دوستی کا اصول
﴿دوستی کا اصول﴾
امام
المسلمین عالم الاندلس ابو محمد علی
ابن حزم الظاہریؒ (المتوفی 456ھ) فرماتے ہیں:
من امتحن بأن يخالط
الناس فلا يلق بوهمه كله إلى من صحب ولا يبن منه إلا على أنه عدو مناصب ولا يصبح
كل غداة إلا وهو مترقب من غدر إخوانه وسوء معاملتهم مثل ما يترقب من العدو المكاشف
فإن سلم من ذلك فلله الحمد وإن كانت الأخرى ألفي متأهبا ولم يمت هما
جس نے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کی آزمائش لی ہو تو وہ اپنے تمام خیالات دوستوں کے
سامنے نہ رکھے، اور انکے ساتھ ایسے پیش نہ آئے سوائے دشمن کی طرح جو اسے مصیبت میں
ڈالنا چاہتا ہے۔ اور وہ ہر صبح بیدار نہ ہو سوائے اسکے کہ وہ اپنے دوستوں کی طرف
سے غداری اور بدسلوکی سے ایسے ہی ڈرے جیسے وہ دشمن سے ڈرتا ہے۔ اگر وہ اس سے بچ
جائے تو خدا کا شکر ادا کرے۔ اور اگر دوسرا معاملہ ہو تو اسکے لیے خود کو تیار
پائے تو وہ اسے گھائل نہیں کرے گا۔
(اسکے بعد امام ابن حزمؒ اپنی آپ بیتی بیان فرماتے ہیں)
وأنا أعلمك أن بعض من
خالصني المودة وأصفاني إياها غاية الصفاء في حال الشدة والرخاء والسعة والضيق
والغضب والرضى تغير علي أقبح تغير بعد اثنى عشر عاما متصلة في غاية الصفاء ولسبب
لطيف جدا ما قدرت قط أنه يؤثر مثله في أحد من الناس وما صلح لي بعدها ولقد أهمني
ذلك سنين كثيرة هما شديدا
اور میں آپکو بتاتا
ہوں کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے مخلصانہ محبت کی اور اسکا یقین دلایا کہ وہ حالات
کی سختی اور فراخی، وسعت اور تنگی، غصے اور رضا میں بھی میرے ساتھ مخلص رہے گا۔
اسکے بعد مسلسل بارہ سال کی مخلصانہ دوستی کے بعد وہ مجھ پہ بہت ہی برے طریقے سے
بدل گیا اور ایسی معمولی چیز کی وجہ سے کہ میں کبھی نہ سمجھ سکا کہ کسی شخص پہ
اسکا بھی اثر ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد (اس کے ساتھ) میرے لیے کچھ بھی اچھا نہ ہوا اور
اس بات نے سالہا سال تک مجھے شدید پریشانی میں مبتلا رکھا۔
[کتاب الاخلاق والسیر: صفحہ 116 رقم 102]
امام ابن حزمؒ اس قول میں لوگوں سے ملنے والے شخص کو نصیحت کر
رہے ہیں کہ وہ اپنی تمام امیدیں اور اعتماد کسی ایک شخص پر نہ رکھے۔ وہ کہتے ہیں
کہ دنیا میں لوگوں کی فطرت یہی ہے کہ وہ اکثر اپنے مفادات کے لیے دوسرے لوگوں کو
دھوکہ دیتے ہیں۔ اس لیے، اگر کوئی شخص لوگوں سے ملنے کا امتحان دینے کا ارادہ
رکھتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں سے صرف اتنی ہی امید رکھے جتنی وہ ایک
دشمن سے رکھتا ہے۔ ابن حزم اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ کسی شخص کو ہر صبح یہ
سوچ کر بیدار ہونا چاہیے کہ اس کے دوست اسے دھوکہ دے سکتے ہیں یا اس کے ساتھ برے
سلوک کر سکتے ہیں۔ اس طرح، وہ کسی بھی ناگوار صورتحال سے بچنے کے لیے تیار رہے گا۔
امام ابن حزمؒ کا یہ قول لوگوں سے ملنے کے بارے میں ایک محتاط رویہ اختیار کرنے کی
تلقین کرتا ہے۔ یہ قول ایک اہم سبق سکھاتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرتے
وقت محتاط رہنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں
ہمیشہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنی چاہیے۔ ابن حزم کی یہ
بات ایک حقیقت پر مبنی ہے جیسا کہ پھر وہ اپنی آپ بیتی بھی بیان کرتے ہیں کہ کسطرح
انکا دوست 12 سال کی مخلصانہ دوستی کے بعد ایک انتہائی معمولی چیز پہ بدل گیا۔
امام ابن حزمؒ کی یہ بات ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ اس سے ہمیں یہ سیکھنے میں مدد ملتی
ہے کہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت ہمیں احتیاط کرنی چاہیے اور اپنے دل میں کسی
بھی قسم کی شرارت یا بدسلوکی نہیں رکھنی چاہیے بلکہ دوست احباب سے ایسے خداشت کے
باوجود ان سے اچھے سے پیش آئیں، ان کے احسان کا بدلہ احسان سے چکائیں، انہیں انکی
الفت کا بہترین بدلہ دیں وگرنہ آپ بھی قبیح فعل کے مرتکب ہونگے۔
واسلام: شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment