-->

علامہ جمال الدین القاسمیؒ اور ضعیف روایت کے متعلق تین مذاہب

 

﴿علامہ جمال الدین القاسمیؒ اور ضعیف روایت کے متعلق تین مذاہب﴾

 

علامہ جمال الدین القاسمیؒ (المتوفی 1332ھ) لکھتے ہیں:

ذكر المذاهب في الأخذ بالضعيف واعتماد العمل به في الفضائل:

ليعلم أن المذاهب في الضعيف ثلاثة:

الأول لا يعمل به مطلقًا؛ لا في الأحكام، ولا في الفضائل. حكاه ابن سيد الناس في عيون الأثر، عن يحيى بن معين، ونسبه في فتح المغيث لأبي بكر بن العربي، والظاهر أن مذهب البخاري ومسلم ذلك أيضًا يدل عليه شرط البخاري في صحيحة، وتشنيع الإمام مسلم على رواة الضعيف كما أسلفناه وعدم إخراجهما في صحيحهما شيئًا منه، وهذا مذهب ‌ابن ‌حزم رحمه الله أيضًا حيث قال في الملل والنحل: "ما نقله أهل المشرق والمغرب أو كافة عن كافة أو ثقة عن ثقة حتى يبلغ إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- إلا أن في الطريق رجلًا مجروحًا بكذب أو غفلة، أو مجهول الحال فهذا يقول به بعض المسلمين ولا يحل عندنا القول به ولا تصديقه ولا الأخذ بشيء منه". ا. هـ.

الثاني: أنه يعمل به مطلقًا قال السيوطي: "وعزى ذلك إلى أبي داود وأحمد لأنهما يريان ذلك أقوى من رأي الرجال".

الثالث: يعمل به في الفضائل بشروطه الآتية وهذا هو المعتمد عند الأئمة. قال ابن عبد البر: "وأحاديث الفضائل لا يحتاج فيها إلى ما يحتج به". وقال الحاكم: "سمعت أبا زكريا العنبري يقول الخبر إذا ورد لم يحرم حلالًا، ولم يوجب حكما، وكان في ترغيب أو ترهيب أغمض عنه وتسوهل في رواته". ولفظ ابن مهدي فيما أخرجه البيهقي في المدخل: "إذا روينا عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في الحلال والحرام والأحكام، شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال وإذا روينا في الفضائل والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد وتسامحنا في الرجال". ولفظ أحمد في رواية الميموني عنه: "الأحاديث الرقائق يحتمل أن يتساهل فيها حتى يجيء شيء فيها حكم". وقال في رواية عباس الدوري عنه: "ابن إسحاق رجل تكتب عنه هذه الأحاديث" -يعني المغازي ونحوها- وإذا جاء الحلال والحرام أردنا قومًا هكذا -وقبض أصابع يده الأربع۔

 

فضائل میں ضعیف روایت پہ کے استعمال اور اس پہ عمل کے اعتماد کے مذاہب کا ذکر:

یہ جان لیں کہ ضعیف روایت کے متعلق تین مذاہب ہیں:

پہلا یہکہ اس پہ مطلقا عمل نہ کرنا، نہ احکام میں اور نہ ہی فضائل میں۔ یہ ابن سید الناس نے "عیون الاثر" میں امام یحیی بن معینؒ سے حکایت کیا ہے، اور "فتح المغیث" میں امام ابو بکر بن العربیؒ کی طرف نسبت کی ہے، اور ظاہر یہی ہے کہ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کا بھی یہی مذہب ہے، اس پہ امام بخاریؒ کی اپنی صحیح میں شرط دلالت کرتی ہے، اور امام مسلمؒ کا ضعیف روایات کے راویوں پہ طعن کرنا جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اور ان دونو نے اپنی صحیح میں ان کچھ بھی تخریج نہیں کیا۔ اور یہی امام ابن حزمؒ کا بھی مذہب ہے جیسا کہ انہوں نے "الملل والنحل" میں کہا ہے:

جو چيز مشرق اور مغرب کے لوگوں نے نقل کی ہو یا سب سے سب تک یا ثقہ سے ثقہ تک یہاں تک یہ نبی اکرم ﷺ تک پہنچ جائے مگر اس کے طریق میں کذب سے مجروح یا غافل یا مجھول الحال لوگ ہوں، تو یہ بات بعض مسلمان کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک ایسا کہنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسکی تصدیق کرنا اور نہ ہی اس سے کوئی چیز اخذ کرنا۔

دوسرا یہکہ کہ اس پہ مطلقا عمل کرنا، امام السیوطیؒ نے کہا: اور اسے امام ابو داؤدؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ وہ اسے لوگوں کی رائے سے قوی سمجھتے ہیں۔

تیسرا یہکہ اس پہ فضائل میں اسکی شرائط کے ساتھ عمل کیا جائے گا اور یہی وہ ہے جس پہ آئمہ کا اعتماد ہے۔ امام ابن عبد البرؒ کہتے ہیں:

احادیثِ فضائل میں ان کی ضرورت نہیں ہے جن سے حجت پکڑی جاتی ہے۔

امام حاکمؒ کہتے ہیں:

میں نے ابو زکریا العنبریؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ: جب کوئی خبر آتی ہے وہ حلال کو حرام نہیں کرتی، اور حکم کو واجب نہیں کرتی، اور وہ ترغیب و ترھیب میں ہو تو اسے درگزر کیا جاتا ہے اور اسکے رواۃ پہ نرمی برتی جاتی ہے۔

اور ابن مہدیؒ کے الفاظ ہیں جنہیں امام بیہقیؒ نے "المدخل" میں درج کیا ہے کہ:

جب ہم رسول اللہ ﷺ سے حلال و حرام اور احکام میں روایت کرتے ہیں تو اسناد میں شدت برتتے ہیں، اور رجال پہ تنقید کرتے ہیں اور جب ہم فضائل، ثواب اور عذاب ميں روايت كرتے هيں تو اسناد ميں آسانی کرتے ہیں اور رجال میں نرمی کرتے ہیں۔

اور امام احمد بن حنبلؒ سے المیمونیؒ کی روایت میں انکے یہ الفاظ ہیں کہ:

رقائق کی احادیث میں یہ ممکن ہے کہ تساہل کیا جائے یہاں تک کہ ان میں کچھ حکم آجائے۔

اور ان سے عباس الدوریؒ کی روایت میں وہ کہتے ہیں:

اور ابن اسحاق ایسے شخص ہیں جن سے یہ احادیث لکھی جاتی ہیں۔ یعنی مغازی اور اسکے مشابہ۔ اور جب حلال و حرام کی بات آتی ہے تو ایسے لوگوں کو رد کرتے ہیں۔ اور انہوں نے اپنی چار انگلیوں کو بھینچ لیا۔

(قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث: صفحه 113 و 114)

 

علامہ جمال الدین القاسمیؒ کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ ضعیف حدیث کو قبول کرنے میں آئمہ کرامؒ کے تین مناہج ہیں، پہلا منہج یہکہ ضعیف کو مطلقا رد کیا جائے گا، انکے مطابق امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ابن العربی المالکیؒ، امام یحیی بن معینؒ اور امام ابن حزمؒ کا یہی منہج ہے۔ اور دوسرا منہج ضعیف کو مطلقا فضائل و احکام میں قبول کرنے کا ہے کہ جب کوئی صحیح یا حسن روایت موجود نہ ہو تو قیاس یا رائے سے بہتر ہے کہ ضعیف کو قبول کرلیا جائے، انہوں نے اس حوالے امام سیوطیؒ کے قول سے امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابو داؤدؒ کا یہ منہج بیان کیا ہے۔ تیسرا منہج ضعیف روایت کو فضائل میں شرائط کے ساتھ قبول کرنے کا ہے اور انکے نزدیک قابل اعتماد منہج ہے۔ جبکہ میرے نزدیک انکا یہ قول درست نہیں بلکہ پہلا منہج ہی قابل اعتماد منہج ہے کہ ضعیف کو مطلقا رد کیا جائے گا۔ کیونکہ ضعیف روایات کو قبول کرنے کی شرائط کے بعد ضعیف روایت کے پاس کچھ باقی بچتا نہیں ہے کہ اسکو شرعی طور پہ حجت مان لیا جائے، لہزا ان شاء اللہ ان شرائط کے متعلق ایک الگ تحریر جلد ہی لکھونگا تو اس چیز کی بھی وضاحت ہوجائے گی۔

 

اس مختصر تحریر کو لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہم نے اس مسئلے میں امام ابن حزمؒ کا کلام تحریر کیا تھا جس پہ ایک برادر نے اعتراض کیا کہ امام ابن حزمؒ تو محدثین کے مخالف ہیں لہزا انکا منہج و کلام بغیر کسی دلیل کے رد ہے۔ ہم انکی جرعت کو سلام کرتے ہیں جو انہوں نے ایسا غلط کلام کیا، بس آج اسی کے پیش نظر ہمیں یہ خیال آیا کہ اس باب میں بھی مناہج کی وضاحت ہونی چاہیے تاکہ اس اجتہادی علم یعنی اصول حدیث کے علم میں احباب کو درست چیز سمجھائی جاسکے کہ یہ اجتہادات کا معاملہ ہے اور امت کے آئمہ مجتہدین کے متعلق اس قسم کا کلام زیب نہیں دیتا۔ لہزا آئمہ کرام سے ہمیشہ اختلاف ادب و احترام اور عاجزی سے کریں، وہ ہم سے ہزاروں درجے اس علم اور دین کے ساتھ مخلص تھے۔ الحمد اللہ۔

 

اور امام ابو داؤد الطیالسیؒ (المتوفی 204ھ) لکھتے ہیں:

حدثنا ‌أبو داود ، قال: حدثنا ‌شعبة ، قال: أخبرني ‌بريد بن أبي مريم ، قال: سمعت ‌أبا الحوراء ، قال: «قلت ‌للحسن بن علي رضي الله عنهما: ما تذكر من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: كان يقول: ‌دع ‌ما ‌يريبك ‌إلى ‌ما ‌لا ‌يريبك، فإن الصدق طمأنينة وإن الكذب ريبة»

 

ابو الحوراء ربیعہ بن شیبانؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے عرض کی کہ آپؑ نے نبی اکرم ﷺ سے کیا یاد کیا ہے؟۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: جس چیز میں تمہیں شک ہو اسے چھوڑ دو اور اس چیز کو اختیار کرو جس میں تمہیں شک نہ ہو، کیونکہ صدق میں طمأنیت ہے اور کذب میں شک و شبہ ہے۔

(مسند أبي داود الطيالسي: جلد 2 صفحہ 499 رقم 1274 وسنده صحيح)

 

لہزا رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان اقدس بھی اس چیز پہ دلالت کرتا ہے اور نص ہے کہ ضعیف روایات جنکے ثابت ہونے کا اعتقاد نہیں تو ان کو چھوڑا جائے گا اور انکو قبول نہیں کیا جائے گا۔ جس روایت کی صحت پہ اطمینان ہوگا تو اسے ہی قبول کیا جائے گا۔ اللہ تعالی تمام احباب کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان اقدس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبراکۃ

تحریر و تحکیم: شہزاد احمد آرائیں۔