ایک علمی لطیفہ - فرض کو فرض کہنا
﴿ایک علمی لطیفہ﴾
جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ فرض نمازوں
کی تعداد پانچ ہے، اور اسکے علاوہ تمام نمازیں نفلی ہیں اور سنت ہیں۔ اس میں اضافہ
کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح کا ایک علمی لطیفہ موجود ہے کہ ایک سنت نماز کو فرض بھی دے
دیا اور فرائض کی گنتی میں فرق نہیں بھی پڑا۔ ملاحظہ کیجیے:
صاحب الصحیح امام ابو بکر محمد بن اسحاق
بن خزیمہؒ (المتوفی 311ھ) اپنی صحیح میں لکھتے ہیں:
ثنا أيوب بن إسحاق، نا أبو معمر، عن عبد
الوارث بن سعيد قال سألت أبا حنيفة، أو سئل أبو حنيفة عن الوتر، فقال: فريضة، فقلت
-أو فقيل له-: فكم الفرض؟ قال: خمس صلوات. فقيل له: فما تقول في الوتر؟ قال: فريضة،
فقلت -أو فقيل له-: أنت لا تحسن الحساب
جناب عبد الوارث بن سعیدؒ بیان کرتے ہیں
کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ سے پوچھا یا امام ابو حنیفہؒ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا
تو انہوں نے فرمایا: وتر فرض ہے۔ تو میں نے کہا یا ان سے کہا گیا: فرض نمازوں کی تعداد
کتنی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: پانچ نمازیں ہیں۔ تو ان سے کہا گیا: آپ وتر کے بارے میں
کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: فرض ہے۔ تو میں نے کہا یا ان سے کہا گیا: آپ کو حساب
کرنا نہیں آتا۔
(صحیح ابن خزیمہ: رقم 1069 وسندہ
صحیح)
معلوم ہوا کہ یہ امام ابو حنیفہؒ کے تسامہات
اور خطاؤں میں سے ہے کہ انہوں نے وتر کو فرض بھی مانا مگر اس سے فرائض کی تعداد میں
کمی بھی نہیں کی۔ اللہ انکی یہ خطا درگزر فرمائے۔ آمین۔
واضع رہے کہ وتر سنت ہے ناکہ واجب یا فرض:
سیدنا امام مولا علی المرتضی علیہ السلام
فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن أبي إسحاق،
سمعت عاصم بن ضمرة، يحدث عن علي، قال:
”ليس
الوتر بحتم كالصلاة، ولكنه سنة فلا تدعوه“
نماز کی طرح وتر حتمی (واجب و فرض) نہیں
ہے لیکن وہ سنت ہے پس اسے نہ چھوڑو۔
(مسند احمد: جلد 2 صفحہ 205
رقم 842 وسندہ حسن)
قال محقق شیخ شعیب الارنوؤط الحنفی: اسنادہ
قوی۔
قال شیخ زبیر علی زئیؒ: اسنادہ حسن۔ (مقالات: جلد 1 صفحہ 205)
مولا علی المرتضیؑ کے اس فرمان کو امام
ابو یعلی الموصلیؒ (المتوفی 307ھ) اپنی سند سے نقل کرتے ہیں اور کتاب کے محقق شیخ حسین
سلیم اسد کہتے ہیں: اسنادہ صحیح۔
(مسند ابی یعلی: جلد 1 صفحہ
268 رقم 317)
مزید اس باب میں امام ابن خزیمہؒ نے وتر
کے فرض و واجب نہ ہونے اور فرض نمازوں کے پانچ ہی ہونے پہ بہت عمدہ کلام دلائل کے ساتھ
کیا ہے۔ علم کا پیاسا صحیح ابن خزیمہ میں اس باب کا مطالعہ ضرور کرے۔
تحریر: شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment