-->

امام ابو حنیفہ کے وتر کو فرض و واجب قرار دینے کا قول خود انکے اپنے شاگردوں کے نزدیک مردود ہے

﴿امام ابو حنیفہؒ کے وتر کو فرض و واجب قرار دینے کا قول خود انکے اپنے شاگردوں کے نزدیک مردود ہے﴾

 

ہم نے پچھلے دنوں امام ابو حنیفہؒ کا ایک قول کہ وتر فرض ہے نقل کیا جسے امام ابن خزیمہؒ نے اپنی صحیح میں اپنی صحیح سند سےروایت کیا تھا اور بتایا کہ یہاں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے تسامح ہوا ہے اور انہیں غلطی لگی ہے، جبکہ وتر فرض و واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ سیدنا مولا علی المرتضیؑ سے ہم نے موقوف حدیث بھی نقل کی اور اس مسئلے کو مکمل کردیا۔ مگر چند ایک بریلوی گدھوں کو اتنی تکلیف ہوئی ہے کہ مسلسل دو تین دنوں سے انہیں سکون نہیں مل رہا، یہاں تک کہ کل رات انکی بہت بےسکونی سے گزری کہ صبح ہی میم لگا کر اسکا اظہار کردیا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ اگر ہماری بات غلط تھی تو اسے ثابت کرتے کہ غلط ہے مگر کیا کریں، کہ فرقہ پرست تو فرقہ پرست ہی ہوتے ہیں پھر اوپر سے بریلوی ہیں تو کیا ہی اعلی بات ہے۔ لہزا اب آپ خود احناف کے گھر کا حال معلوم کیجیے کہ خوف امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول مردود ہے:

 

امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاویؒ الحنفی (المتوفی 321ھ) کی کتاب کا اختصار کرتے ہوئے امام ابو بکر احمد بن علی الجصاصؒ الحنفی (المتوفی 370ھ) لکھتے ہیں:

في وجوب الوتر:

قال أبو حنيفة هو واجب

وقال أبو يوسف ومحمد ‌سنة ‌مؤكدة ‌ليس ‌لأحد ‌تركها وليس بواجب

وقال مالك والثوري والليث سنة

وقال الشافعي ليس بفرض

 

وتر کے وجوب میں:

امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں: یہ واجب ہے۔

اور امام ابو یوسفؒ اور امام محمد بن حسن الشیبانیؒ کہتے ہیں: یہ سنت موکدہ ہے، کسی کو چھوڑنی نہیں چاہیے، اور یہ واجب نہیں ہے۔

اور امام مالکؒ، امام سفیان الثوریؒ اور امام لیثؒ کہتے ہیں: یہ سنت ہے۔

اور امام شافعیؒ کہتے ہیں: یہ فرض نہیں ہے۔

(مختصر اختلاف العلماء: جلد 1 صفحہ 224 رقم 163)

 

لہزا معلوم ہوا کہ خود امام ابو حنیفہؒ کے اپنے خاص الخاص شاگردوں کے نزدیک اور امام ابو حنیفہؒ کے بعد فقہ حنفی میں مقام رکھنے والے دونو آئمہ کے نزدیک وتر سنت ہے اور واجب نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے قول کو انہوں نے رد کردیا۔ اور اب کچھ خائن یہ نہ کہہ دیں کہ امام شافعیؒ کے قول کہ یہ فرض نہیں ہے سے مراد واجب ہے! ایسا جو بھی کہے گا تو وہ دو باتوں کا ثبوت مہیا کردے گا کہ اول تو وہ جاہل مطلق ہے کہ اسے فقہی مذاہب کے اصولی اختلاف اور اصطلاحات تک کا علم نہیں كيونكه احناف کے برخلاف شوافع کے نزدیک واجب اور فرض میں تفریق نہیں کی جاتی،

(كفاية النبيه في شرح التنبيه: جلد 1 صفحہ 317)

(النجم الوهاج في شرح المنهاج: جلد 1 صفحہ 311)

 

دوسرا یہکہ وہ اس باب میں امام شافعیؒ اور فقہ شافعیہ کے موقف سے بھی جاہل ہے کہ انکے نزدیک وتر سنت ہے:

لہزا امام ابو الحسن الماروردیؒ الشافعی (المتوفی 450ھ) کہتے ہیں:

وهذا كما قال يتضمن هذا الفصل الخلاف في صلاة ‌الوتر ‌فعند ‌الشافعي ‌أنها ‌سنة، وبه قال الفقهاء كافة

 

اور یہ جیسا اس نے کہا کہ اس باب میں نماز وتر کے متعلق اختلاف بھی شامل ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک یہ سنت ہے اور یہی تمام فقہاء کا کہنا ہے۔

(الحاوي الكبير: جلد 2 صفحہ 278)

 

لہزا یہ ہم نے فقہاء شوافع سے امام شافعیؒ کا قول لگا دیا کہ انکے قول کہ وتر فرض نہیں ہے سے مراد انکا دوسرا قول ہے کہ وتر سنت ہے۔ یہ ہم نے اس اس باطل خدشے کا سد باب پہلے ہی کردیا۔ اس باب میں امام ابو حنیفہؒ کا موقف غلط ہے اور خود امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد انکی بات کو ماننے کو تیار نہیں۔ اور ہم اسے امام ابو حنیفہؒ کی علمی خطا قرار دیتے ہیں جبکہ بریلوی اس پہ ٹھٹھہ مذاق کررہے ہیں تو شوق سے وہ اپنے امام کا مذاق اڑائیں۔ کیونکہ ہم آئمہ کی تضحیک کے قائل نہیں۔ ہماری پوسٹ میں حساب کی غلطی مزاح لگی تو ہم اسکا صرف عنوان ہی لطیفہ دیا، باقی مکمل تحریر سنجیدگی سے اس مسئلے کی خطا کی وضاحت اور درست بات کی نشاندہی کے متعلق تھی۔ اور نہ ہی ہم روافض کی مثل اپنے آئمہ کو معصوم مانتے ہیں، جو معصومیت کا عقیدہ رکھتے ہیں تو وہ ضرور روافض کی ہمنوائی اختیار کریں۔ اخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور فتنے سے محفوظ رکھے، آمین۔

واسلام: شہزاد احمد آرائیں