نماز کیلیے وضو کرنے کے بعد یا دوران نماز اگر پیشاب کے قطرے آنے کا شک ہو تو کیا کرنا چاہیے
﴿نماز کیلیے وضو کرنے کے بعد یا دوران نماز
اگر پیشاب کے قطرے آنے کا شک ہو تو کیا کرنا چاہیے﴾
اگر آپ وضو کرکے تسلی کرنے کے بعد
دوران نماز یا نماز سے پہلے یا بعد میں اس شک کا احساس کرتے ہیں کہ آپ کو پیشاب کے
قطرے آرہے ہیں مگر کوئی قطرہ نہیں آتا تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ یہ
شیطان کا وسوسہ ہوتا ہے جو آپ کو نیکی کے کام کرنے سے روکنے کی کوششیں کررہا ہوتا
ہے، اس حوالے سے احتیاتی تدابیر کریں، تو آپ اپنی نماز اس شک کے بعد بھی جاری رکھ
سکتے ہیں، اور اگر آپ کو اطمینان ہوجائے کہ واقعی قطرہ نکلا ہے تو آپ کو وضو اور
نماز لوٹانی ہوگی۔
بہرحال امام ابن ابی شیبہؒ (المتوفی
235ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا علي بن مسهر عن عبيد الله بن
عمر عن نافع قال كان ابن عمر إذا توضأ نضح فرجه، قال عبيد الله وكان أبي يفعل
ذلك
سیدنا ابن عمرؓ جب وضو کرتے تو اپنی
شرمگاہ پہ چھینٹے مارتے تھے۔
عبید اللہ بن عمرؒ کہتے ہیں کہ میرے
والد بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
(المصنف ابن أبي شيبة - ت الشثري: جلد 2 صفحہ 359 رقم 1791 وسندہ
صحیح)
اسی طرح مزید لکھتے ہیں کہ:
حدثنا حماد بن مسعدة عن يزيد مولى
سلمة: أن سلمة كان ينضح بين جلده، وثيابه
سیدنا سلمہ بن الاکوعؓ اپنی جلد اور
کپڑوں کے درمیان پانی کے چھینٹے مارتے تھے۔
(المصنف ابن أبي شيبة - ت الشثري: جلد 2 صفحہ 359 رقم 1790 وسندہ
صحیح)
مزید لکھتے ہیں کہ:
حدثنا أبو داود عن ابن أبي ذئب قال:
أخبرني أخي قال: سألت القاسم عن البلة أجدها في الصلاة؟ فقال: يا ابن أخي انضحه،
واله عنه، فإنما هو من الشيطان. قال: ففعلت فذهب عني
ابن ابی ذئبؒ کہتے ہیں کہ انہیں انکے
بھائی نے بتایا کہ اس نے تابعی امام قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ سے سوال کیا کہ وہ
نماز میں پیشاب کے قطرے محسوس کرتا ہے؟ تو امام قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ نے کہا:
اے میرے بھتیجے! اس پہ پانی چھڑکو اور اسے نظر انداز کردو کیونکہ یہ شیطان کی طرف
سے ہے۔ انکے بھائی کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا تو یہ چیز مجھ سے دور ہوگئی۔
(المصنف ابن أبي شيبة - ت الشثري: جلد 2 صفحہ 360 رقم 1794)
اسی طرح امام عبد الرزاق (المتوفی
211ھ) لکھتے ہیں:
عبد الرزاق، عن داود بن قيس قال: سألت
محمد بن كعب القرظي قلت: إني أتوضأ وأجد بللا قال: "إذا توضأت فانضح فرجك،
فإن جاءك فقل: هو من الماء الذي نضحت، فإنه لا يتركك حتى يأتيك ويحرجك"
داؤد بن قیسؒ کہتے ہیں کہ میں نے
تابعی امام محمد بن کعب القرظیؒ سے سوال کرتے ہوئے کہا: میں وضو کرتا ہوں اور تری
کو پاتا ہوں۔ تو انہوں نے جواب دیا: جب تم وضو کرو تو اپنی شرمگاہ پہ چھینٹے مار
لیا کرو، پھر وہ (وسوسہ) جب بھی آئے تو یہی کہو کہ یہ اسی پانی سے ہے جو میں نے
چھڑکا تھا، کیونکہ یہ (وسوسہ) تمہیں تمہیں تب تک نہیں چھوڑے گا جب تک تمہیں آ نہ
جائے اور پریشان نہ کردے۔
(المصنف عبد الرزاق - ت الأعظمي: جلد 1 صفحہ 151 رقم 585 وسندہ صحیح)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے مرفوعا بھی
سنن ابن ماجہ وغیرہ میں حدیث مروی ہے جس کی صحت میں علماء کا اختلاف واقع ہوا ہے،
يه روایت مضطرب ہے۔ اسی طرح سیدنا ابن عباسؓ سے بھی ایک اثر مروی ہے وہ بھی ضعیف
ہے۔ اسکے علاوہ مزید کئی آئمہ کرام سے یہ عمل ثابت ہے۔
لہزا جو شخص تسلی سے پیشاب کرکے پھر
وضو کرلیتا ہے تو اسے اس طرح کے وسوسے میں آکے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
بلکہ وضو کے بعد اپنی شرمگاہ پہ چھینٹے مار لینے چاہیے تاکہ یہی احساس ہو کہ یہ
وسوسہ انہیں چھینٹوں کا آرہا ہے، ورنہ شیطان بار بار وسوسہ دلا کر آپکو پریشان
کرتا رہے گا اور آپ کی نماز و عبادت میں خلل واقع ہوتا رہے گا۔
اس تحریر کا اختتام میں امام نوویؒ
الشافعی (المتوفی 676ھ) کے کلام سے کرتا ہوں تاکہ پیشاب کے قطروں کا عملی حل بھی
بتایا جائے کہ کیا احتیاطی تدابیر کرنی چاہیے چناچہ وہ لکھتے ہیں:
وقال إمام الحرمين ويهتم بالاستبراء
فيمكث بعد انقطاع البول ويتنحنح قال وكل أعرف بطبعه قال والنتر ما ورد به الخبر
وهوأن يمر أصبعا ليخرج بقية إن كانت والمختار أن هذا يختلف باختلاف الناس
والمقصود أن يظن أنه لم يبق في مجرى البول شئ يخاف خروجه فمن الناس من يحصل له هذا
المقصود بأدنى عصر ومنهم من يحتاج إلى
تكراره ومنهم من يحتاج إلى تنحنح ومنهم من يحتاج إلى مشي خطوات ومنهم من يحتاج إلى
صبر لحظة ومنهم من لا يحتاج إلى شئ من هذا وينبغي لكل أحد أن لا ينتهي إلى حد
الوسوسة قال أصحابنا وهذا الأدب وهو النتر والتنحنح ونحوهما مستحب فلو تركه فلم
ينتر ولم يعصر الذكر واستنجى عقيب انقطاع البول ثم توضأ فاستئجاءه صحيح ووضوءه
كامل لأن الأصل عدم خروج شئ آخر قالوا والاستنجاء يقطع البول فلا يبطل استنجاءه
ووضوءه الا أن يتيقن خروج شئ
اور امام الحرمینؒ کہتے ہیں: استبراہ
کا احتمام کرنا چاہیے، اس لیے پیشاب بند کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کرنا چاہیے
اور کھانسنا چاہیے۔ اور ہر شخص اپنی طبیعت بہتر جانتا ہے، اور نتر وہ ہے جسکے بارے
میں خبر آئی ہے کہ اگر کچھ باقی رہ جائے تو انگلی کا استعمال کرنا۔ مختار یہ ہے کہ
یہ چیز مختلف لوگوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ اور مقصود یہ ہے کہ آدمی یہ گمان
کرلے کہ پیشاب کی نالی میں کچھ باقی تو نہیں رہ گیا جسکے نکلنے کا خوف ہو، تو
لوگوں میں سے کچھ کو یہ مقصد معمولی سے دباؤ سے حاصل ہوجاتا ہے، اور ان میں سے کچھ
لوگوں کو اسے دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے، اور کچھ کو کھانسنے کی، اور کچھ کو چند قدم
چلنے کی، اور کچھ کو ایک لمحہ صبر کرنے کی، اور کچھ کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت
نہیں ہوتی۔ اور ہر شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ وسوسے کی حد تک نہ پہنچے۔
ہمارے ساتھیوں نے کہا: یہ طریقہ، یعنی
نتر، تنحنح، اور ان کے مشابہ، مستحب ہیں۔ اگر کوئی شخص انہیں چھوڑ دے اور نتر نہ
کرے، اور ذکر کو نہ دبائے، اور پیشاب کے بند ہونے کے فوراً بعد استنجاء کرے، اور
پھر وضو کرے، تو اس کا استنجاء صحیح اور وضو مکمل ہے، کیونکہ اصل یہ ہے کہ اس کے
بعد کچھ اور نہیں نکلے گا۔
انہوں نے کہا: اور استنجاء پیشاب کو
روک دیتا ہے، اس لیے اس کا استنجاء اور وضو باطل نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ یقین نہ
کر لے کہ کچھ اور نکل گیا ہے۔
(المجموع شرح المهذب - ط المنيرية: جلد 2 صفحہ 90 اور 91)
لہزا پیشاب کرنے کے مستحب آداب یہ ہیں
کہ انسان پیشاب کرنے کے بعد یہ تسلی کرے کہ اب پیشاب کا کوئی حصہ پیشاب کی نالی
میں باقی تو نہیں رہ گیا جوکہ بعد میں نکلے، تو اسکے لیے شرمگاہ کو انگلی سے
دبانا، کھانسی کرنا کہ کھانسی کے زور سے باقی حصہ نکل جائے وغیرہ وغیرہ جیسے عمل
کرنے چاہیے تاکہ پیشاب کے جو قطرے باقی بچ جاتے ہیں وہ نکل جائیں۔ یہ کرنا مستحب
عمل ہے تاکہ تسلی حاصل ہوجائے، اسکے بغیر بھی استنجا کرکے وضو کرنا درست ہے۔ لہزا
اب وضو کرنے کے بعد وضو تب تک نہیں ٹوٹے گا جب تک کچھ نکلنے کا یقین نہ ہوجائے،
محض شک کی بنیاد پہ وضو نہیں ٹوٹے گا۔ شک کو رفع کرنے کا طریقہ تحریر کے شروع میں
بتا دیا ہے۔
ھذا ما عندی، واللہ اعلم۔
تحریر و تحکیم: شہزاد احمد آرائیں۔
Post a Comment