حضرت معاویہ کو پھوڑا نکلنے والی روایت کی حقیقت
﴿حضرت معاویہ کو
پھوڑا نکلنے والی روایت کی حقیقت﴾
امام ابن ابی دنیاؒ (المتوفی
281ھ) لکھتے ہیں:
وحدثني إسماعيل، حدثنا
زكريا بن عدي، عن القاسم بن مالك المزني، عن طلحة بن يحيى، عن أبي بردة، قال: كنت
عند معاوية وطبيب يعالج قرحة في ظهره فهو يتضور فقلت له: لو بعض شبابنا فعل هذا لعتبنا
عليه، فقال: ما يسرني أني لا أجده سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من
مسلم يصيبه أذى في جسده إلا كان كفارة لخطاياه»
جلیل القدر تابعی امام
ابی بردہ بن ابی موسی الاشعریؒ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں:
میں حضرت معاویہ کے پاس
تھا اور ایک طبیب انکی پیٹھ پہ ایک پھوڑے کا علاج کررہا تھا جس سے وہ بلبلا رہے تھے،
میں نے ان سے کہا: اگر ہمارے کچھ نوجوان ایسا کرتے تھے ہم انہیں اس پہ ملامت کرتے،
تو انہوں نے کہا: میں اسے پسند نہیں کرتا کہ اسے محسوس نہ کروں، میں نے رسول اللہ ﷺ
کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: کسی مسلمان کو اس کے جسم میں کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے تو
وہ اسکے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔
(المرض
والكفارات: صفحہ 133 رقم 161 واسنادہ صحیح)
محدث العصر شیخ ناصر الدین
البانیؒ اس روایت کو حسن صحیح قرار دیتے ہیں (صحيح الترغيب والترهيب: جلد 3 صفحہ 333 رقم
3412)
اسی روایت کو امام حاکمؒ
نے اپنی کتاب المستدرک میں اختصار سے روایت کیا ہے اور کہتے ہیں:
هذا حديث صحيح على شرط
الشيخين، ولم يخرجاه
یہ حدیث شیخین (امام بخاری
و مسلم) کی شرط پہ صحیح ہے مگر انہوں نے اسے درج نہیں کیا۔
(المستدرك
على الصحيحين للحاكم - ط العلمية: جلد 1 صفحہ 498 رقم 1285)
اسی طرح امام احمد بن
حنبلؒ اپنی مسند میں اسے اختصار سے روایت کرتے ہیں تو شیخ شعیب الارنوؤط اسے امام مسلم
کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں (مسند أحمد - ط الرسالة: جلد 28 صفحہ 107 رقم 16899)
شیخ مصطفی العدوی بھی
اس اختصار شدہ روایت کو صحیح لغیرہ قرار دیتے ہیں (المنتخب من مسند عبد بن حميد ت مصطفى العدوي: جلد
1 صفحہ 335)
امام نور الدین الھیثمیؒ
(المتوفی 802ھ) اس روایت کے متعلق کہتے ہیں:
رواه أحمد والطبراني في
الكبير والأوسط، وفيه قصة، ورجال أحمد رجال الصحيح
اسے امام احمد بن حنبلؒ
نے اور امام طبرانیؒ نے معجم الکبیر اور معجم الاوسط میں روایت کیا ہے، اور اس میں
ایک قصہ ہے، اور امام احمد بن حنبلؒ (کی روایت) کے رجال صحیح کے ہیں۔
(مجمع
الزوائد ومنبع الفوائد: جلد 2 صفحہ 301 رقم 3790)
معلوم ہوا کہ امام ھیثمیؒ
کے نزدیک بھی یہ روایت اس قصے سمیت صحیح ہے۔ اسطرح مزید بہت سارے علماء کی تصحیح نقل
کی جاسکتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ روایت بلکل صحیح و ثابت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت سے جو استدلال
کیا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ کو دبیلہ پھوڑا نکلا تھا لہزا وہ منافق ہیں (معاذ اللہ)،
یہ بات درست نہیں کیونکہ اول تو حضرت معاویہ کو یہ پھوڑا جو نکلا تھا یہ واقعی دبیلا
پھوڑا ہی تھا؟ اسکی تصریح موجود نہیں، چونکہ دبیلا پھوڑا بھی پیٹھ پہ نکلتا یہ بھی
پیٹھ پہ نکلا تھا اور بہت زیادہ تکلیف دہ تھا کہ حضرت معاویہ بلبلانے لگے تو اسکا یہ
مطلب نہیں کہ وہ منافق تھے جیسا کہ روافض اور بعض جہلاء کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک بیماری
ہے جو کسی کو بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے منافقین کی نشانی یہ بتائی تھی ناکہ
یہ بتایا تھا کہ ہر شخص جسے اس قسم کا پھوڑا نکلے تو وہ منافق ہی ہے۔ مزید یہکہ سیدنا
ابو موسی الاشعریؓ کے صاحبزارے تابعی امام ابو بردہؒ نے خود اپنی آنکھوں سے اسکو دیکھا
اور اسکی تکلیف کو بھی تو انہوں نے حضرت معاویہؓ پہ نفاق کا اطلاق کیوں نہیں کیا اگر
اسکا اطلاق بنتا ہے بقول روافض اور جہلاء کے؟ بالفرض ڈر کے باعث نہیں کیا تو بعد میں
یہ قصہ بیان کرتے ہوئے کر دیتے، تب تو کوئی ڈر نہیں تھا، جب کہ وہ تو ان سے حدیث بیان
کرتے اور انکی بیماری کا ذکر کرتے تھے۔
اسکے علاوہ اس روایت کا
بھی جائزہ ہم لے لیتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر حضرت جناب معاویہ پہ یہ طعن کیا جاتا
ہے۔
امام مسلمؒ (المتوفی
261ھ) روایت کرتے ہیں:
حدثنا محمد بن المثنى
، ومحمد بن بشار واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة
، عن ابي نضرة ، عن قيس بن عباد ، قال: قلنا لعمار : ارايت قتالكم ارايا رايتموه فإن
الراي يخطئ ويصيب او عهدا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال: ما عهد
إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، وقال: إن رسول الله
صلى الله عليه وسلم، قال: إن في امتي، قال شعبة: واحسبه، قال: حدثني حذيفة ، وقال غندر:
اراه قال: " في امتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها حتى يلج
الجمل في سم الخياط، ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة سراج من النار يظهر في اكتافهم حتى
ينجم من صدورهم ".
قیس بن عباد رحمۃ اللہ
علیہ بیان کرتے ہیں ہم نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، لڑائی میں
حصہ لینے کے بارے میں بتائیں، کیا یہ تمھاری سوچ تھی، جو تم نے سوچی؟کیونکہ رائے خطا
بھی ہو سکتی ہے اور راست بھی،یا یہ تلقین تھی جو تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے کی تھی؟تو انھوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی ایسی چیز کی
تلقین نہیں کی، جس کی تلقین سب لوگوں کو نہ کی ہو، اور کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:"میری امت میں۔"شعبہ کہتے ہیں میرا خیال ہے حضرت عمار رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، مجھے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا غندر کہتے ہیں
میرا خیال ہے، آپ نے فرمایا: "میری امت میں بارہ منافق ایسے ہیں جو جنت میں داخل
نہیں ہوں گے اور نہ اس کی مہک محسوس کریں گے۔حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہو
جائے۔ ان میں سے آٹھ کے لیے دبیلہ کافی ہو گا۔" یعنی آگ کا چراغ جو ان کے کندھوں
میں ظاہر ہو گا حتی کہ ان کے سینوں میں پھوٹے گا۔ یعنی سینوں سے نکلے گا۔"
(صحیح
مسلم: رقم 7036)
اس سے معلوم ہوا کہ ان
منافقین میں سے سب کو تو دبیلہ پھوڑا نہیں نکلا جو انکی موت کا سبب بنتا، آٹھ کے متعلق
رسول اللہ ﷺ نے یہ نشانی بتائی ہے لہزا معلوم ہوا کہ تمام منافقین کیلیے دبیلہ پھوڑا
نکلنا شرط نہیں، اسی طرح اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ یہ دبیلہ پھوڑا
ان کیلیے کافی ہوجائے گا یعنی انکی موت کا سامان ہوگا مگر جو روایت حضرت معاویہ کے
متعلق ہے تو اس میں تو انکی وفات کا کوئی ذکر موجود نہیں بلکہ الٹا علاج کا ذکر موجود
ہے، لہزا رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی یہاں صادر نہیں آتی، اور اسکے علاوہ بھی ہمیں کوئی
صحیح روایت معلوم نہیں جس میں یہ ذکر موجود ہو کہ حضرت معاویہ کی وفات دبیلہ پھوڑے
سے ہوئی۔ مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے متعلق وہ دبیلہ پھوڑا آگ کا انگارہ ہوگا
جبکہ حضرت معاویہ تو اس تکلیف کو پسند کررہے ہیں اور انکے لیے باعث مسرت ہے، لہزا یہ
آگ کا انگارہ تو نہیں ہوا۔ ایک مزید چیز واضع ہوگئی جو حضرت معاویہ کے قصے پہ صادر
نہیں آتی۔
اسکے علاوہ بارہ میں سے
آٹھ منافقین کی دبیلہ پھوڑے والی نشانی کے راوی سیدنا حذیفہ بن یمانؓ ہیں اور آپ رضی
اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے ان منافقین کے نام تک بتائے تھے، جیسا کہ متعدد احادیث
و آثار سے ثابت ہے، لہزا حضرت معاویہ سیدنا عمرؓ کی خلافت کے آخری دور میں گورنر رہے
اور اسی طرح سیدنا عثمانؓ کی پوری خلافت میں مزید توسیع کے ساتھ پورے شام کے گورنر
قائم رہے تو سیدنا حذیفہ بن یمانؓ نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسکے باوجود امت
کو اسکے متعلق کوئی تنبیح نہیں کی لہزا یہ چیز بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اس بنیاد
پہ منافق کہنا سراسر غلط ہے۔
لہزا واضع ہوا کہ حضرت معاویہؓ کے
متعلق اس روایت سے روافض اور جہلاء کا احتجاج درست نہیں۔
اس روایت میں صرف اتنا
ذکر موجود ہے کہ انکو ایک پھوڑا نکلا تھا جس کی وجہ سے وہ تکلیف میں تھے اور طبیب انکا
علاج کررہا تھا اور حضرت معاویہ اس تکلیف کو پسند کررہے تھے تاکہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان
کے مطابق انکے گناہ وغیرہ معاف ہوسکیں۔ اس سے زیادہ اس روایت سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔
اللہ ہم سب کو حق بات
کہنے اور حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ھذا ما عندی، واللہ اعلم
بالصواب۔
والسلام: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment