فقہ حنفی کی امامت کی شرائط
﴿فقہ حنفی کی
امامت کی شرائط: فقہ کا احتیاط یا شریعت میں من گھڑت فاسد اضافہ﴾
ہمیں یہ چیز اکثر
دیکھنے کو ملتی ہے کہ جب کوئی شخص کسی بدعتی گروہ سے یا کسی فرقے سے منسلک ہوتا ہے
تو پھر وہ اس فرقےاور بدعتی گروہ کی بعض اچھی چیزوں کے ساتھ ساتھ باقی تمام بری
اور فاسد چیزیں بھی قبول کرلیتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ فقہ حنفی کی امامت کی شرائط کے
متعلق بھی ہے کہ فقہ حنفی کے متاخرین نے من گھڑت اور فاسد ترین شرائط کا اضافہ
کردیا، اب انکے مقلدین کو اسکا عقلی و منطقی جواز پیش کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ اس لیے
ہے کہ فقہاء نے احتیاط کی ہے، حالانکہ شریعت اس معاملے میں اپنی حجت تمام کرچکی ہے
اور اسکے بعد اس میں کسی قسم کے اضافے کی گنجائش نہیں، بہرحال ملاحظہ کریں فقہاء
کا احتیاط:
امام علاء الدین محمد
بن علی الحنفی الحصکفیؒ (المتوفی 1088ھ) لکھتے ہیں:
(والاحق بالامامة)
تقديما بل نصبا.
مجمع الانهر (الاعلم
بأحكام الصلاة) فقط صحة
وفسادا بشرط اجتنابه
للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الاحسن تلاوة) وتجويدا
(للقراءة، ثم الاورع) أي الاكثر اتقاء للشبهات.
والتقوى: اتقاء
المحرمات (ثم الاسن) أي الاقدم إسلاما، فيقدم شاب على شيخ أسلم، وقالوا: يقدم
الاقدم ورعا، وفي النهر عن الزاد: وعليه يقاس سائر الخصال، فيقال يقدم أقدمهم علما
ونحوه،
وحينئذ فقلما يحتاج
للقرعة (ثم الاحسن خلقا) بالضم ألفة بالناس (ثم الاحسن وجها) أي أكثرهم تهجدا، زاد
في الزاد: ثم أصبحهم: أي أسمحهم وجها،
ثم أكثرهم حسبا (ثم
الاشرف نسبا) زاد في البرهان: ثم الاحسن صوتا، وفي الاشباه قبيل ثمن المثل، ثم الاحسن
زوجة، ثم الاكثر مالا، ثم الاكثر جاها، ثم الانظف ثوبا، ثم الاكبر رأسا والاصغر
عضوا، ثم المقيم على المسافر، ثم الحر الاصلي على العتيق، ثم المتيمم عن حدث على
المتيمم عن جنابة
فائدة: لا يقدم أحد
في التزاحم إلا بمرجح، ومنه السبق إلى الدرس والافتاء والدعوى، فإن استووا في
المجئ أقرع بينهم۔
امامت کا زیادہ
حقدار: مقدم اور مقرر کرنے "مجمع الانھر"۔ جو نماز کے احکام سب سے زیادہ
جانتا ہو، صرف صحت اور فساد کے لحاظ سے، بشرطیہکہ ظاہری برائیوں سے اجتناب کرتا
ہو، اور (قرآن) فرض کی مقدار جتنا حفظ ہو، اور بعض نے کہا واجب (کی مقدار)، اور
بعض نے کہا سنت (کی مقدار)۔ پھر وہ جو جسکی تلاوت اچھی ہو، اور اسکی قرائت میں
تجوید ہو، پھر وہ جو پرہیز گار ہو یعنی شبہات سے زیادہ بچنے والا ہو، اور تقوی سے
مراد محرمات سے بچنا ہے، پھر جو عمر میں بڑا ہو یعنی اسلام میں مقدم ہو، پس ایک
نوجوان کو بعد میں اسلام لانے والے بوڑھے پہ ترجیح دی جائے گی، اور کہا گیا: کہ
زیادہ پرہیز گار کو مقدم کیا جائے گا، اور "النہر" میں
"الزاد" سے ہے کہ: اسی پہ دیگر تمام خصال کو قیاس کیا جائے گا اور کہا
گیا: جو علم میں مقدم ہو تو اسے مقدم کیا جائے گا اور اسی طرح سے دیگر۔ اور اس صورت
میں قرعہ اندازی کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر جو خوبصورت اخلاق والا ہو، یعنی جو لوگوں
سے الفت رکھنے والا ہو، پھر وہ جو خوبصورت چہرے والا ہو، یعنی سب سے زیادہ تہجد
گزار ہو، "الزاید" میں مزید ذکر ہے کہ: پھر وہ سب سے زیادہ خوش چہرے
والا ہو، یعنی جسکے چہرے پہ نرمی ہو، پھر وہ جو حسب میں زیادہ ہو، پھر وہ جو نسب
میں زیادہ شرف والا ہو۔ "البرھان" میں مزید ہے کہ: پھر وہ جو خوبصورت
آواز والا ہو، اور "الاشباہ" میں ثمن المثل سے قبل ہے کہ: پھر وہ جسکی
بیوی خوبصورت ہو، پھر وہ جو زیادہ مالدار ہو، پھر وہ جو زیادہ معزز ہو، پھر وہ جو
زیادہ صاف لباس والا ہو، پھر وہ جس کا سر بڑا ہو اور عضو چھوٹا ہو، پھر مسافر پہ
مقیم (مقدم) ہوگا، پھر اصلا آزاد شخص آزاد کردہ غلام پہ مقدم ہوگا، پھر حدث کی وجہ
سے تیمم کرنے والا جنابت کی وجہ سے تیمم کرنے والے پہ مقدم ہوگا۔
فائدہ: بھیڑ میں کوئی
کو مقدم نہیں کیا جائے گا سوائے ترجیح کے ساتھ، اور اس میں درس، فتوی اور دعوی میں
سبقت شامل ہے، اور اگر وہ اس میں برابر ہو تو انکے درمیان قرعہ اندازی کی جائے۔
(الدر
المختار: صفحہ 76)
امام ابن عابدین
الشامیؒ (المتوفی 1252ھ) لکھتے ہیں:
(قوله ثم الأحسن زوجة)
لأنه غالبا يكون أحب لها وأعف لعدم تعلقه بغيرها. وهذا مما يعلم بين الأصحاب أو
الأرحام أو الجيران، إذ ليس المراد أن يذكر كل منهم أوصاف زوجته حتى يعلم من هو
أحسن زوجة
قول کہ پھر وہ جسکی
بیوی خوبصورت ہو، اس لیے کہ غالبا وہ اپنی بیوی سے زیادہ محبت کرتا ہے اور پاکدامن
ہوتا ہے کیونکہ وہ اسکے علاوہ اسکا کسی اور سے تعلق نہیں ہوتا، اور یہ چیز دوستوں،
رشتے داروں اور پڑوسیوں سے معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں
سے ہر ایک اپنی بیوی کے اوصاف بیان کرے تاکہ معلوم ہو کہ کس کی بیوی زیادہ خوبصورت
ہے۔
(حاشية ابن
عابدين: جلد 1 صفحہ 558)
یعنی نتیجہ اخذ ہوا
کہ اس شخص کو فقہاء احناف ترجیح دیں گے جسکی بیوی خوبصورت ہو کیونکہ غالب گمان یہی
ہے کہ خوبصورت بیوی کی وجہ سے وہ کسی اور سے تعلق نہیں رکھے گا اور وہ اپنی شہوت
کو اپنی بیوی سے پورا کرکے پاکدامن رہے گا۔ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ نے یہاں
اپنی طرف سے اچھی تاویل عطا کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا بیوی کا خوبصورت ہونا
شہوت کے قابو ہونے کی ضمانت ہے؟ جیسا کہ بعض فاسد العقل لوگوں نے یہ مشہور کیا ہوا
کہ امامت کے حقدار کیلیے یہ شرط اس لیے ہے، اور اسے فقہ کا کمال ظاہر کرنے کی کوشش
کرتے ہیں اسی نتیجے کی بنیاد پہ جبکہ یہ فقہ کا ناقص ترین درجہ ہے اور رسول اللہ ﷺ
کی سنت سے جہالت کا نتیجہ یا اس سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہے:
امام ابو عبد اللہ
محمد بن اسماعیل البخاریؒ (المتوفی 256ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا عبدان، عن ابي
حمزة، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال: بينا انا امشي مع عبد الله رضي الله
عنه، فقال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" من استطاع الباءة
فليتزوج، فإنه اغض للبصر واحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم، فإنه له
وجاء".
امام علقمہؒ کہتے ہیں
کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہا تھا۔ آپ نے کہا کہ ہم نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی
صاحب طاقت ہو تو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو
بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے
روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔
(صحیح
بخاری: 1905)
رسول اللہ ﷺ کی یہ
حدیث بھی سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ روایت کررہے ہیں جن کی فقہ کی پیروی کا احناف
اور اہل کوفہ دم بھرتے ہیں اور وہی سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ آگے تعلیم کررہے ہیں
کہ بدفعلی اور زنا سے حفاظت کا ذریعہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کو قرار دیا ہے، اگر کسی
شخص کیلیے بدفعلی اور زنا سے بچنے کیلیے خوبصورت بیوی ہونا لازم یا بہتر ہوتا تو
رسول اللہ ﷺ اس کا بتاتے کہ نکاح تو کرو مگر خوبصورت بیوی سے تو بدفعلی سے حفاظت
ہوگی، مگر رسول اللہ ﷺ مطلقا بیوی کے متعلق کہا کہ وہ بیوی ہی بدفعلی سے حفاظت کا
ذریعہ ہے ناکہ خوبصورت بیوی۔ اب جس فاسق کو اپنی بیوی کے ہوتے بھی بدفعلی سے حفاظت
نہیں اور خوبصورت عورت کی تمنا ہے تو وہ شخص خوبصورت بیوی کے ہوتے بھی زنا اور
بدفعلی سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
امام ابن حبانؒ (المتوفی 354ھ) روایت کرتے ہیں:
أخبرنا محمد بن إسحاق
بن خزيمة، قال: حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا ابن
عجلان، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:
"ثلاثة حق على الله أن يعينهم: المجاهد في سبيل الله، والناكح يريد أن يستعف،
والمكاتب يريد الأداء"
سیدنا ابو ھریرہؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کے ذمے یہ بات ہے کہ
وہ انکی مدد کرے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا مجاہد، نکاح کرنے والا ایسا شخص
جو پاکدامنی اختیار کرنا چاہتا ہو اور ایسا مکاتب غلام جو ادائیگی کرنے کا ارادہ
رکھتا ہو۔
(الإحسان
في تقريب صحيح ابن حبان: جلد 9 صفحہ 339 رقم 4030 واسنادہ حسن صحیح)
امام یحیی بن سعید
القطانؒ کی مدلس شیوخ سے روایت:
امام یحیی بن سعید
القطانؒ اپنے کسی مدلس شیخ سے روایت کریں تو وہ سماع پہ محمول ہوتی ہے کیونکہ وہ
مدلس شیوخ کی روایات جو بغیر سماع کے ہوں انہیں قبول نہیں کرتے۔
امام بن حجر عسقلانیؒ
(المتوفی 852ھ) لکھتے ہیں:
والقطان لا يحمل من
حديث شيوخه المدلسين إلا ما كان مسموعا لهم
اور امام یحیی
القطانؒ اپنے مدلسین شیوخ سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے تھے سوائے اسکے جسکا انہوں
نے سماع کیا ہو۔
(فتح
الباري لابن حجر: جلد 1 صفحہ 309)
معلوم ہوا کہ جو شخص
بھی پاکدامنی اختیار کرنے کی نیت سے نکاح سے کرتا ہے تو اللہ تعالی اسکی مدد کرتا
ہے کہ وہ پاکدامنی اختیار کرلے، اب جو شخص عام عورت سے نکاح کے بعد اللہ کی مدد کے
باوجود پاکدامنی اختیار کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے اور بدفعلی یعنی زنا کا مرتکب
ہوجاتا ہے تو اس میں نہ تو اسکی کم خوبصورت بیوی کا قصور ہے اور نہ ہی اللہ تعالی
کی مدد کی کمی کا بلکہ سارا وبال اس شخص کا ذاتی ہے۔ اسکے علاوہ بھی متعدد احادیث
نقل کی جاسکتی ہیں مگر ان سب کو ترک کرکے ایک غالب خیال کے قیاس کی بنیاد پہ شریعت
میں اضافہ کرتے ہوئے ایک امام کو دوسرے امام پہ ترجیح دینے کیلیے خوبصورت بیوی کی
شرط فضول اور غلو پہ مبنی ہے۔
اب اسکے بعد آگے
ملاحظہ کریں:
امام ابن عابدین
الشامیؒ (المتوفی 1252ھ) لکھتے ہیں:
(قوله ثم الأكبر رأسا
إلخ) لأنه يدل على كبر العقل يعني مع مناسبة الأعضاء له، وإلا فلو فحش الرأس كبرا
والأعضاء صغرا كان دلالة على اختلال تركيب مزاجه المستلزم لعدم اعتدال عقله اهـ ح.
وفي حاشية أبي السعود؛ وقد نقل عن بعضهم في هذا المقام ما لا يليق أن يذكر فضلا عن
أن يكتب اهـ وكأنه يشير إلى ما قيل أن المراد بالعضو الذكر
انکا قول: پھر وہ
جسکا سر بڑا ھو الخ، کیونکہ یہ اسکی عقل کے بڑے ہونے پہ دلالت کرتا ہے یعنی اسکے
اعضاء کی مناسبت کے ساتھ، اور اگر سر بہت بڑا ہو اور اعضاء چھوٹے ہوں تو یہ مزاج
کے اختلال پہ دلالت ہوگی جو اسکی عقل کے عدم اعتدال کو لازم ہے۔ "حاشیہ ابی
السعود" میں ہے: اور بعض لوگوں سے اس مقام پہ ایسی باتیں نقل کی گئی ہیں جو
مناسب نہیں کہ ذکر کی جائیں چہ جائیکہ اسے لکھا جائے۔ گویا اسکی طرف اشارہ کررہے
ہیں جو کہا گیا ہے عضو سے مراد آلہ تناسل ہے۔
(حاشية ابن
عابدين: جلد 1 صفحہ 558)
صاف معلوم ہے کہ
چھوٹے عضو سے مراد حنفی فقہاء کی چھوٹا آلہ تناسل ہے، جسطرح خلاف شرع خوبصورت بیوی
کی شرط کی منطقی وجوہات بیان کرنے کی کوشش احناف کرتے ہیں تو اسی طرح اسکی بھی
کوشش کی ہے کہ اسکے بھی فوائد گھڑ کر بیان کیے جائیں جسطرح خوبصورت بیوی کے فوائد
گھڑے گئے ہیں، فقہاء احناف نے یہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی بھی پیمائش معلوم کا
بھی طریقہ کار بتا دیا ہے:
احمد بن محمد بن
اسماعیل الطحاوی (المتوفی 1231ھ) لکھتے ہیں:
قوله: "وأصغرهم
عضوا" فسره بعض المشايخ بالأصغر ذكرا لأن كبره الفاحش يدل غالبا على دناءة
الأصل ويحرر ومثل ذلك لا يعلم غالبا إلا بالاطلاع أو الأخبار وهو نادر ويقال مثله
في الأحسن زوجة المتقدم
انکا قول: اور عضو
چھوٹا ہو، اسکی بعض مشائخ نے تفسیر یہ ہے کہ چھوٹے عضو سے مراد آلہ تناسل ہے کیونکہ اسکا
بہت زیادہ بڑا ہونا عموما اسکے گھٹیا نسب پہ دلالت کرتا ہے اور اسکی تحقیق کی جائے
گی۔ اسطرح کی چیزیں عموما معلوم نہیں ہوتی سوائے اطلاع یا اخبار کے، اور یہ نادر
ہے، اور اسطرح کی باتیں "خوبصورت بیوی والا متقدم ہے" کے متعلق بھی کہی
گئی ہیں۔
(حاشية
الطحطاوي على مراقي الفلاح: صفحہ 374)
اسی سے قارئین اندازہ
لگا لیجیے کہ بھلا عضو کا نسب سے کیا تعلق؟ ایسی طاویل بیان کرنے والا شخص تو
بنیادی علم طب یعنی میڈیکل سائنس سے بھی جہالت رکھتا ہے۔
یہ سب شرائط اور اس
میں قبیح ترین شرائط کی توجیحات اور تاویلات ملاحظہ کرنے کے بعد آپ احباب شریعت
اسلامی کی حجت ملاحظہ کیلیے کہ اس مسئلے میں اللہ کے رسول ﷺ نے حجت تمام کردی تھی
تو اسکے بعد یہ شرائط گھڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا (معاذ اللہ) اللہ کے رسول ﷺ علم
فقہ میں کم تر تھے جو احناف کے بیان کردہ فوائد کی حکمت سے وہ ناواقف رہے اور امت
کو ان فوائد سے محروم رکھے؟ بہرحال:
رسول اللہ ﷺ کے مطابق
امامت کی ترجیح قائم کرنے کی شرائط:
امام مسلمؒ (المتوفی
261ھ) لکھتے ہیں:
وحدثنا ابو بكر بن
ابي شيبة ، وابو سعيد الاشج كلاهما، عن ابي خالد ، قال ابو بكر : حدثنا ابو خالد
الاحمر ، عن الاعمش ، عن إسماعيل بن رجاء ، عن اوس بن ضمعج ، عن ابي مسعود
الانصاري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يؤم القوم، اقرؤهم
لكتاب الله، فإن كانوا في القراءة سواء، فاعلمهم بالسنة، فإن كانوا في السنة سواء،
فاقدمهم هجرة، فإن كانوا في الهجرة سواء، فاقدمهم سلما، ولا يؤمن الرجل الرجل في
سلطانه، ولا يقعد في بيته على تكرمته، إلا بإذنه "، قال الاشج في روايته:
مكان سلما، سنا،
حضرت ابو مسعود
انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی کتاب
پڑھنے والا ہو اور اگر اس میں یکساں ہوں تو ان میں جو سب سے زیادہ سنت کا علم
رکھتا ہو، پس اگر سنت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو اور
اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ امامت کروائے سب سے پہلے مسلمان ہوا ہو اور
کوئی آدمی دوسرے آدمی کے اقتدار کی جگہ میں امامت نہ کرائے اور نہ ہی اس کے گھر
میں، اس کی اجازت کے بغیر اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھے۔“ اشج نے اپنی روایت میں
سِنًّا کہا یعنی ”عمر میں زیادہ ہو۔“
(صحیح
مسلم: رقم 673)
یہ رسول اللہ ﷺ کی
بیان کردہ انتہائی آسان ترین شرائط ہیں جنکی بنیاد پہ ترجیح قائم ہوسکتی ہے اور
اسکے بعد کوئی حاجت باقی نہیں رہتی کہ مزید من گھڑت شرائط کا اضافہ کیا جائے۔
بس اللہ ہی ہدایت
دینے والا ہے جسے چاہے وہ ہدایت دے دے۔ اللہ تعالی ہم سب کو سنت رسول اللہ ﷺ کی
پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کی سنت کو بدلنے اور اپنی طرف سے اضافہ
کرنے سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔
تحریر: ابو الحسنین
شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment