رونا عشق و محبت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے
﴿رونا عشق و محبت کی علامتوں میں سے ایک
علامت ہے﴾
المحدث الفقہی المجتہد الامام ابن
حزمؒ الظاہری (المتوفی 456ھ) لکھتے ہیں:
والبكاء من علامات المحب ولكن
يتفاضلون فيه، فمنهم غزير الدمع هامل الشؤون تجيبه عينه وتحضره عبرته إذا شاء،
ومنهم جمود العين عديم الدمع، وأنا منهم
وكان الأصل في ذلك إدماني أكل الكندر
لخفقان القلب، وكان عرض لي في الصبا، فإني لأصاب بالمصيبة الفادحة فأجد قلبي يتفطر
ويتقطع، وأحس في قلبي غصة أمر من العلقم تحول بيني وبين توفية الكلام حق مخارجه،
وتكاد تشرقني بالنفس أحياناً ولا تجيب عيني البتة إلا في الندرة بالشيء اليسير من
الدمع
اور رونا محبت کی علامات میں سے ہے،
لیکن اس میں لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر
جاتی ہیں اور اور ان کے معاملات لاپرواہ ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں ان کا جواب دیتی
ہیں اور جب وہ چاہتے ہیں تو ان کے آنسو حاضر ہو جاتے ہیں۔ اور ان میں سے کچھ لوگوں
کی آنکھیں آنسوؤں سے خشک و خالی ہوتی ہیں، اور میں انہی میں سے ہوں۔
اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ میں بچپن
سے ہی دل کی دھڑکن کی وجہ سے "لوبان" کھانے کا عادی تھا۔ مجھے بچپن میں
ہی ایک بڑی مصیبت پیش آئی تھی، جس سے میرا دل ٹوٹ گیا اور بکھر گیا۔ اور میں اپنے
دل میں ایک ایسی تلخی محسوس کرتا ہوں جو زہر سے بھی زیادہ تلخ ہے، جو میرے اور
میرے کلام کو اس کے صحیح مخارج کے ساتھ ادا کرنے کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔ اور
کبھی کبھی یہ مجھے گھٹن سے تنگ کر دیتی ہے اور میری آنکھیں بالکل بھی جواب نہیں
دیتیں، سوائے اس کے کہ بہت کم ہی موقعوں پر تھوڑے سے آنسو نکل آتے ہیں۔
(طوق الحمامة في الألفة والألاف: صفحہ 17 و 18)
امام ابن حزمؒ کی محبوبہ نوجوانی میں
ہی وفات پاگئی تھی، انکی دو طرفہ محبت تھی، جس کا انکو بہت زیادہ غم تھا، شاید
امام رحمہ اللہ انہی کا ذکر یہاں کررہے ہیں۔
خیر یہ بتائیں کہ آپ میں کونسی علامت
پائی جاتی ہے؟ میرا معاملہ تو امام ابن حزمؒ جیسا ہے۔
واسلام: شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment