امام ابن عبد البرؒ مدلس کی معنعن روایت کے رد پہ اجماع نقل کرتے ہیں
﴿امام ابن عبد
البرؒ مدلس کی معنعن روایت کے رد پہ اجماع نقل کرتے ہیں﴾
ہم نے پچھلی تحریر
میں بخاری المغرب امام حافظ ابن عبد البرؒ (المتوفی 463ھ) کا کلام نقل کیا کہ
انہوں نے متقدمین آئمہ کرام کے اصولی اقوال اور عملی کتب وغیرہ کے مکمل تحقیق کرکے
معنعن مرویات کے متعلق یہ اجماع و اتفاق معلوم کیا کہ مدلس کی معنعن کو رد کیا
جائے گا۔ اس حوالے سے ہم انکی طرف سے مزید وضاحت سے کلام نقل کرتے ہیں کہ انکا نقل
کیا گیا اجماع ہی محدثین کا منہج ہے۔ واضع رہے کہ ہم اس میں کوئی سختی کرنے کے
قائل نہیں ہیں، جو حضرات طبقات المدلسین کو مانتے ہیں تو ہم انہیں بھی کوئی ملامت
نہیں کرتے کیونکہ یہ بھی آئمہ متاخرین کا منہج ہے اور ہمارے نزدیک معتبر اختلاف
ہے۔ مگر ہم اس اختلاف میں ترجیح قائم کرتے ہیں اور اپنے حق میں موجود دلائل اپنے
تلامذہ اور دیگر احباب کے سامنے واضع کرتے ہیں تاکہ ہماری تحقیقات کے متعلق ہمارا
منہج کھل کر واضع رہے اور عوام کو معلوم ہو کہ ہم تحقیقات مکمل غیر جانبداری کے
ساتھ صرف حق کیلیے اپنے اصول پہ ثابت قدمی سے کرتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی متعدد
تحاریر میں واضع کرچکے ہیں کہ اصول حدیث بھی اجتہادی ہیں اور اس میں اختلاف بھی
معتبر ہے، قاری کو چاہیے کہ پہلے اس موضوع پہ توجہ دے اور پھر اس اختلافی اصولی مسئلے
کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ خیر:
الحافظ المحدث الفقہی امام ابن عبد البرؒ (المتوفی 463ھ) لکھتے ہیں:
والأصل في هذا الباب
اعتبار حال المحدث؛ فإن كان لا يأخذ إلا عن ثقة وهو في نفسه ثقة، وجب قبول حديثه؛
مرسله ومسنده، وإن كان يأخذ عن الضعفاء ويسامح نفسه في ذلك، وجب التوقف عما أرسله
حتى يسمي من الذي أخبره. وكذلك من عرف بالتدليس المجتمع عليه، وكان من المسامحين
في الأخذ عن كل أحد، لم يحتج بشيء مما رواه حتى يقول: أخبرنا، أو: سمعت۔
اور اس باب میں اصل
یہ ہے کہ محدث (یعنی راوی) کے حال کا اعتبار کیا جائے گا، تو اگر وہ صرف ثقہ کے
علاوہ کسی سے اخذ نہ کرتا ہو اور وہ خود بھی ثقہ ہو، تو اسکی حدیث قبول کرنا واجب
ہے، مرسل بھی اور مسند بھی۔ اور اگر وہ ضعفاء سے اخذ کرتا ہو اور اپنے آپ په اس میں
نرمی برتتا ہو، تو اس کے ارسال پہ توقف کرنا واجب ہے یہاں تک کہ وہ اس کا نام لے
جس نے اسے خبر دی ہے۔ اور اسی طرح جو تدلیس کے ساتھ پہچانا جاتا ہو تو اس پہ اجماع
ہے اور وہ ہر کسی سے روایت لینے میں نرمی برتنے والوں میں سے ہو، لہزا جو کچھ بھی
وہ روایت کرے اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی یہاں تک کہ وہ کہے: اخبرنا یا حدثنا۔
(یعنی سماع کی تصریح کردے)۔
[التمهيد لابن عبد البر - ت بشار: جلد 1 صفحہ 208]
امام ابن عبد البرؒ
نے یہاں مرسل اور مدلس مرویات میں یہ اصول بتا دیا کہ اگر ارسال یا معنعن بیان
کرنے والا راوی صرف ثقہ سے روایت کرتا ہے اور وہ خود بھی ثقہ ہے تو اسکی روایات
مرسل بھی اور معنعن بھی قبول کی جائیں گی اور اسکے برعکس ایسا راوی جو ضعیف اور
کمزور قسم کے رواۃ سے روایت کرتا ہے تو اسکی مرویات کو قبول نہیں کیا جائے بلکہ
توقف کیا جائے گا یہاں تک وہ گرائے گئے راوی کا نام لے لے یا معنعن میں سماع کی
تصریح کردے۔ یہاں امام ابن عبد البرؒ نے روایات کو قبول کرنے کے برخلاف و متضاد
توقف کا لفظ استعمال کیا ہے جوکہ اس بات پہ دلالت کررہا ہے کہ ضعفاء سے اخذ کرنے
والے رواۃ کی مدلس و مرسل مقبول نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ ارسال میں واضع کردیں کہ
کس شخص نے انہیں خبر دی اور مدلس میں سماع کی تصریح کردیں۔ اور انہوں نے اس پہ
اجماع نقل کیا ہے کہ مجموعی اور عمومی اصول آئمہ کرام کا یہی ہے۔
واسلام: ابو الحسنین ڈاکٹر شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment