-->

امام شافعی کی گمنامی کی خواہش

﴿امام شافعیؒ کی گمنامی کی خواہش﴾

 

امام ابن ابی حاتم الرازیؒ (المتوفی 327ھ) امام شافعیؒ کے مناقب تصنیف کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ:

أخبرنا الربيع، قال: " سمعت الشافعي، ودخلت عليه وهو مريض، فذكر ما وضع من كتبه، فقال: لوددت أن الخلق تعلمه، ‌ولم ‌ينسب ‌إلي ‌منه ‌شيء أبدا "

 

مجھے امام ربیع بن سلیمان المرادیؒ نے خبر دی اور کہا:

میں نے امام شافعیؒ کو سنا، اور انکے پاس (اس وقت) داخل ہوا جب وہ بیمار تھے۔ تو انہوں نے اپنی تصنیف کردہ کتابوں کا ذکر کیا، پھر کہا:

میں چاہتا ہوں کہ تمام لوگ اس سے علم حاصل کریں، اور اس میں سے کوئی چیز میری طرف کبھی بھی منسوب نہ کی جائے۔

(آداب الشافعي ومناقبه: صفحہ 68 صحیح)

 

میرے خیال میں یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب امام شافعی بیمار تھے اور ممکنہ طور پر اپنی زندگی کے آخری ایام سے گزر رہے تھے۔ اس حالت میں بھی ان کا اپنی کتابوں اور علم کے بارے میں سوچنا، اور پھر اسے اپنی طرف منسوب نہ کرنے کی خواہش ظاہر کرنا، ان کی روحانی، اخلاقی اور شخصی بلندی کو دکھاتا ہے۔ بیماری اور کمزوری کی حالت میں جہاں انسان عموما اپنی ذات کی فکر میں ہوتا ہے، وہاں امام شافعیؒ کی فکر امت کے مستقبل اور علم کی ترویج کے لیے تھی۔ یہ ان کی عظیم شخصیت اور ایمان کی مضبوطی کی دلیل ہے۔

 

امام شافعی کا یہ قول کہ "ولم ينسب إلي منه شيء أبدا" (اور اس میں سے کوئی چیز میری طرف کبھی بھی منسوب نہ کی جائے) ان کے اخلاص کی ایک شاندار مثال ہے۔ اس دور میں جب علماء اپنی تصنیفات اور اجتہادات کی وجہ سے شہرت حاصل کرتے تھے، امام شافعی کی یہ خواہش کہ ان کا نام ان کے علم سے منسوب نہ ہو، اور وہ اس شہرت کے فتنے سے محفوظ رکھے جائیں، یہ چیز ان کی عاجزی اور اللہ کے لیے خالص نیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اس چیز کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ علم ایک امانت ہے، جو اللہ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے، اور اس کا مقصد صرف اللہ کی رضا اور امت کی خدمت ہونا چاہیے، نہ کہ ذاتی شہرت یا ناموری۔

 

حدیث نبوی ﷺ ہے:

"إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى"

 

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی۔ (صحیح البخاری)

 

امام شافعی کا یہ بیان ان کی نیت کی پاکیزگی اور اللہ کے لیے اخلاص کو ظاہر کرتا ہے کہ انکی نیت خالص اللہ تعالی کی رضا کیلیے تھی، وہ اس میں ذرا برابر بھی اپنی شہرت نہیں چاہتے تھے۔ مگر اللہ تعالی نے نہ انکی اس خلوص نیت کا پھل انکو یہ عنایت فرمایا کہ نہ صرف دنیا میں انکو سرخرو کیا بلکہ ان شاء اللہ تعالی ہمیں یہی امید ہے کہ اللہ تعالی انہیں آخرت میں بھی سرخرو فرمائیں گے۔

 

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب امام شافعیؒ اسکی خواہش رکھتے تھے تو اس پہ عمل کیوں نہ کیا تو اسکا جواب یہ ہے کہ امام شافعیؒ نے خود اپنے علم کو مجھول بن کر جاری اس لیے نہیں کیا کہ یہ امت مجھولین سے دین قبول نہیں کرتی۔ اس لیے انکو اپنی شخصیت امت میں جرح و تعدیل کیلیے پیش کرنی تھی۔ بس یہی سبب ہے کہ وہ اپنی اس گمنامی کی خواہش کو جامع طور پہ مکمل نہ کرسکے۔ انکو اپنی ذات اپنے علم کے ساتھ امت کے سامنے رکھنی پڑی اور امت نے اسکو پرکھا اور پرکھ کر اسکو قبول کیا۔

 

اللہ تعالی ہم سب کو بھی شہرت کے فتنے سے محفوظ رکھے اور اپنے علم کو خالص اللہ کی رضا کیلیے وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔۔۔

 

والسلام: ابو الحسنین ڈاکٹر شہزاد احمد آرائیں