طالب علم کیلیے سیدنا حکیم لقمان کی نصیحت
﴿طالب علم کیلیے
سیدنا حکیم لقمانؑ کی نصیحت﴾
امام ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانیؒ (المتوفی 430ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا أبي، وعبد الله بن محمد، قالا: أنبأنا إبراهيم بن
محمد بن الحسن، ثنا عبد الجبار بن العلاء، ثنا سفيان، عن داود يعني ابن شابور، عن
شهر، قال: قال لقمان لابنه:
يا
بني لا تطلب العلم لتباهي به العلماء وتماري به السفهاء ولا ترائي به في المجالس،
ولا تدع العلم زهادة فيه ورغبة في الجهالة، فإذا رأيت قوما يذكرون الله فاجلس
معهم، فإن تك عالما ينفعك علمك، وإن تك جاهلا يعلموك، ولعل الله أن يطلع عليهم
برحمة فيصيبك بها معهم، وإذا رأيت قوما لا يذكرون الله فلا تجلس معهم فإنك إن تك
عالما لا ينفعك علمك وإن تك جاهلا يزيدوك جهلا، ولعل الله أن يطلع عليهم بسخطه
فيصيبك بها معهم
امام شہر بن حوشبؒ (کبیر تابعی) کہتے ہیں کہ: سیدنا حکیم
لقمانؑ نے اپنے بیٹے سے کہا:
اے میرے بیٹے، علم کو نہ طلب کرنا کہ اس سے تم علماء میں فخر کرو اور نہ اس لیے کہ
تم بےوقوفوں سے جهگڑتے پهرو، اور نہ اس لیے کہ مجالس میں دکھاوا کرتے پھرو۔ اور
علم کو اس سے بےرغبتی اور جہالت کی طرف رغبت کی وجہ سے ترک کرنا۔
جب تم کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے دیکھو
تو ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ اگر تم عالم ہو تو تمہارا علم تمہیں نفع دے گا، اور اگر
تم جاہل ہو تو وہ تمہیں علم دیں گے۔ شاید اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے اور تم بھی
اس میں شامل ہو جاؤ۔ اور جب تم کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے نہ دیکھو تو ان
کے ساتھ نہ بیٹھو۔ کیونکہ اگر تم عالم ہو تو تمہارا علم تمہیں نفع نہیں دے گا، اور
اگر تم جاہل ہو تو وہ تمہاری جہالت میں مزید اضافہ کر دیں گے۔ شاید اللہ ان پر غصب
نازل فرمائے اور تم بھی اس میں شامل ہو جاؤ۔
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء: جلد 6 صفحہ 62
وسندہ صحیح)
سیدنا لقمان حکیمؑ کا
یہ فرمان حکمت سے پُر ہے اور طلباء کیلیے بہت اہم نصیحتیں رکھتا ہے کہ اس پہ عمل
کرلیا جائے تو اسکے فوائد بےشمار ہیں۔ معلوم ہوا کہ دین کے علم کو صرف اللہ تعالی
کی رضا اور اسکے دین کی خدمت کیلیے ہی حاصل کرنا چاہیے، اسکے علاوہ علم کو فخر و
غرور کرنے اور جہلاء سے جھگڑنے یا خود کو عالم ہونے کا دکھاوا کرنے کی بنیاد پہ
حاصل نہیں کرنا چاہیے، جو ایسا کرے گا وہ اسکا پھل بھی ویسا ہی پائے گا۔ پھر یہ
بھی معلوم ہوا کہ علم کا آنا ایک سخت و مشکل کام ہے کہ انسان کی طبیعت پہ جب اسکا
حقیقی معنوں میں بوجھ پڑتا ہے تو وہ اس سے بےرغبت ہونا شروع ہوجاتا ہے تو ایسے
معاملے میں بھی علم کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے، بلکہ علم کی قدر کرنی چاہیے اور
فضولیات سے پرہیز کرنا چاہیے۔
نیز مجالس کا انتخاب بھی اسی بنیاد پہ کرنا چاہیے کہ اس میں اللہ تعالی کا ذکر اور
اسکے دین کے علم کی باتیں ہوں، وہاں علماء سے سوالات کرنے چاہیے تاکہ علم سیکھ
سکیں اور علم و علماء کی مجالس اختیار کرتے ہوئے اللہ سے یہ امید و توقع رکھنی
چاہیے کہ اللہ اس مجلس کی برکت کی وجہ سے جو بھی رحمتیں نازل فرمائے گا تو وہ ہمیں
بھی حاصل ہوجائیں گی۔
اللہ تعالی ہم سب کو حقیقی معنوں میں علم کا متلاشی بنائے اور اسکی قدر کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
از قلم: ابو الحسنین شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment