امام شافعیؒ اور مرسل روایت کا حکم
﴿امام شافعیؒ اور مرسل روایت کا حکم﴾
امام ابن کثیر الدمشقیؒ (المتوفی
774ھ) لکھتے ہیں:
وأما الشافعي فنص على أن مرسلات سعيد
بن المسيب: حسان، قالوا: لأنه تتبعها فوجدها مسندة. والله أعلم
والذي عول عليه كلامه في الرسالة
" أن مراسيل كبار التابعين حجة، إن جاءت من وجه آخر ولو مرسلة، أو اعتضدت
بقول صحابي أو أكثر العلماء، أو كان المرسل لو سمى لا يسمي إلا ثقة، فحينئذ يكون
مرسله حجة، ولا ينتهض إلى رتبة المتصل ".
قال الشافعي، وأما مراسيل غير كبار
التابعين فلا أعلم أحد أقبلها
اور جہاں تک امام شافعیؒ کا تعلق ہے
تو انہوں نے سعید بن المسیب کی مرسلات کو حسن قرار دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ: انہوں
نے اس پہ تتبع کیا تو اسے مسند پالیا۔ اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔
اور انکی کتاب الرسالہ میں انکے کلام
سے ظاہر ہوتا ہے کہ" کبائر تابعین کی مراسیل حجت ہیں، اگر وہ کسی اور طریقے
سے آئیں اگرچہ مرسل ہی ہوں، یا کسی صحابیؓ یا اکثر علماء کے قول سے تقویت حاصل
کریں، یا مرسل (بیان کرنے والا) کسی کا نام لے تو سوائے ثقہ کے کسی کا نام نہ لے،
پھر اس وقت مرسل حجت ہوتی ہے لیکن یہ متصل کے درجے تک نہیں پہنچتی۔
امام شافعیؒ کہتے ہیں: کبائر تابعین
کے علاوہ میں کسی کو نہیں جانتا جو ان (صغائر تابعین) کی مراسیل کو قبول کرتا ہو۔
(اختصار علوم الحديث: صفحہ 48، 49)
لہزا معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ کا
اصول و قائدہ یہ ہے کہ صرف تابعی کبیر کی مرسل روایت ہی شرائط و قوائد کے ساتھ
قبول کی گئی جائے گی، اور تابعی صغیر کی مرسل بالاتفاق رد کی جائے گی۔ تابعی کبیر
کی مرسل بھی تب قبول ہوگی جب اسکی کوئی مسند آجائے یا کوئی دوسری مرسل آجائے، مسند
آگئی تو معلوم ہوا کہ مرسل سند کی مسند موجود ہے اور روایت کا صحیح ہونا معلوم
ہوگیا، اور اگر مرسل آگئی تو دو مرسلات مل کر کچھ تقویت حاصل کرلیں گی، مگر پھر
بھی مسند سے حاصل ہونے والی تقویت سے کمزور ہی ہوگی، اور کسی صحابیؓ کی موقوف
روایت اس مرسل کے حق میں مل جائے تو بھی اسکو تقویت ملے گی اور اسی طرح آئمہ کرامؒ
اگر اس مرسل کو قبول کر کے اس پہ فتوی یا اقوال کہتے ہوں تو وہ بھی اسے تقویت ملے
گی۔ اور اگر مرسل بیان کرنے والا کبیر تابعی سوائے ثقہ کے کسی سے روایت نہ کرتا ہو
تو بھی اسکی مرسل کو قبول کیا جاسکتا ہے اور اگر ضعفاء اور مجہولین سے روایت کرتا
ہے تو قبول نہیں کی جائے گی۔ اتنی شرائط کے باوجود بھی امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ
مرسل پھر بھی مرسل ہی ہے، اسکا درجہ کم ہی رہے گا اور متصل روایت اس سے برتر ہی
رہے گی۔ پھر امام شافعیؒ نے امام سعید بن المسیبؒ کی مراسیل کو حسن قرار دیا،
ملاحظہ کیجیے:
امام شافعیؒ کے صاحب امام اسماعیل بن
یحیی بن اسماعیل ابو ابراہیم المزنیؒ (المتوفی 264ھ) فرماتے ہیں:
وإرسال ابن المسيب عندنا حسن
امام شافعیؒ فرماتے ہیں: اور ابن مسیب
کا ارسال میرے نزدیک حسن ہے۔
(مختصر المزني - ت الداغستاني: جلد 1 صفحہ 417 رقم 1043)
اور اسی طرح امام شافعیؒ فرماتے ہیں
کہ:
وليس المنقطع بشيء، ما عدا منقطع
ابن المسيب
اور منقطع کوئی چیز نہیں ہے، ماسوائے
ابن المسیب کی منقطع (مرسل) کے۔
(آداب
الشافعي ومناقبه لابن ابی حاتم: صفحہ 178 وسنده صحيح)
لہزا امام ابن کثیرؒ کا یہ قول نقل
کرنا کہ امام سعید بن المسیبؒ کی مراسیل کو امام شافعیؒ حسن مانتے تھے یعنی قبول
کرتے تھے تو وہ قول امام شافعیؒ سے ثابت ہے اور امام ابن کثیرؒ نے یہ بھی صراحت
کردی کہ امام شافعیؒ نے امام سعید بن المسیبؒ کی مراسیل پہ تحقیق کی تو انہیں مسند
پالیا۔ كيونكه وہ بغیر تحقیق مطلقا انہیں قبول نہیں کررہے۔ لہزا وہ امام شافعیؒ کے
اصول پہ پوری اتری تو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔ اور امام شافعیؒ کی کتاب
"الرسالہ" میں تفصیل سے امام شافعیؒ نے کبیر تابعی کی مرسل روایت پہ
اصولی بحث کی ہے، جس کو نقل کرنا طوالت کا باعث ہوتا تو ہم نے وہی چیز اختصار سے
امام ابن کثیرؒ سے نقل کردی جو انہوں نے خود اسی کتاب سے نقل کی ہے۔ واضع رہے کہ
امام شافعیؒ کا یہ اصول اور کتاب آئمہ کے یہاں مقبول و معروف ہے، یہاں تک کہ کتاب
ایسی مقبول تھی کہ بعض اوقات آئمہ نے کسی کی تردید کرنی ہوتی تو کہتے کہ یہ امام
شافعیؒ کی کتاب "الرسالہ" کی نص اور قول کے خلاف ہے۔ کیونکہ امام شافعیؒ
نے کمال عمدہ طریقے سے ان فنون پہ کلام کیا ہے۔ مثال کے طور پہ امام زرکشیؒ نے
اپنی کتاب النکت میں امام ابن صلاحؒ کا قول صرف یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ امام
شافعیؒ کی کتاب الرسالہ میں موجود نص کے خلاف ہے۔
(النكت
على مقدمة ابن الصلاح للزركشي: جلد 1 صفحہ 459 رقم 130)
ان شاء اللہ، موقع ملا تو ہم آئندہ
بھی اس موضوع پہ تحاریر لکھیں گے۔ ان شاء اللہ۔
تحریر: شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment