ کی جماعت میں واپس لوٹ آئے)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن خوارج
کی بڑی تعداد نے رجوع کیا وہ پھر اسی لشکرِ علی میں تھے جن کو بہترین گروہ کہا گیا
اور ایسے اجر کی بشارت دی گئی کہ انسان خود کو عمل سے بے نیاز سمجھنے لگے۔۔۔
(صحیح مسلم: رقم 2467 و
2465)
مزید معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباسؓ
مولا علی المرتضیؑ کے جانثار ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ انکے لیے شاندار وکیل بھی
تھے اور مولا علی المرتضیؑ کا کمال عمدہ دفاع کیا کرتے تھے کہ اس جیسی مثال ہی
شاید کوئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سند کے رواۃ کی تحقیق:
1۔ امام علی بن عمرو الفلاس:
آپ ثقہ ثبت حافظ ہیں۔ آپ امام علی بن
مدینیؒ کے پائے کے حفاظ حدیث میں سے تھے۔ اور آپکا شمار نقاد حدیث میں سے ہوتا ہے۔
آپ نے علل پہ ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جو مفقود ہے۔
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 11 صفحہ 470 رقم 121)
(تهذيب الكمال في أسماء
الرجال: جلد 22 صفحہ 162 رقم 4416)
(طبقات علماء الحديث: جلد 2
صفحہ 152 رقم 471)
(تهذيب التهذيب: جلد 8 صفحہ
80 رقم 120)
2۔ امام عبد الرحمن بن مهدي العنبري:
آپ بھی ثقہ ثبت ناقد امام فی الحدیث
ہیں۔ امام سفیان الثوری کے اثبت اصحاب میں سے ہیں۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں
نے ان جیسا دنیا میں کوئی نہیں دیکھا۔
(تهذيب الكمال في أسماء
الرجال: جلد 17 صفحہ 430 رقم 3969)
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: جلد 9 صفحہ 192 رقم 56)
(تهذيب التهذيب: جلد 6 صفحہ
279 رقم 552)
3۔ امام عكرمة بن عمار العجلی:
آپ ثقہ صدوق ہیں، آپ کو یحیی بن ابی
کثیر سے روایت کرتے ہوئے اضطراب ہوتا تھا کیونکہ آپکے پاس انکی کتب نہیں تھی۔ جب
کے دیگر رواۃ سے انکی روایات صحیح اور مستقیم ہیں۔ ان پہ تدلیس کا بھی الزام ہے
مگر اس روایت میں انہوں نے سماع کی تصریح کردی ہے۔ ان پہ ہم نے ایک مفصل تحریر
لکھی ہے، احباب اسکا مطالعہ کریں:
﴿راوی حدیث: عكرمة بن عمار العجلي البصری التابعي﴾
4۔ ابو زمیل سماك بن الوليد:
آپ تابعی ہیں اور حنفی ہیں، آپ سیدنا
ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں، آپکو امام یحیی ابن معین، امام احمد بن حنبل، امام
عجلی، امام ابن حبان، امام ابو ذرعہ، امام ابن خلفون وغیرہ نے ثقہ کہا ہے، یہاں تک
کہ امام ابن عبد البرؒ نے کہا ہے کہ: اس بات پہ اجماع ہے کہ آپ ثقہ ہیں۔
(إكمال تهذيب الكمال - ط
العلمية: جلد 3 صفحہ 506 رقم 2410)
(تهذيب الكمال في أسماء
الرجال: جلد 12 صفحہ 127 رقم 2583)
(تهذيب التهذيب: جلد 4 صفحہ
235 رقم 409)
لہزا معلوم ہوا کہ یہ سند امام مسلم
کی شرائط پہ صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئمہ اور محققین کی اس روایت پہ تحکیم:
1۔ خصائص علی کی تحکیم میں شیخ ابو
اسحاق الحوینی اسے صحیح الاسناد قرار دیتے ہیں:
(تھذیب خصائص الامام علی:
صفحہ 133 رقم 182)
2۔ شيخ احمد ميرين البوشی بھی خصائص
علی کی تحکیم میں اسے حسن قرار دیتے ہیں۔
(خصائص امیر المومنین علی
بن ابی طالبؓ: صفحہ 200 رقم 190)
3۔ امام ابو عبد اللہ الحاکمؒ: صحیح
مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں۔
4۔ امام شمس الدین الذھبیؒ: امام حاکم
کی تاعید کرتے ہوئے صحیح مسلم کی شرط پہ قرار دیتے ہیں۔
(المستدرك على الصحيحين
للحاكم - ط العلمية: جلد 2 صفحہ 164 رقم 2656)
5۔ امام ابن تیمیہؒ: اسکی اسناد صحیح
قرار دیتے ہیں:
(منهاج السنة النبوية: جلد
8 صفحہ 530)
6۔ امام ضیاء الدین المقدسیؒ: بخاری و
مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں:
(الأحاديث المختارة: جلد 10
صفحہ 413 رقم 437)
(الأحاديث المختارة: جلد 10
صفحہ 412 رقم 435)
7۔ دکتور عبد الملک بن عبد اللہ بن
دھیش اس کی اسناد کو حسن قرار دیتے ہیں:
(الأحاديث المختارة: جلد 10
صفحہ 413 رقم 437)
8۔ شیخ شعیب الارنوؤط الحنفی مسند
احمد کی تحکیم میں اسکی اسناد کو حسن قرار دیتے ہیں:
(مسند أحمد - ط الرسالة:
جلد 5 صفحہ 263 رقم 3187)
اور سنن ابو داؤد کی تحکیم میں اسناد
کو قوی قرار دیتے ہیں:
(سنن أبي داود - ت
الأرنؤوط: جلد 6 صفحہ 149 رقم 4037)
9۔ شیخ احمد محمد شاکر مسند احمد کی
تحکیم میں اسکی اسناد کو صحیح قرار دیتے ہیں:
(مسند أحمد - ت شاكر - ط
دار الحديث: جلد 3 صفحہ 270 رقم 3187)
10۔ شیخ ناصر الدین البانیؒ اسے حسن
قرار دیتے ہیں:
(صحيح سنن ابو داؤد: جلد 2
صفحہ 505 رقم 4037)
11۔ شیخ عبد القادر الارنؤوط اسکی
اسناد کو حسن قرار دیتے ہیں:
(جامع الأصول في أحاديث
الرسول: جلد 10 صفحہ 665 رقم 8301)
12۔ شیخ ابو الاشبال الزہیری بھی اسے
حسن قرار دیتے ہیں:
(جامع بيان العلم وفضله:
جلد 2 صفحہ 962 رقم 1834)
13۔ شیخ ابو عبد اللہ الدانی اسے حسن
قرار دیتے ہیں:
(سلسلة الآثار الصحيحة أو
الصحيح المسند من أقوال الصحابة والتابعين: جلد 1 صفحہ 297 رقم 308)
14۔ غلام مصطفی ظہیر امن پوری بھی
اسکی اسناد کو حسن کہتا ہے:
(خصائص علی مترجم: رقم 190)
15۔ شیخ یوسف بن جودۃ الداودی اسے
مسند احمد کی سند سے نقل کرکے صحیح مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں:
(الجامع الصحيح فيما كان
على شرط الشيخين أو أحدهما ولم يخرجاه: جلد 2 صفحہ 342 رقم 564)
16۔ شیخ محمد ابو الھدی الیعقوبی سنن
ابو داؤد کی روایت پہ صحیح کا حکم لگاتے ہیں:
(شمائل الحبيب المصطفى:
صفحہ 68 رقم 112)
17۔ شیخ زبیر علی زئیؒ سنن ابو داؤد
کی تحکیم میں اسے صحیح قرار دیتے ہیں اور امام بیہقیؒ کی سند کو حسن قرار دیتے
ہیں۔
18۔ شيخ مقبل بن ہادی الوادعی
(المتوفی 1422ھ): سنن ابو داؤد کی سند کو امام مسلم کی شرط پہ حسن قرار دیتے ہیں:
(الجامع الصحيح مما ليس في
الصحيحين: جلد 4 صفحہ 311 و 312 رقم 2795)
اور امام نسائی کی خصائص علی کی روایت
پہ حسن کا حکم لگاتے ہیں:
(الجامع الصحيح مما ليس في
الصحيحين: جلد 4 صفحہ 605 رقم 3198)
19۔ شيخ مصطفی العدوی حفظہ اللہ اسکو
حسن قرار دیتے ہیں:
(مفاتيح للفقه في الدين:
الجزء الاول والثاني:صفحه 40)
20۔ عبد الملك بن عبدالله بن دهیش نے
بھی حسن قرار دیا ہے۔
(الأحاديث المختارة
للمقدسي: الجزء العاشر: صفحہ 413 رقم 437)
21۔ امام نور الدین ھیثمیؒ اسکے رجال
کو صحیح کے رجال قرار دیتے ہیں:
(مجمع الزوائد ومنبع
الفوائد: جلد 6 صفحہ 239 رقم 10450)
یہ ہم نے مختصرا آئمہ اور علماء کی
فہرست دکھائی ہے جنہوں نے اس روایت کی تحسین کی ہے اور اسکو قبول کیا ہے۔ لہزا
معلوم ہوا کہ متقدمین سے لیکر متاخرین تک اور یہاں تک کہ معاصرین بھی اس روایت سے
حجت لیتے ہیں اور اس کے ثابت ہونے میں کوئی زرہ برابر بھی اختلاف نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج:
⬟
اس روایت کو امام عبد الرزاقؒ اپنی مصنف میں عکرمہ بن
عمارؒ سے روایت کرتے ہیں، جو اس کی سند کو مزید اعلی بناتا ہے۔
(المصنف عبد الرزاق - ت
الأعظمي: جلد 10 صفحہ 157 رقم 18678)
⭠
امام عبد الرزاقؒ کی ہی سند سے اسے امام ابو نعیم
الاصبہانیؒ (المتوفی 430ھ) روایت کرتے ہیں:
(حلية الأولياء وطبقات
الأصفياء - ط السعادة: جلد 1 صفحہ 318)
⭠
امام ابو نعیمؒ کے حوالے سے اس روایت کو امام ابن
تیمیہؒ (المتوفی 728ھ) نقل کرتے ہیں اور اسکی اسناد کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
(منهاج السنة النبوية: جلد
8 صفحہ 530)
⭠
امام ضیاء الدین المقدسیؒ (المتوفی 643ھ) اسے بخاری و
مسلم کی شرائط پہ صحیح قرار دیتے ہوئے امام عبد الرزاق کی سند سے نقل کرتے ہیں:
(الأحاديث المختارة: جلد 10
صفحہ 413 رقم 437)
⬟
امام ابن طرار المعافی بن زکریا الجریریؒ (المتوفی
390ھ) اسے روایت کرتے ہیں:
(الجليس الصالح الكافي
والأنيس الناصح الشافي: صفحہ 181)
⬟
امام احمد بن حنبلؒ اپنی مسند کے اندر اسے مختصرا روایت
کرتے ہیں:
(مسند أحمد - ط الرسالة:
جلد 5 صفحہ 263 رقم 3187)
⭠
امام احمد بن محمد المکی الخوارزمیؒ (المتوفی 568ھ):
(کتاب المناقب للخوارزمی:
صفحہ 260 رقم 244)
⭠
امام ابن عساکرؒ (المتوفی 571ھ) اسے اپنی سے روایت کرتے
ہیں:
(تاريخ دمشق لابن عساكر:
جلد 42 صفحہ 463)
⬟
امام ابو القاسم الطبرانیؒ (المتوفی 360ھ) اس روایت کو
اپنی المعجم میں روایت کرتے ہیں:
(المعجم الكبير للطبراني:
جلد 10 صفحہ 257 رقم 10598)
⭠
امام طبرانیؒ کے حوالے سے اسے امام ضیاء الدین المقدسیؒ
(المتوفی 643ھ) نقل کرتے ہیں:
(الأحاديث المختارة: جلد 10
صفحہ 412 رقم 435)
⬟
امام ابو عبد اللہ الحاکمؒ اس روایت کو اپنی المستدرک
میں نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روایت امام مسلم کی شرط پہ صحیح ہے مگر انہوں
نے اسے درج نہیں کیا۔ امام ذھبیؒ بھی امام حاکم کی تاعید کرتے ہوئے اسے صحیح مسلم
کی شرط پہ قرار دیتے ہیں:
(المستدرك على الصحيحين للحاكم
- ط العلمية: جلد 2 صفحہ 164 رقم 2656)
⬟
امام ابو عبید القاسم بن سلام البغدادیؒ (المتوفی 224ھ)
بھی اس روایت کو نقل کرتے ہیں:
(كتاب الأموال: جلد 209 رقم
444)
⬟
امام ابو القاسم اسماعیل الاصبہانی (المتوفی 535ھ) بھی
نقل کرتے ہیں:
(سير السلف الصالحين: جلد 2
صفحہ 485)
⭠
امام نور الدین الھیثمیؒ (المتوفی 807ھ) اس روایت کو
امام طبرانی اور امام احمد بن حنبلؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں اور اسکے رجال کو
صحیح کے رجال قرار دیتے ہیں:
(مجمع الزوائد ومنبع
الفوائد: جلد 6 صفحہ 239 رقم 10450)
⬟
امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقیؒ (المتوفی 458ھ):
(السنن الكبرى - البيهقي -
ت التركي: جلد 17 صفحہ 40 رقم 16819)
⬟
امام يعقوب بن سفيان الفسویؒ (المتوفی 277ھ):
(المعرفة والتاريخ - ت
العمري - ط العراق: جلد 1 صفحہ 522)
⬟
امام ابن زنجویہؒ (المتوفی 251ھ):
(الأموال لابن زنجويه: جلد
1 صفحہ 396 رقم 655)
⬟
امام جمال الدین ابو الفرج ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ)
اس روایت کو بطور حجت نقل کرتے ہیں:
(تلبيس إبليس: صفحہ 82، 83،
84)
(المنتظم في تاريخ الملوك
والأمم: جلد 5 صفحہ 124)
⬟
امام ابو داود السجستانیؒ (المتوفی 275ھ):
(سنن أبي داود - ت
الأرنؤوط: جلد 6 صفحہ 149 رقم 4037)
⭠
امام ابو داؤد کے حوالے سے اس روایت کو امام ابن اثیرؒ
(المتوفی 606ھ) نقل کرتے ہیں:
(جامع الأصول في أحاديث
الرسول: جلد 10 صفحہ 665 رقم 8301)
⬟
امام جمال الدین الزیعلیؒ الحنفی (المتوفی 762ھ):
(نصب الراية: جلد 3 صفحہ
461)
⬟
امام جلال الدین السیوطیؒ (المتوفی 911ھ):
(الدر المنثور في التفسير
بالمأثور: جلد 2 صفحہ 527)
⬟
امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ):
(المهذب في اختصار السنن
الكبير: جلد 6 صفحہ 3291 رقم 12996)
⬟
امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوففی 852ھ):
(التلخيص الحبير - ط
العلمية: جلد 4 صفحہ 132)
⬟
امام ابن کثیر الدمشقیؒ (المتوفی 774ھ):
(تفسير ابن كثير - ط
العلمية: جلد 7 صفحہ 331)
⬟
اس روايت كو امام ابن عبد البرؒ (المتوفی 463ھ) اپنی
سند سے روایت کرتے ہیں:
(جامع بيان العلم وفضله:
جلد 2 صفحہ 962 رقم 1834)
⬟
امام محب الدین احمد بن عبد اللہ الطبری (المتوفی 694):
(ذخائر العقبى في مناقب ذوي
القربى: صفحہ 231)
(الرياض النضرة في مناقب
العشرة: جلد 3 صفحہ 226)
⬟
امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ) اس روایت کو
سیدنا مولا علیؑ کی سیرت میں نقل کرتے ہیں:
(سير أعلام النبلاء - ط
الرسالة: سيرة أبي الحسنين علي رضي الله عنه:صفحہ 280)
⬟
شیخ ابو عبد اللہ الدانی اسے سلسلۃ الاثار صحیحہ میں
تخریج کرتے ہیں:
(سلسلة الآثار الصحيحة أو
الصحيح المسند من أقوال الصحابة والتابعين: جلد 1 صفحہ 297 رقم 308)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر و تحقیق: ابو الحسنین ڈاکٹر شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment