اس خائن کا رد جو علم و تحقیق سے محروم ہے اور امام ابن سیرینؒ کے قول کا دفاع
﴿رد علی الخائن المحروم
من العلم والبحث ودفاع قول الامام ابن سیرین﴾
[اس
خائن کا رد جو علم و تحقیق سے محروم ہے اور امام ابن سیرینؒ کے قول کا دفاع]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے ایک دوست کی ایک
تحریر شیئر کی تھی جس کا رد ایک مجھول جاہل رضا خانی نے لکھا ہے، ہماری تو ہنسی نہیں
رکی اسکی جہالت دیکھ کر کہ کوئی شخص اتنا بھی جاہل ہوسکتا ہے اور اس قدر ہٹ درمی سے
عوام کو گمراہ کرنے کیلیے کذب بیانی کرسکتا ہے۔ خیر ہماری روایت ملاحظہ کریں:
الامام ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہؒ الکوفی (المتوفی 235ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا أبو أسامة عن عوف
عن محمد قال: يكون في هذه الأمة خليفة لا يفضل عليه أبو بكر ولا عمر
جلیل القدر تابعی امام
محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں: اس امت میں ایسا خلیفہ ہوگا جس پہ نہ تو سیدنا ابو بکرؓ
اور نہ ہی سیدنا عمرؓ کو فضیلت دی جاسکتی ہے۔
(المصنف
بن أبي شيبة - ت الشثري: جلد 21 صفحه 403 رقم 40444، وسنده صحيح)
امام جلال الدین السیوطیؒ
اسکی سند کو صحیح قرار دیتے ہیں: (العرف الوردي: رقم 177)
موصوف کا موقف ہے کہ اصول
محدثین پہ یہ روایت باطل و مردود ہے، سب سے پہلے تو ہمارا بریلوی گدھے سے سوال ہے کہ
یہ کون سی حدیث ہے؟ کیا وہ امام محمد بن سیرینؒ کو نبی مانتا ہے کہ اس پہ اصول حدیث
لاگو کررہا ہے، (جبکہ احناف عموما اصول حدیث لاگو کرنے کے قائل نہیں، یہ تو سلفی
فرقے کا منہج معروف ہے)؟ عین ممکن ہے اور بریلویوں سے کچھ بھی بعید نہیں۔
دوئم یہکہ ہم موصوف کو
اسکے استدلال پہ جواب دیتے ہیں کہ یہ روایت اصول محدثین پہ بھی صحیح و ثابت ہے، جناب
نے امام محمد بن سیرینؒ کے شاگرد عوف بن جمیلہ پہ اعتراض کیا ہے، اسکی حقیقت ملاحظہ
کریں:
امام ابن سیرینؒ کے شاگرد امام عوف بن ابی جمیلہ الاعرابیؒ کے متعلق جرح و تعدیل کے اقوال:
1۔ امام ابن سعد: ثقہ کثیر الحدیث، وکان یتشیع
(الطبقات
الكبرى - ط العلمية: جلد 7 صفحہ 191 رقم 3220)
2۔ امام ابو حاتم الرازیؒ:
صدوق صالح الحدیث
(الجرح
والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 7 صفحہ 15)
3۔ امام یحیی بن معینؒ:
ثقہ
(الجرح
والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 7 صفحہ 15)
وكان قدريا ثقة
(المؤتلف
والمختلف للدارقطني: جلد 1 صفحہ 254)
4۔ امام احمد بن حنبلؒ:
ثقہ صالح الحدیث
(الجرح
والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 7 صفحہ 15)
5۔ مروان بن معاویہ الکوفی:
كان يسمى الصدوق
(الجرح
والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 7 صفحہ 15)
6۔ امام ابن حبانؒ: ذکرہ فی الثقات
(الثقات
لابن حبان: جلد 7 صفحہ 296)
واخرجہ فی الصحیح
(صحيح ابن
حبان: التقاسيم والأنواع: جلد 4 صفحہ 12 رقم 2975)
7۔ امام نسائیؒ: ثقہ ثبت
(تهذيب
الكمال في أسماء الرجال: جلد 22 صفحہ 440)
8۔ محمد بن عبد الله الأنصاري:
عوف الصدوق
(تهذيب
الكمال في أسماء الرجال: جلد 22 صفحہ 440)
كان أثبتهم جميعا
(تهذيب
التهذيب: جلد 8 صفحہ 167)
9۔ شمس الدین الذھبیؒ:
