-->

وتر رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، وتر کو ترک کرنا بھی رسول الله ﷺ سے آخری وقت تک ثابت ہے کہ جائز ہے

 

﴿وتر رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، وتر کو ترک کرنا بھی رسول الله ﷺ سے آخری وقت تک ثابت ہے کہ جائز ہے﴾

 

وتر کے واجب و سنت ہونے کی بحث تو ہم کررہی رہے ہیں تو اس سلسلے کی یہ آخری تحریر ہے جو ہماری طرف سے حجت کو مکمل کرتی ہے۔ اب بھی کسی کو اندھی تقلید کا شوق ہو تو وہ رسول اللہ ﷺ سے صریحا مروی روایات کا انکار کرے اور اپنا گناہ اپنے سر لے۔ ہم اسے اسکی گمراہی پہ ہی چھوڑتے ہیں۔

لہزا اس تحریر میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنے قارئین کے سامنے فرقہ پرستوں کی فرار کی راہیں بھی واضع کرنا چاہتے ہیں تاکہ جب کبھی انکے سامنے فرقہ پرست اس طرح سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کریں تو انہیں کس طرح کاؤنٹر کیا جائے۔ سب سے پہلے تو ہم آپ احباب کے سامنے رسول اللہ ﷺ سے وتر کو ترک کرنے کی واضع دلیل سامنے رکھتے ہیں تاکہ آپ احباب کو اس پہ مکمل یقین ہوجائے کہ وتر کو ترک کرنا بھی جائز ہے اور وتر کو ترک کرنے والا بھی جنتی ہے اور اس پہ کوئی گناہ نہیں،

امام محمد بن اسماعیل البخاریؒ (المتوفی 256ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ:

 

حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك بن انس، عن عمه ابي سهيل بن مالك، عن ابيه، انه سمع طلحة بن عبيد الله، يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اهل نجد ثائر الراس يسمع دوي صوته ولا يفقه ما يقول حتى دنا، فإذا هو يسال عن الإسلام؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خمس صلوات في اليوم والليلة، فقال: هل علي غيرها؟ قال: لا إلا ان تطوع، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وصيام رمضان، قال: هل علي غيره؟ قال: لا إلا ان تطوع، قال: وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة، قال: هل علي غيرها؟ قال: لا إلا ان تطوع، قال: فادبر الرجل وهو يقول: والله لا ازيد على هذا ولا انقص، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: افلح إن صدق".

 

سیدنا طلحہ بن عبیداللہؓ کہتے تھے نجد والوں میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، سر پریشان یعنی بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنتے تھے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، جب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے، اس نے کہا بس اس کے سوا تو اور کوئی نماز مجھ پر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر تو نفل پڑھے (تو اور بات ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ اس نے کہا اور تو کوئی روزہ مجھ پر نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر تو نفل روزے رکھے (تو اور بات ہے) طلحہ نے کہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا۔ وہ کہنے لگا کہ بس اور کوئی صدقہ مجھ پر نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے (تو اور بات ہے) راوی نے کہا پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا۔ یوں کہتا جاتا تھا، قسم اللہ کی میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔

(صحیح بخاری: رقم 46، موطا امام مالک روایة يحيي: رقم 46)

 

یہ حدیث مبارکہ اس بات پہ نص صریح ہے کہ دن و رات میں امت مسلمہ پہ دن و رات میں صرف پانچ نمازیں ہی فرض ہیں، انکے علاوہ اس امت پہ کوئی نماز فرض و واجب نہیں کہ اس کا سوال ہو، رسول اللہ ﷺ نے صراحت کرکے اس چیز کو بلکل واضع کردیا ہے۔

 

اس حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے امام ابو الولید سلیمان بن خلف الباجیؒ (المتوفی 474ھ) لکھتے ہیں:

وهذا نص في أنه ‌لا ‌يجب ‌من ‌الصلوات ‌غير ‌الصلوات ‌الخمس لا وتر ولا غيره

 

اور یہ اس میں نص ہے کہ نمازوں میں پانچ نمازوں کے علاوہ کوئی بھی واجب نہیں ہے نہ ہی وتر اور نہ ہی کوئی اور۔

(المنتقى شرح الموطإ: جلد 1 صفحہ 313)

 

لہزا معلوم ہوا کہ وتر کوئی فرض و واجب نہیں بلکہ یہ سنت و نفل ہے، اگر اسے ترک بھی کردیا جائے تو بھی انسان پہ کوئی گناہ نہیں بلکہ وہ فلاح پانے والا ہی ہے، مگر وتر کو پڑھنا افضل ہے اور اسی کی ترغیب دلائی گئی ہے مثلا:

 

سیدنا امام مولا علی المرتضی علیہ السلام فرماتے ہیں:

حدثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن أبي إسحاق، سمعت عاصم بن ضمرة، يحدث عن علي، قال:

 ليس الوتر بحتم كالصلاة، ولكنه سنة فلا تدعوه

 

نماز کی طرح وتر حتمی (واجب و فرض) نہیں ہے لیکن وہ سنت ہے پس اسے نہ چھوڑو۔

(مسند احمد: جلد 2 صفحہ 205 رقم 842 وسندہ حسن)

 

سیدنا مولا علی المرتضیؑ نے صراحت کرکے امت کو یہ بتا دیا کہ وتر پڑھنا کوئی حتمی یعنی ضروری نہیں کیونکہ یہ سنت ہے، ناکہ فرض و واجب۔ جیسا کہ اوپر ہم صریحا رسول اللہ ﷺ سے وتر کا ترک ثابت کرچکے ہیں۔ مگر مولا علی المرتضیؑ یہاں ترغیب دلا رہے ہیں کہ وتر کو چھوڑو نہیں کیونکہ یہ ایسی سنت ہے جسکی بہت فضیلت ہے، لہزا اس فضیلت کا حصول کرنا چاہیے اسے چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اب بعض لوگ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مولا علی المرتضیؑ نے نہ چھوڑنے کا کہہ کر اسے فرض یا واجب قرار دیا ہے، اب ایسے گدھوں کو انسان کیا کہے کہ اگر ایسا مقصد ہوتا تو پہلے اس چیز کی نفی کیوں کی گئی؟ یعنی چند الفاظ پہلے جس کی نفی کی گئی تو چند الفاظ کے بعد ہی فورا اسکا اثبات کس طرح ہوسکتا ہے؟ کیا یہ خائن مولا علی المرتضیؑ کو متناقص قرار دینا چاہتے ہیں؟ معاذ اللہ۔ جب کہ مولا علی المرتضیؑ نے یہاں وتر کو پڑھنے کی ترغیب دلائی ہے۔

 

اب رسول اللہ ﷺ سے آخری وقت تک وتر کے فرض و واجب نہ ہونے کی دلیل ملاحظہ کریں:

حدثنا ابو عاصم الضحاك بن مخلد، عن زكرياء بن إسحاق، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن ابي معبد، عن ابن عباس رضي الله عنهما،" ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا رضي الله عنه إلى اليمن , فقال: ادعهم إلى شهادة ان لا إله إلا الله , واني رسول الله، فإن هم اطاعوا لذلك فاعلمهم ان الله قد افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم اطاعوا لذلك فاعلمهم ان الله افترض عليهم صدقة في اموالهم تؤخذ من اغنيائهم وترد على فقرائهم".

 

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔

(صحیح بخاری: 1395)

 

اس حدیث مبارکہ کے متعلق امام محی الدین بن شرف النوویؒ (المتوفی 676ھ) فرماتے ہیں:

‌لأن ‌بعث ‌معاذ ‌رضي ‌الله ‌عنه ‌إلى ‌اليمن ‌كان ‌قبل ‌وفاة ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌بقليل ‌جدا

 

کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی وفات سے نہایت ہی تھوڑا پہلے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا گیا تھا۔

(المجموع شرح المهذب: جلد 4 صفحہ 20)

 

لہزا معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے وفات تک دین و رات میں صرف پانچ فرض نمازوں کا ہی حکم دیتے تھے، اور اسکے علاوہ دیگر تمام نمازیں نفلی شمار کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا کہ ان پہ روزانہ پانچ نمازیں فرض ہیں اس بات کی واضع دلیل ہیں، نیز یہ کہ اس کا کوئی نسخ بھی ثابت نہیں ہوسکتا جو اسکے بعد یعنی رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت کا ہو کہ فرض نمازیں پانچ کے بجائے چھ ہوچکی ہوں۔ لہزا یہ دلیل بھی واضع کرتی ہے کہ ان پانچ فرض نمازوں کے علاوہ دیگر تمام نمازیں وتر سمیت ترک کی جاسکتی ہیں، کیونکہ اگر وتر لازمی ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اپنی وفات کے آخری وقت اسکا حکم دیتے اور بتاتے کہ وتر بھی لازمی ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کچھ بھی حکم نہیں دیا۔

 

اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے صراحتا بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کو نفل نماز کے حکم میں لیتے تھے ناکہ فرض و واجب: ملاحظہ کیجیے:

 

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قال ابن عمر:" وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبح على الراحلة قبل اي وجه توجه ويوتر عليها، غير انه لا يصلي عليها المكتوبة".

 

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اونٹنی پر نفل نماز پڑھا کرتے چاہے اس کا منہ کدھر ہی ہو اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے البتہ فرض اس پر نہیں پڑھتے تھے۔

(صحیح بخاری: 1098)

 

یہ حدیث مبارکہ بھی اس بات پہ نص صریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک وتر ایک نفلی نماز کی سی حیثیت رکھتی تھی اور اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ دیگر نفلی نمازوں کی طرح وتر بھی سواری پہ پڑھتے تھے مگر فرض نمازیں سواری پہ نہیں پڑھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرض و نوافل میں یہ تمیز کرنا اور پھر وتر کو نوافل کی قسم میں رکھنا بلکل واضع فرق بیان کررہا ہے۔ اور نوافل کو ترک کرنا تمام امت کو معلوم ہے کہ جائز ہے۔ اور اسی طرح یہ حدیث واضع دلیل ہے کہ وتر رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔

 

اسکے بعد ہم اپنی تحریر کا اختصار کرتے ہوئے آخری حدیث مبارکہ سے نص پکرتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ:

امام ابو داؤد السجستانیؒ (المتوفی 275ھ) روایت کرتے ہیں:

حدثنا القعنبي، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان

عن ابن محيريز أن رجلا من بني كنانة يدعى المخدجي سمع

رجلا بالشام يدعى أبا محمد يقول: إن الوتر واجب، قال المخدجي:

فرحت إلى عبادة بن الصامت فأخبرته، فقال عبادة: كذب أبو محمد، سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "خمس صلوات كتبهن الله على العباد، فمن جاء بهن لم يضيع منهن شيئا استخفافا بحقهن كان له عند الله عهد أن يدخله الجنة، ومن لم يأت بهن، فليس له عند الله عهد: إن شاء عذبه، وإن شاء أدخله الجنة"

 

ابن محیریز کہتے ہیں کہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے ایک شخص سے سنا جسے ابومحمد کہا جاتا تھا وہ کہہ رہا تھا: وتر واجب ہے، مخدجی نے کہا: میں یہ سن کر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا تو عبادہ نے کہا: ابو محمد نے غلط کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”پانچ نمازیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہو گا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہو گی تو اس کے لیے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہو گا، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے

(سنن ابو داؤد: رقم 1420، قال شیخ زبیر علی زئیؒ: اسنادہ حسن، وقال شیخ ناصر الدین البانیؒ: صحیح)

 

یہ حدیث مبارکہ اس بات پہ نص صریح رکھتی ہے کہ وتر سنت ہے، اسے ترک کرنے والا بھی جنتی ہے کیونکہ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد کا معلوم ہوتا ہے اور صحابی رسول سیدنا عبادہ بن صامتؓ یہ صریحا فرما رہے ہیں کہ وتر کو واجب کہنے والا جھوٹا ہے، سنن ابو داؤد کے مترجم نے ترجمے میں "غلط کہنے" کا ترجمہ کیا ہے، جبکہ کذب کا معنی جھوٹ بولنا بھی ہوتا ہے۔ لہزا صحابی رسول ﷺ نے صراحتا یہ بیان کردیا کہ وتر کو واجب کہنے والا جھوٹا ہے، وتر کو واجب کہنا غلط ہے۔

 

لہزا یہ ہم نے مختصرا رسول اللہ ﷺ سے مرفوعا بھی ثابت کردیا کہ وتر کو ترک کرنا عین جائز ہے اور رسول اللہ ﷺ کے آخری وقت تک کا حکم واضع کردیا کہ نبی اکرم ﷺ صرف فرض نمازوں کی پابندی کا حکم دیا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ وتر وغیرہ نفلی سنت ہیں، جنکی شریعت نے صرف ترغیب دلائی ہے جیسا کہ ہم نے سیدنا مولا علی المرتضیؑ سے اسکو صریحا واضع کردیا۔ اسکے علاوہ بہت سارے مزید صریح دلائل موجود ہیں مگر میرا نہیں خیال کہ اس کے بعد کسی ایمانتدار شخص کیلیے کوئی حجت باقی بچتی ہے۔

 

اب کچھ اندھے مقلد اتنے صریح دلائل ہونے کے باوجود اپنے قیاص کے گدھے دوڑاتے ہیں کہ اگر وتر فرض یا واجب نہیں تو پھر اسکی قضاء دینے کے کیوں اقوال و روایات موجود ہیں، اب ان کیلیے ہم انکے بزرگوں کو ہی پیش کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں عمرہ سنت ہے اور واجب نہیں ہے مگر رسول اللہ ﷺ نے خود بھی عمرہ کی قضاء دی ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پہ۔ لہزا خود احناف کے نزدیک سنت کی قضاء دینا اسکے وجوب کی دلیل نہیں ہے تو پھر احناف کے دفاع میں یہ قیاص کے گدھے کس سمت دوڑائے جارہے ہیں؟ احناف کے نزدیک عمرے کے سنت ہونے کی دلیل ملاحظہ کریں:

 

امام ابو بکر الجصاص الحنفیؒ (المتوفی 370ھ) لکھتے ہیں:

قال أبو جعفر: (والعمرة سنة، وليست بواجبة)

 

امام ابو جعفر الطحاویؒ کہتے ہیں: اور عمرہ سنت اور وہ واجب نہیں ہے۔

(شرح مختصر الطحاوي للجصاص: جلد 2 صفحہ 487)

 

اور اسی طرح امام قدوری الحنفیؒ (المتوفی 428ھ) بھی عمرے کے سنت ہونے کا باب باندھتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں:

قال أصحابنا: ‌العمرة ‌سنة

 

امام ابو یوسفؒ اور امام محمد بن حسن الشیبانیؒ کہتے ہیں: عمرہ سنت ہے۔

(التجريد للقدوري: جلد 4 صفحہ 1692 رقم 422)

 

لہزا یہ چار آئمہ کرام ہوگئے جو فقہ حنفی کے متقدمین آئمہ ہیں، امام ابو یوسفؒ، امام محمد بن حسن الشیبانیؒ، امام طحاویؒ اور امام قدوریؒ، ان چاروں نے یہ صراحتا کہا ہے کہ عمرہ سنت ہے اور اسی طرح امام ابن عابدین الشامیؒ نے اپنے حاشیے میں فقہ حنفی کا یہی مسئلہ بیان کیا ہے۔ لہزا خود فقہ حنفی کے اصولوں کے مطابق سنت کی قضاء دی جاسکتی ہے اور اس سے سنت فرض یا واجب نہیں بنتا۔ مگر وتر کے معاملے میں یہ لوگ اپنے اس اصول کے برخلاف دونمبری کرتے ہیں کہ سنت کی قضاء دینے سے وہ واجب بن جاتی ہے۔ لہزا اصول ایک ہونا چاہیے۔ اب ہمارے مخالفین کس حوالے سے اپنی فقہ حنفی کو خطاکار مانیں گے؟ بیک وقت دونو کا اب دفاع اس چیز میں تو ممکن نہیں رہا کہ سنت کی قضاء سے سنت واجب بن جائے مگر دوسری طرف وہ واجب نہ بنے؟؟؟

 

لہزا یہ ہماری طرف سے اصولی طور پہ آخری الزامی حجت ہے کہ خود احناف کے نزدیک اصولی پہ یہ استدلال باطل ہے۔ لہزا جنکا دفاع کیا جارہا ہے تو خود انہی کے نزدیک یہ چیز اصولی طور پہ درست نہیں۔

 

بہرحال یہ ہماری طرف سے آخری حجت ہے کہ اس معاملے میں ہم نے الزامی جواب بھی دیکر اس معاملے کو ختم کردیا کہ اصولی طور پہ انکا استدلال ہی غلط ہے۔ یہ من گھڑت گدھے ہی دوڑا رہے ہیں جسکا حقیقت سے تعلق صفر ہے۔ ہم نے اوپر خود رسول اللہ ﷺ سے وتر کو نفلی سنت میں شمار کرنے کی صریح دلیل نقل کردی ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کا آخری وقت تک کا حکم بھی بیان کردیا کہ صرف پانچ فرض نمازوں کے علاوہ دن رات میں کوئی دوسری نماز لازمی نہیں کہ اس کی پوچھ کچھ ہو، وہ سب نوافل ہیں سنت ہیں۔ اب جو شخص رسول اللہ ﷺ کا رد کرنا چاہتا ہے شوق سے کرے۔

واسلام: شہزاد احمد آرائیں۔