-->

امام ابن حزمؒ کا ایک عرصہ جدائی کے بعد اپنی محبوبہ کو اچانک دیکھنا

 

﴿امام ابن حزمؒ کا ایک عرصہ جدائی کے بعد اپنی محبوبہ کو اچانک دیکھنا﴾

 

المحدث الفقہی المجتہد شان الاندلس الامام ابو محمد ابن حزم الظاہری الاندلسیؒ (المتوفی 456ھ) لکھتے ہیں:

أن كانت عندنا ‌جنازة لبعض أهلنا فرأيتها - وقد ارتفعت الواعية - قائمة في المأتم وسط النساء في جملة البواكي والنوادب، فلقد أثارت وجداً دفيناً وحركت ساكناً، وذكرتني عهداً قديماً، وحباً تليداً، ودهراً ماضياً، وزمناً عافياً، وشهوراً خوالي، وأخباراً توالي، ودهوراً فواني، وأياماً قد ذهبت، وآثاراً قد دثرت، وجددت أحزاني، وهيجت بلابلي، على أني كنت في ذلك النهار مرزءاً مصاباً من وجوه، وما كنت نسيت، ولكن زاد الشجى وتوقدت اللوعة وتأكد الحزن وتضاعف الأسف، واستجلب الوجد ما كان منه كامناً فلباه مجيباً، فقلت قطعة منها: [من الطويل]

يبكي لميت مات وهو مكرم … وللحي أولى بالدموع الذوارف

فيا عجباً من آسف لامرئ ثوى … وما هو للمقتول ظلماً بآسف

 

ہمارے گھر میں کسی کی وفات ہوئی تو نعش کو اٹھاتے وقت میں نے اسے ماتم میں کھڑی عورتوں کے درمیان رونے اور نوحہ کرنے والیوں میں شامل دیکھا، اس نے میرے دفن شدہ جذبات کر ابھار دیا، ایک ساکن (مردہ وجود) کو حرکت دی، مجھے وہ عہد قدیم، دیرینہ محبت، وہ بگڑا ہوا ماضی، وہ عافیت کا زمانہ، وہ مہینے جو گزر گئے، وہ خبریں جو آتی رہی، وہ دور جو بیت گئے، وہ دن جو چلے گئے، اور نشانات جو مٹ گئے، سب ایک ایک کرکے یاد آئے۔ اس نے میرے غم کو تازہ کردیا اور میرے سُروں کو بھڑکا دیا، حالانکہ میں صدمہ میں تھا اور کئی وجوہات سے مصیبت میں تھا، اور میں بھولنے والا نہیں تھا، لیکن غم بڑھ گیا اور دل کی تڑپ سلگھ اٹھی، غم یقینی ہوگیا اور افسوس دوگنا ہوگیا، تو رنج نے ہر اس چیز کو اپنی طرف کھینچ لیا جو اس میں پوشیدہ تھی، تو ميں نے اسے قبول كيا اور اس سے ایک قطعہ کہا: [طويل سے]

آپ مرنے والوں کیلیے روتے ہیں جو معزز تھے

اور زندہ کیلیے آنسو بہانا اس سے زیادہ مستحق ہے

اس پہ تعجب ہے جو مرنے والے کیلیے غمزدہ ہے

اور وہ مظلوم قتل ہونے والے پہ غم نہیں کرتا

(طوق الحمامة في الألفة والألاف: صفحہ 252)

 

ہائے زرا تصور کریں یار، ان الفاظ کو سوچیں زرا، کیا کیفیت رہ رہ کر دل میں اٹھتی ہے، جیسے کوہ و دشت سمٹ آئے ہوں، جیسے مہکتے باغ یکدم ویران سے ہوگئے ہوں، جیسے گاتی کوئل یکدم خاموش سی ہوگئی ہو، جیسے چمکتے مہتاب کو اچانک گرہن لگ گیا ہو، ایسی بےکراہ سے کیفیت اس کلام کو تصور کر کرکے اٹھتی ہے کہ اسے لفظوں میں ڈھالیں تو ڈھل نہ سکیں، اسے مُقرر کریں تو کر نہ سکیں۔ بس بندہ ناچیز دل کے جذبات کے ہاتھوں صرف اسکا ترجمہ ہی لکھ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ قلم ساتھ نہیں دے رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

والسلام: شہزاد احمد آرائیں۔