الامام الحافظ ثقة مكثر
(سير أعلام
النبلاء - ط الرسالة: جلد 6 صفحہ 383)
10۔ امام بخاریؒ: اخرجہ فی الصحیح
(صحیح بخاری:
رقم 3915، 2225 وغیرہ)
11۔ امام مسلمؒ: اخرجہ فی الصحیح
(صحیح مسلم:
رقم 1564)
امام حاکمؒ لکھتے ہیں
کہ ان سے روایت لینے پہ امام بخاریؒ و مسلمؒ کا اتفاق ہے۔
(تسمية
من أخرجهم البخاري ومسلم: صفحہ 195 رقم 1263)
12۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ:
ثقة رمي بالقدر وبالتشيع
(تقريب
التهذيب: صفحہ 433 رقم 5215)
13۔ امام ترمذیؒ: حدیث حسن صحیح
(جامع الترمذی:
رقم 2485، 2955)
14۔ امام ابن خزیمہؒ:
اخرجہ فی الصحیح
(صحيح ابن
خزيمة: جلد 2 صفحہ 69 رقم 942)
15۔ امام ابو عوانہؒ:
اخرجہ فی المستخرج
(مستخرج
أبي عوانة: جلد 1 صفحہ 523 رقم 338)
(مستخرج
أبي عوانة: جلد 3 صفحہ 149 رقم 942) وغیرہ
16۔ امام حاکمؒ: صحيح الحديث علی شرط بخاری و مسلم
(المستدرك
على الصحيحين للحاكم: رقم 15)
وافقه ذهبي في التعليق
علي المستدرك
17- ابو نعیم اصفہانی: اخرجہ فی المستخرج
(المسند
المستخرج على صحيح مسلم: جلد 2 صفحہ 278 رقم 1535)
18- ضیاء المقدسی: اخرجہ فی المستخرج
(المستخرج
من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما: جلد 10 صفحہ 31 رقم
2751)
19- ابن جارود نیشاپوری: اخرجہ
فی الصحیح
(كتاب المنتقى
- ابن الجارود - ط الثقافية: ص105 رقم 389)
20- ابن حزم ظاہری: اخرجہ فی الصحیح
(كتاب المحلى
بالآثار: جلد 9 صفحہ 74)
(كتاب المحلى
بالآثار: جلد 3 صفحہ 406)
(كتاب المحلى
بالآثار: جلد 8 صفحہ 418) وغیرہ
یہ ہم نے مختصرا اس راوی
کی تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں، اور اس سے بلکل واضع ہورہا ہے کہ یہ راوی صحیحین کی
شرط کا راوی ہے، شیخین نے متفقہ طور پہ ان سے احادیث لی ہیں اور باقی آئمہ کرام نے
بھی انکی احادیث صحیح قرار دیتے ہوئے قبول کی ہیں۔ لہزا جو جہلاء ان پہ کذب وغیرہ کی
تہمتیں لگاتے پھر رہے ہیں وہ محدثین کے منکر اور محدثین پہ تہمت لگانے والے خبیث لوگ
ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین کذاب رواۃ کو ثقہ قرار دیتے اور ان سے احادیث صحیح
کا حکم لگا کر لیتے تھے، اللہ ایسے جہلاء کو تباہ و برباد کرے۔ آمین
اب ان پہ بدعت کی تہمت کے اقوال ملاحظہ کریں:
1۔ امام ابن سعد کہتے ہیں کہ یہ شیعہ تھے۔
(الطبقات
الكبرى - ط العلمية: جلد 7 صفحہ 191 رقم 3220)
2۔ امام عبد الله بن مباركؒ:
امام عقیلی باسند انکا
قول نقل کرتے ہیں کہ:
حدثنا عبد الله بن أحمد،
حدثنا محمد بن أبي بحر المقدم قال: سمعت عمرو بن علي يقول: رأيت عبد الله بن المبارك
يقول لجعفر بن سليمان: رأيت أيوب وابن عون ويونس فكيف لم تجالسهم وجالست عوفا؟ والله
ما رضي عوف ببدعة واحدة حتى كانت فيه بدعتان: كان قدريا وكان شيعيا
عمرو بن علی کہتے ہیں:
میں نے امام عبد اللہ بن مبارک کو جعفر بن سلیمان سے کہتے ہوئے سنا: میں نے ایوب، ابن
عون اور یونس کو دیکھا ہے تو کیسے تم نے انکی مجلس اختیار نہیں کی اور عوف کی مجلس
اختیار کرلی؟ واللہ عوف ایک بدعت سے راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ اس میں دو بدعتیں ہوگئی،
وہ قدری تھا اور وہ شیعہ تھا۔
(الضعفاء
الكبير للعقيلي: جلد 3 صفحہ 429 رقم 1471)
یہ قول امام عبد اللہ
بن مبارکؒ سے ثابت نہیں بلکہ غیر محفوظ ہے۔ مندرجہ ذیل نقاط کی بنیاد پہ:
1۔ اسکی سند میں محمد
بن ابی بحر المقدم کی نام میں تضحیف ہوئی ہے، یہ راوی محمد بن ابی بکر المقدم ہے جوکہ
ثقہ ہے۔
2۔ عمرو بن علی الفلاس
کا امام عبد اللہ بن مبارکؒ کا شاگرد ہونا ثابت نہیں، آئمہ رجال محدثین میں سے کسی
نے بھی عمرو بن علی الفلاس کے اساتذہ میں امام عبد اللہ بن مبارکؒ کا ذکر نہیں کیا۔
لہزا یہ چیز ثابت نہیں کہ عمرو بن علی الفلاس برائے راست امام عبد اللہ بن مبارک سے
روایت کرتے ہوں۔
3۔ عمرو بن علی الفلاس
کا امام عبد اللہ بن مبارک سے سماع اور انکو دیکھنا ثابت نہیں، اس روایت میں یہاں رواۃ
کو کوئی وہم ہوا ہے۔ اسکے دلائل اول تو عمرو بن علی الفلاس اور امام عبد اللہ بن مبارکؒ
کے طبقات کا فرق ہے۔ انکے طبقات کو دیکھیں تو کم از کم بھی ایک شخص انکے درمیان ہونا
لازمی ہے، جیسا کہ:
امام ابن حجر عسقلانیؒ
عمرو بن علی الفلاس کے متعلق لکھتے ہیں:
من العاشرة
یہ دسویں طبقے میں سے
ہے۔
(تقريب
التهذيب: صفحہ 424 رقم 5081)
اور امام عبد اللہ بن
مبارکؒ کے متعلق لکھتے ہیں:
من الثامنة
یہ آٹھویں
طبقے میں سے ہے۔
(تقريب
التهذيب: صفحہ 320 رقم 3567)
لہزا
معلوم ہوا کہ ایک طبقے کا فرق ہے دونو کے درمیان میں اور یہ چیز مزید انکی تاریخ وفات
کو دیکھ کر معلوم ہوجاتی ہے:
امام
عبد اللہ بن مبارکؒ: 181ھ میں فوت ہوئے ہیں۔
جعفر
بن سلیمان الضبعی: 178ھ میں فوت ہوئے ہیں۔
جبکہ
عمرو بن علی الفلاس: 249ھ میں فوت ہورہے ہیں۔
لہزا
یہاں سے بھی اسکا تعین ہوتا ہے کہ انکے درمیان کم از کم بھی ایک واسطہ ضرور ہونا چاہیے،
کیونکہ خود روایت کرنے کیلیے عمرو بن علی الفلاس کو کم از کم بھی ستر، پچھتر سال سے
زائد کی عمر درکار ہے اور اگر واقعی ایسا ہوتا تو پھر اس سے سند کا اعلی ہونا بھی محدثین
کے یہاں معروف ہونا چاہیے تھا کیونکہ پورا ایک طبقہ یہاں انکی سند سے خارج ہورہا ہے۔
جب کہ ایسا نہیں ہے۔ اور پورے ذخیرہ حدیث میں مجھے عمرو بن علی کے اس قول کے علاوہ
اور کوئی روایت امام عبد اللہ بن مبارکؒ سے نہیں ملی، جب بھی یہ امام عبد اللہ بن مبارکؒ
سے روایت کرتے ہیں تو درمیان میں ایک طبقے کا اضافہ کرتے ہیں، کسی راوی کے واسطے سے
ہی یہ امام عبد اللہ بن مبارکؒ سے روایت کرتے ہیں۔
میں اسکی تین مثالیں درج کرتا ہوں:
1۔ امام ابو عبد الرحمن
احمد بن شعیب النسائیؒ لکھتے ہیں:
أخبرنا
عمرو بن علي قال: حدثنا عبد الرحمن قال: حدثني عبد الله بن المبارك، عن سعيد
بن يزيد، عن يزيد بن أبي حبيب۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
(السنن
الكبرى - ط الرسالة: جلد 8 صفحہ 51 رقم 8620)
2۔ امام ابو بکر البزارؒ
لکھتے ہیں:
حدثنا
عمرو بن علي، حدثنا مسلم، حدثنا عبد الله بن المبارك، عن موسى بن عقبة، عن سالم،
عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔۔۔۔ الخ
(مسند البزار:
جلد 12 صفحہ 272 رقم 6056)
3۔ امام محمد بن ہارون
الرویانیؒ لکھتے ہیں:
نا عمرو
بن علي، نا عبد الله بن سنان ، نا عبد الله بن المبارك ، عن يحيى بن أيوب، عن
عبيد الله بن زحر، عن علي بن يزيد۔۔۔۔ الخ
(مسند الروياني:
جلد 2 صفحہ 276 رقم 1193)
لہزا آپ دیکھ سکتے ہیں
کہ جب بھی عمرو بن علی کی روایت امام عبد اللہ بن مبارک کے طریق سے آتی ہے تو ایک واسطے
کا اضافہ ہوتا ہے، اسی چیز کی صراحت امام ابن حجر عسقلانیؒ نے کی، یہی چیز انکے طبقات
اور انکی تاریخ وفات کو دیکھ کر معلوم ہوتی ہے، اور مزید یہ انکی روایات و اسناد بھی
واضع کردیتی ہیں۔
لہزا معلوم ہوا کہ امام
عبد اللہ بن مبارک سے عمرو بن علی الفلاس کا سماع نہیں ہے، بلکہ درمیان میں ایک واسطہ
لازمی ہوتا ہے۔ مزید یہکہ اس روایت کا متن بھی عجیب و غریب نکارت کا حامل ہے، امام
عبد اللہ بن مبارکؒ ایک معروف شیعہ راوی جعفر بن سلیمان کو اس بات کا کہہ رہے ہیں کہ
وہ دوسرے شیعہ راوی کی مجلس میں کیوں بیٹھا۔
جعفر بن سليمان الضبعی
کے شیعہ ہونے کے متعلق میں زیادہ تفصیل میں جائے بغیر امام ابن عدی الجرجانیؒ کا کلام
نقل کرتا ہوں کہ وہ لکھتے ہیں:
وهو حسن الحديث، وهو معروف
في التشيع
اور یہ حسن الحدیث ہے،
اور یہ تشیع میں معروف ہے۔
(الکامل
ابن عدی: جلد 2 صفحہ 389)
تو کیا یہ عجیب کلام نہیں
کہ آپ ایک شیعہ کو اس بات کا طعنہ دیں کہ اس نے دوسرے شیعہ کی مجلس کیوں اختیار کی؟
لہزا
اس سارے کلام کی بنیاد پہ یہ چیز بلکل واضع ہوجاتی ہے کہ مندرجہ بالا قول امام عبد
اللہ بن مبارکؒ سے ثابت نہیں، بلکہ یہاں رواۃ کو وہم ہوا ہے اور یہ غیر محفوظ ہے۔ لہزا
اس سے استدلال مردود ہے۔
3۔ داؤد بن ابی ہند:
امام عقیلیؒ اسکو باسند
نقل کرتے ہیں کہ:
حدثنا عبد الله بن أحمد،
حدثنا أبو الربيع الزهراني، حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري قال: رأيت داود بن أبي
هند يضرب عوفا الأعرابي يقول: ويلك يا قدري، ويلك يا قدري
محمد بن عبد الله الانصاری
کہتے ہیں: میں نے داؤد بن ابی ھند کو عوف الاعرابی پہ ضرب لگاتے ہوئے دیکھا، وہ کہہ
رہے تھے: ہائے ہو اے قدری، ہائے ہو اے قدری۔
)الضعفاء الكبير للعقيلي: جلد 3 صفحہ 429 رقم
1471(
4۔ محمد بن بشار بندار:
امام عقیلیؒ انکا قول
باسند نقل کرتے ہیں:
حدثنا محمد بن أحمد قال:
سمعت بندارا، وهو يقرأ علينا حديث عوف فقال: يقولون: عوف، والله لقد كان عوف قدريا
رافضيا شيطانا
محمد بن احمد نے ہم سے
بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے بندار کو سنا، جب وہ ہمیں عوف کی حدیث پڑھا رہے تھے
تو انہوں نے کہا: کہتے ہیں: عوف، واللہ! عوف قدری، رافضی اور شیطان تھا۔
)الضعفاء الكبير للعقيلي: جلد 3 صفحہ 429 رقم
1471(
ناصبی بریلوی خائن نے
اس قول کو تو میزان الاعتدال سے اٹھا کر نقل کردیا مگر امام ذھبیؒ کا نے دوسرے مقام
پہ اسکا جو رد کیا ہے وہ نہیں بتایا عوام کو کہ آئمہ کے نزدیک یہ قول غلط ہے اور اصل
بات اسکے برعکس ہے۔
لہزا امام ذھبیؒ اپنی
دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
عوف الأعرابي:
ثقة كبير، قال بندار:
"كان قدرياً رافضياً". وشيعي أصح
عوف الاعرابی، ثقہ بزرگ
ہیں، بندار کہتے ہیں: یہ قدری رافضی ہیں۔ مگر شیعہ اصح ہے۔
)من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث: صفحہ
417 رقم 274(
ایک اور کتاب میں امام
ذھبیؒ لکھتے ہیں:
عوف الأعرابي ثقة مشهور
حديثه في الكتب قال بندار قدري شيعي
عوف الاعرابی ثقہ ہے،
اسکی احادیث کتب میں مشہور ہیں، بندار نے کہا: قدری شیعہ ہے۔
)الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردهم:
148 رقم 64(
امام ذھبیؒ کی کتب کے
عنوان سے ہی واضع معلوم ہو رہا ہے کہ امام ذھبیؒ نے ان کتب میں ان رواۃ کا ترجمہ قائم
کیا ہے جن پہ جروحات ہوئی ہیں مگر وہ جروحات مردود ہیں یا ان میں کوئی نقص ہے، اور
اسی طرح اس جرح کا رد امام ذھبیؒ کرتے ہیں کہ محمد بن بشار بندار کا قول کہ یہ قدری
رافضی شیطان ہے، غلط ہے اور اسکے برعکس اسکا شیعہ ہونا زیادہ اصح قول ہے۔
اور
امام ذھبیؒ عوف بن ابی جمیلہ کے متعلق اس طرح کے تمام اقوال جو ہم نے اوپر ذکر کیے
ہیں نقل کرتے ہیں اور پھر اس قول کے بعد لکھنے کے بعد ان سب کا رد نہایت ہی مختصر الفاظ
میں کرتے ہیں کہ:
قلت:
لكنه ثقة، مكثر
میں کہتا ہوں کہ: لیکن
وہ ثقہ اور مکثر (یعنی کثیر الحدیث) ہیں
)سير أعلام النبلاء
- ط الرسالة: جلد 6 صفحہ 384(
لہزا معلوم ہوا کہ عوف
بن ابی جمیلہ کا قدری یا شیعہ ہونا کسی طرح بھی اسکی روایات کیلیے نقصان دہ نہیں، ورنہ
امام ذھبیؒ جیسے نقاد ماہر محدث اسکا اس طرح دفاع نہ کرتے۔
نیز یہ کہ یہ شیعہ کی
جرح غیر مفسر ہے، عوف بن ابی جمیلہ کس قسم کا شیعہ تھا، اسکی کوئی تصریح موجود نہیں،
لہزا یہ جاننا نہایت اہم ہے کہ آئمہ متقدمین جب کسی راوی پہ شیعہ کا کلام کرتے ہیں
اور اسے مفسر نہیں کرتے کہ وہ کس قسم کا شیعہ تھا تو اسکا عموما مفہوم کیا ہوتا ہے:
امام ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:
فالتشيع في عرف المتقدمين
هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ
مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله
-صلى الله عليهآله وسلم-، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته
بهذا، لا سيما إن كان غير داعية، وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا
تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة
متقدمین کے نزدیک تشيع
یہ ہے کہ سیدنا مولا علیؑ کو سیدنا عثمانؓ سے افضل سمجھا جائے، اور یہ کہ سیدنا علیؑ
اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور ان کے مخالف غلط تھے۔ اسکے ساتھ وہ شیخین (سیدنا ابو
بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما) کو فضیلت دیتے اور ان کو مقدم کرتے تھے۔ ان میں
سے کچھ لوگوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ سیدنا مولا علیؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ
وسلم کے بعد مخلوق میں سب سے افضل ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو اور وہ متقی،
دیندار، سچا اور مجتہد ہو تو اس کی روایت اس عقیدے کی وجہ سے رد نہیں کی جائے گی، خاص
طور پر اگر وہ داعی نہ ہو۔ متاخرین کے نزدیک تشيع کا مطلب محض رفض ہے، لہذا غالی رافضی
کی روایت قبول نہیں کی جائے گی اور اس کی کوئی عزت نہیں ہوگی۔
)تهذيب التهذيب: جلد 1 صفحہ 94(
یہ امام ابن حجر عسقلانیؒ
نے متقدمین آئمہ کے شیعہ کہنے کے قول کو کھل کر واضع کردیا کہ انکے قول پہ جب رواۃ
کو شیعہ کہا جاتا ہے تو اسکا کیا مفہوم ہوتا ہے، اور امام ابن حجر عسقلانیؒ کے نزدیک
متقدمین کے شیعہ قرار دیے گئے رواۃ کی روایت مطلقا قبول کی جائے گی اور اس کے شیعہ
ہونے کی وجہ سے اس کی روایت کو رد نہیں کیا جائے گا، اگرچہ وہ داعی ہو، مگر جب دائی
نہ ہو تو بلخصوص اسکی روایت کو قبول کیا جائے گا۔
امام ابن حجر عسقلانیؒ
کا یہ مفسر کلام اس ہمارے لیے واضع دلیل ہے کہ اول تو عوف بن ابی جمیلہ کا شیعہ ہونا
اسی تعریف میں آتا ہوگا کیونکہ وہ اس قسم کا شیعہ تھا اسکی تصریح موجود نہیں، دوئم
یہکہ عوف بن ابی جمیلہ غیر داعی ہے لہزا اسکی روایت بالخصوص قبول کی جائے گی۔
امام ابن حبانؒ کے قول کا غلط استعمال:
اب ہم امام ابن حبانؒ
کے قول کی وضاحت کرتے ہیں اور امام ابن حبانؒ کا اصل منہج عوام الناس کے سامنے واضع
کرتے ہیں تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ ناصبی بریلوی خائن جہلاء اپنے خائن اساتذہ سے
اندھی تقلید کرتے ہوئے آئمہ کے اقوال کو بغیر معرفت کے کاپی پیسٹ کرکے ناصبیت کا منجن
بیچ رہے ہوتے ہیں۔
لہزا یہ ضروری ہے کہ امام
ابن حبانؒ کا منہج انکے کلام کے پورے سیاق کو سامنے رکھ کر سمجھا جائے، جیسا کہ امام
ابن حبانؒ لکھتے ہیں:
وأما المنتحلون المذاهب
من الرواة مثل الإرجاء والترفض وما أشبههما فإنا نحتج بأخبارهم إذا كانوا ثقات على
الشرط الذي وصفناه ونكل مذاهبهم وما تقلدوه فيما بينهم وبين خالقهم إلى الله جل وعلا،
إلا أن يكونوا دعاة إلى ما انتحلوا. فإن الداعي إلى مذهبه والذاب عنه حتى يصير إماما
فيه وإن كان ثقة ثم روينا عنه جعلنا للاتباع لمذهبه طريقا وسوغنا للمتعلم الاعتماد
عليه وعلى قوله. فالاحتياط ترك رواية الأئمة الدعاة منهم والاحتجاج بالثقات الرواة
منهم على حسب ما وصفنا
اور جو راوی مذہبوں کے
پیروکار ہیں، جیسے مرجئہ اور رافضہ اور ان کے مشابہ، تو اگر وہ ثقہ ہوں تو ہم ان کی
روایات سے احتجاج کرتے ہیں، اس شرط پر جو ہم نے بیان کی ہے۔ اور ہم ان کے مذہبوں اور
ان کے اور ان کے خالق کے درمیان ان کے تعلقات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں، ہاں
اگر وہ اپنے مذہب کی دعوت دینے والے ہوں تو کیونکہ جو اپنے مذہب کی دعوت دیتا ہے اور
اس کی حمایت کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس میں امام بن جاتا ہے، اگرچہ وہ ثقہ ہو، اور پھر
ہم اس سے روایت کرتے ہیں، تو ہم نے اس کے مذہب کی پیروی کے لیے ایک راستہ بنا دیا اور
طالب علم کو اس پر اور اس کے قول پر اعتماد کرنے کی اجازت دے دی۔ لہذا احتیاط یہ ہے
کہ ان میں سے داعی ائمہ کی روایات کو ترک کیا جائے اور اور ان میں سے ثقہ راویوں سے
استدلال کیا جائے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
ولو عمدنا إلى ترك حديث
الأعمش وأبي إسحاق وعبد الملك بن عمير وأضرابهم لما انتحلوا وإلى قتادة وسعيد بن أبي
عروبة وابن أبي ذئب وأشباههم لما تقلدوا وإلى عمر بن ذر وإبراهيم التيمي ومسعر بن كدام
وأقرانهم لما اختاروا فتركنا حديثهم لمذاهبهم لكان ذلك ذريعة إلى ترك السنن كلها حتى
لا يحصل في أيدينا من السنن إلا الشيء اليسير. وإذا استعملنا ما وصفنا أعنا على دحض
السنن وطمسها بل الاحتياط في قبول روايتهم الأصل الذي وصفناه دون رفض ما رووا جملة
اور اگر ہم اعمش، ابو
اسحاق، عبدالملک بن عمیر اور ان کے جیسے لوگوں کی حدیثوں کو ترک کرنے کا ارادہ کریں
کیونکہ انہوں نے جو مذہب اختیار کیا ہے، اور قتادہ، سعید بن ابی عروبة، ابن ابی ذئب
اور ان کے جیسے لوگوں کی حدیثوں کو ترک کرنے کا ارادہ کریں کیونکہ انہوں نے جو تقلید
کی ہے، اور عمر بن ذر، ابراہیم تیمی، مسعر بن کدام اور ان کے ساتھیوں کی حدیثوں کو
ترک کرنے کا ارادہ کریں کیونکہ انہوں نے جو انتخاب کیا ہے، تو اگر ہم ان کے مذہب کی
وجہ سے ان کی حدیثوں کو ترک کر دیں تو یہ تمام سنتوں کو ترک کرنے کا ذریعہ بن جائے
گا یہاں تک کہ ہمارے ہاتھوں میں سنتوں سے صرف ایک معمولی چیز باقی رہ جائے گی۔ اور
اگر ہم نے اس طریقے کو استعمال کیا جس کی ہم نے وضاحت کی ہے تو یہ سنتوں کو رد کرنے
اور انہیں مٹانے میں ہماری مدد کرے گا۔ بلکہ احتیاط یہ ہے کہ ان کی روایتوں کو قبول
کرنے کا اصل اصول وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے، ان کی تمام روایتوں کو رد کیے بغیر۔
)مقدمہ صحيح ابن حبان: جلد 1 صفحہ 114(
امام ابن حبانؒ کا اپنی
صحیح کے مقدمے میں یہ تفصیلی کلام انکا منہج بلکل واضع کررہا ہے کہ بدعتی رواۃ کی روایات
کو رد کریں گے تو اس کے پیچھے بنیادی وجہ کیا ہے؟۔
امام ابن حبانؒ داعی بدعتی
کی روایت کو اس وجہ سے رد کرنے کا کہہ رہے ہیں کہ اگر انکی روایات کو قبول کیا جائے
گا تو لوگ انکی بدعت کی طرف متوجہ ہونگے، اور چونکہ وہ داعی ہے تو اسکے قول کی دعوت
کی وجہ سے گمراہ ہوسکتے ہیں۔ یہ اصل بنیادی وجہ ہے اور جب یہ معاملہ رفع ہوجائے تو
پھر یہ شرط بھی رفع ہوجائے گی۔
بدعتی کی روایت امام ابن
حبانؒ قبول کرتے ہیں اور صریحا کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم بدعتی ہونے کی وجہ سے رواۃ کی
روایات کو رد کریں گے تو ہمارے پاس احادیث کا زخیرہ ضائع ہوجائے گا اور نہایت ہی قلیل
احادیث ہمارے پاس باقی بچیں گی، لہزا اسکا اصل اصول یہی ہے کہ بدعتی رواۃ اگر وہ ثقہ
ہیں تو انکی روایات کو قبول کیا جائے گا، اس میں امام ابن حبانؒ نے روافض کا نام بلخصوص
لیا ہے۔ اور رد صرف انکی روایت کی جائے گی جو داعی ہیں وہ بھی صرف اسی وجہ سے کہ طلباء
انکی بدعت کی طرف راغب ہوکر انکے اقوال پہ عمل نہ شروع کردیں۔ جب یہ چیز موجود نہیں
کہ انکی بدعت کی طرف رغبت ہوسکتی ہے طلباء کی تو انکی روایات کو قبول کیا جاسکتا ہے،
یہی اصل ہے جس کے متعلق امام ابن حبانؒ نے اپنے کلام کے آخر میں اشارہ کیا ہے۔
لہزا امام ابن حبانؒ کے
منہج اور مکمل کلام کو سمجھنا نہایت ضروری ہے، اور جو نواصب اور گمراہ خائن لوگ انکے
اقوال کو انکے منہج سے ہٹا کر استعمال کرتے ہیں تو انکا تعاقب کیا جاسکے۔ خیر یہ چیز
بھی تب ہی ممکن ہے جب مطالعہ کی کثرت ہو، جس سے نواصب کی بریلوی قوم سرے سے پیدل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہزا
یہ ہم نے اس سند کا مکمل دفاع کیا ہے الحمد اللہ اور اصول و قوائد سے جواب دیا ہے کہ
یہ سند بلکل محفوظ اور صحیح و ثابت ہے۔ نواصب کی تحریف اور انکا اصول و منہج سے ہٹ
کر اخذ کی گئی چیزوں پہ بھی انکی پکڑ کی۔ الحمد اللہ۔ اب ہم امام ابن سیرینؒ کے اقوال
کی دیگر معنوی متن کی اسانید آپکے سامنے رکھتے ہیں تاکہ یہ چیز سرے سے ثابت ہوجائے
کہ بریلوی قوم کے یہ نواصب اور انکے اساتذہ سرے سے جہلاء اور خائن ہیں۔ دین کے ساتھ
خیانت کرنا اور اپنے عوام کو گدھے کی دم کے پیچھے لگانا انکا اولین فریضہ ہے۔۔۔۔۔ خیر
ملاحظہ کریں:
دوسری روایت:
امام ابو عبد اللہ نعیم
بن حماد المروزیؒ (المتوفی 228ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا ضمرة، عن ابن شوذب،
عن محمد بن سيرين، أنه ذكر فتنة تكون، فقال: «إذا كان ذلك فاجلسوا في بيوتكم حتى تسمعوا
على الناس بخير من أبي بكر وعمر رضي الله عنهما» ، قيل: يا أبا بكر، خير من أبي بكر
وعمر؟ قال: «قد كان يفضل على بعض الأنبياء»
محمد بن سیرین سے روایت
ہے کہ انہوں نے ایک فتنے کا ذکر کیا اور کہا: جب ایسا ہو تو اپنے گھروں میں بیٹھ جاؤ
یہاں تک کہ تم لوگوں کے بارے میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے بہتر نہ سن لو۔
پوچھا گیا: اے ابو بکر،
ابوبکر اور عمر سے بہتر کون؟
انہوں نے کہا: وہ بعض
انبیاء سے بھی افضل تھے۔
)كتاب الفتن: جلد 1 صفحہ 358 رقم 1036 وسنده صحيح(
اب اس سند میں تو کوئی
شیعہ راوی نہیں۔۔۔ لہزا بریلوی گدھوں کی ناصبیت کی بنیاد اب کس پہ قائم ہوگی؟
خیر اس روایت اور تحریر
کے شروع میں ذکر کی گئی امام ابن سيرينؒ کی روایات کو نقل کرکے امام جلال الدین السیوطیؒ
اسکی اسناد کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
)العرف الوردي: رقم 176 و 177(
تیسری روایت:
امام ابو عبد اللہ نعیم
بن حماد المروزیؒ (المتوفی 228ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا يحيى، عن السري
بن يحيى، عن ابن سيرين، قيل له: " المهدي خير أو أبو بكر وعمر رضي الله عنهما؟
قال: «هو أخير منهما، ويعدل بنبي»
امام ابن سيرينؒ سے پوچھا
گیا کہ: امام مہدیؒ بہتر ہیں یا سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بہتر ہیں؟
انہوں نے کہا: وہ ان دونوں سے بہتر ہیں، اور نبی کے برابر ہیں۔
)كتاب الفتن: جلد 1 صفحہ 356 رقم 1027، وسندہ حسن(
ان روایات کی سند میں
کوئی شیعہ بدعتی راوی موجود نہیں ہے لہزا کیا اب ان کو نواصب کی بریلویوں کی عوام مان
لے گی؟ جبکہ امام سیوطیؒ نے بھی انکو حجت بنایا ہوا ہے انکو صحیح قرار دیا ہے اور پھر
انکی تاویل کی ہے؟؟
بہرحال ثابت ہوا کہ یہ
روایت امام محمد بن سیرینؒ سے صحیح و ثابت ہیں۔ الحمد اللہ۔ اور اب عوام کے سامنے بھی
ان شاء اللہ تعالی یہ چیز بلکل واضع ہوگئی ہوگی کہ اس قول کی سند کو باطل و مردود کہنے
والا خود باطل اور مردود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر ان جہلاء اور
انکے اساتذہ اور ان فیس بکی دانشگردوں اور ان علماء سوء کیلیے ہے جو ان چوزوں کو ان
علوم دین کے ساتھ فراڈ کرنے پہ ابھارتے ہیں اور دین کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ اور طلباء
کو یہ بتانا تھا کہ یہ روایت بلکل صحیح و ثابت ہیں۔ ان لوگوں نے اس امت کے آئمہ اور
احادیث کے رواۃ کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے محدثین کے علم میں جو تحریفات اور بگاڑ پیدا
کیا ہے تو اسکا جواب دینا ضروری ہے۔ اب ان شاء اللہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
ہوچکا ہوگا۔ ہم نے الحمد اللہ ہر چیز کھول کھول کر مخالف کے ہی من پسند اصول کے مطابق
بیان کردی۔ الحمد اللہ تعالی۔
والسلام: شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment