-->

فضائل و رقائق میں ضعیف روایت کو حجت ماننے والوں پہ امام ابن حزمؒ کا رد

 

﴿فضائل و رقائق میں ضعیف روایت کو حجت ماننے والوں پہ امام ابن حزمؒ کا رد﴾

 

الامام الفقہی المحدث فخر الاندلس ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزمؒ (المتوفی 456ھ) فرماتے ہیں:

قال علي ومما غلط فيه بعض أصحاب الحديث أنه قال فلان يحتمل في الرقائق ولا يحتمل في الأحكام

قال أبو محمد وهذا باطل لأنه تقسيم فاسد لا برهان عليه بل البرهان يبطله وذلك أنه لا يخلو كل أحد في الأرض من أن يكون فاسقا أو غير فاسق فإن كان غير فاسق كان عدلا ولا سبيل إلى مرتبة ثالثة فالعدل ينقسم إلى قسمين فقيه وغير فقيه فالفقيه العدل مقبول في كل شيء والفاسق لا يحتمل في شيء والعدل غير الحافظ لا تقبل نذارته خاصة في شيء من الأشياء لأن شرط القبول الذي نص الله تعالى عليه ليس موجودا فيه ومن كان عدلا في بعض نقله فهو عدل في سائره ومن المحال أن يجوز قبول بعض خبره ولا يجوز قبول سائره إلا بنص من الله تعالى أو إجماع في التفريق بين ذلك وإلا فهو تحكم بلا برهان وقول بلا علم وذلك لا يحل

 

امام ابن حزمؒ کہتے ہیں: اور اس میں بعض اصحاب الحدیث نے غلطی کہ انہوں نے کہا کہ: فلاں شخص رقائق میں تو قبول ہے اور احکام میں قبول نہیں ہے۔

امام ابن حزمؒ کہتے ہیں: اور یہ باطل ہے، کیونکہ یہ تقسیم فاسد ہے، اس پہ کوئی برہان (دلیل) نہیں ہے بلکہ برہان اسے باطل کرتا ہے، اور وہ یہ کہ زمین پہ موجود ہر شخص اس سے خالی نہیں ہوتا کہ وہ فاسق ہوتا ہے یا پھر فاسق نہیں ہوتا ہے، تو اگر وہ فاسق نہیں ہے تو وہ عادل ہے، اور تیسرے مرتبے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اور عادل کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: فقيه اور غیر فقيه، تو فقیہ عادل ہر چیز میں مقبول ہے اور فاسق کسی چیز میں قبول نہیں ہے۔ اور غیر حافظ عادل کی خبر خاص طور پہ چیزوں میں کسی چیز میں قبول نہیں کی جاتی، کیونکہ اللہ تعالی نے قبولیت کی جو شرط بیان کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے، اور جو اپنی بعض نقل میں عادل ہوتا ہے وہ باقی میں بھی عادل ہے، اور يه ناممکن ہے کہ اسکی بعض اخبار کو قبول کرنا جائز ہو اور باقی کو قبول کرنا جائز نہ ہو سوائے اللہ تعالی کی کسی نص اور اجماع کی بنا پہ ان میں تفریق کرنے کے۔ اور اسکے علاوہ يه بغیر دلیل کے حکم ہے اور بغیر علم کے قول ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔

(الإحكام في أصول الأحكام: جلد 1 صفحہ 143)

 

امام ابن حزمؒ اپنے اس کلام میں ان آئمہ محدثین کا رد کررہے ہیں جو فضائل، رقائق، ترغیب وغیرہ میں تو ضعیف کو قبول کرنے کے قائل ہیں انہیں حجت مانتے ہیں مگر احکام میں اس کو رد کردیتے ہیں۔ تو امام ابن حزمؒ اس قول کو باطل قرار دیتے ہوئے ہیں کہ قرآن مجید میں جو اللہ تعالی نے نص قائم کی ہے تو اس میں فاسق کی خبر ہر چیز میں مردود ہوگی اور غیر فاسق یعنی عادل شخص کی خبر ہر چیز میں مقبول ہوگی، اور اسی طرح غیر حافظ عادل شخص کا معاملہ ہے تو اسکی خبر بھی یا تو مقبول ہوگی یا پھر مردود، یہ نہیں کہ بعض چیزوں میں قبول کرلیں اور بعض میں رد کردیں گے کیونکہ جو راوی احکام کو یاد نہیں رکھ سکتا تو وہ کسطرح فضائل وغیرہ کی احادیث کو یاد رکھ سکتا ہے؟ امام ابن حزمؒ کے مطابق اس تفریق کا کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ دلیل اسکے برخلاف ہے۔ اور یہی موقف ہمارا ہے کہ ہم ضعیف روایات کو مطلقا حجت نہیں مانتے الہ یہکہ وہ تقویت پاکر پایہ ثبوت کو پہنچ جائیں۔

والسلام: شہزاد احمد آرائیں۔