اہل الحاد، اہل کفر اور اہل بدعت کے لیے احادیث کی اسناد سے زیادہ سخت چیز کوئی نہیں
﴿اہل الحاد، اہل کفر اور اہل بدعت کے لیے
احادیث کی اسناد سے زیادہ سخت چیز کوئی نہیں﴾
استاد المحدثین امام ابو عبد اللہ
محمد بن عبد اللہ الحاکم النیساپوریؒ (المتوفی 405ھ) فرماتے ہیں:
سمعت أبا نصر أحمد بن سهل الفقيه
ببخارى يقول: سمعت أبا نصر أحمد بن سلام الفقيه يقول: «ليس شيء أثقل على أهل الإلحاد
ولا أبغض إليهم من سماع الحديث وروايته بإسناد»
قال: أبو عبد الله: وعلى هذا عهدنا في
أسفارنا وأوطاننا كل من ينسب إلى نوع من الإلحاد والبدع لا ينظر إلى الطائفة
المنصورة إلا بعين الحقارة، ويسميها الحشوية ،
سمعت الشيخ أبا بكر أحمد بن إسحاق
الفقيه وهو يناظر رجلا، فقال: الشيخ: حدثنا فلان، فقال له الرجل: دعنا من حدثنا،
إلى متى حدثنا، فقال له الشيخ: «قم يا كافر، ولا يحل لك أن تدخل داري بعد هذا» ،
ثم التفت إلينا، فقال: «ما قلت قط لأحد لا تدخل داري إلا لهذا»
ابو نصر احمد بن سلام الفقيه کہتے
ہیں: ملحدین کیلیے حدیث کے سماع اور انکو اسناد کے ساتھ روایت کرنے سے زیادہ کچھ
بھی بھاری اور نفرت انگیز نہیں ہے۔
امام ابو عبد اللہ الحاکمؒ کہتے ہیں:
ہم نے اپنے سفر اور اپنے وطن میں دیکھا ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی قسم کے الحاد اور
بدعت کا انتساب رکھتا ہے وہ طائفہ منصورہ کو حقارت کے علاوہ نہیں دیکھتا اور انہیں
خشویہ کہتا ہے۔
میں نے شیخ ابو بکر احمد بن اسحاق
الفقیہ کو سنا جب وہ ایک شخص سے مناظرہ کررہے تھے، لہزا شیخ نے کہا: حدثنا فلاں،
تو اس شخص نے ان سے کہا: ہمیں حدثنا سے باز رکھو، کب تک حدثنا کہو گے؟ تو شیخ نے
اس سے کہا: اے کافر اٹھو، اسکے بعد تمہارے لیے میرے گھر میں داخل ہونا جائز نہیں،
پھر انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا: سوائے اس کے میں نے کبھی کسی سے نہیں کہا
کہ میرے گھر میں داخل نہ ہو۔
(معرفة علوم الحديث:
صفحہ 4)
معلوم ہوا کہ اہل الحاد یعنی اہل کفر
اور اہل بدعت کے نزدیک احادیث کا سماع انتہائی تکلیف دہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج
بھی آپ کو اہل کفر اور اہل بدعت میں یہ چیز نمایاں نظر آئے گی کہ انکے سامنے آپ
احادیث بیان کریں گے اور ان پہ یہ چیز اس قدر تکلیف دہ اور بھاری ہوتی ہے کہ وہ
جوابا گالیاں تک بکتے ہیں، بعض لوگ خود کو مسلمان تو کہلواتے ہیں مگر انکا بھی
احادیث کو سن کر یہی حال ہوتا ہے کہ بجائے وہ احادیث کی صحت پہ اختلاف کرنے کے
اپنی تکلیف کا اظہار شروع کردیتے ہیں تو دراصل ان میں بھی انہی گروہوں کی خصلتیں
موجود ہیں جنکے متعلق یہاں کلام ہورہا ہے۔ پھر محدثین سے بغض رکھنے اور ان پہ
ناجائز کلام کرنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ انہیں اصل تکلیف احادیث سے ہوتی ہے مگر وہ
چونکہ سرعام احادیث اور اسکے علم کی حقارت تو کر نہیں سکتے لہزا پھر وہ لوگ محدثین
پہ بدزبانی کرتے ہیں۔ اس کے متعلق مام حاکمؒ نے اپنے تمام تر مشاہدے کا نچوڑ بیان
کردیا ہے۔ امام حاکمؒ کے شیخ نے بھی انکار حدیث کی وجہ سے اس شخص کی تکفیر کردی
اور اس کو اپنے پاس آنے تک کو ناجائز قرار دے دیا، لہزا یہ ان لوگوں کیلیے بھی
سوالیہ نشان ہے کہ جنکے سامنے احادیث اور محدثین کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور وہ مزے
لیکر سنتے ہیں اور پھر ساتھ ہی خود کو حدیث کا طالب علم بھی کہتے ہیں، جبکہ محدثین
تو ایسے لوگوں کو اپنے پاس دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ لوگ بھی کہیں نہ
کہیں اس فتنے میں برابر کے شریک ہیں۔ اللہ تعالی انہیں ہدایت دے اور ہمیں بھی اس فتنے
کے شر سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ آمین۔
اور احباب سے التماس ہے کہ وہ اس علم
حدیث کے مستند علماء کی قدر کریں، اور طلباء کی حوصلہ افزائی کیا کریں کہ یہ وہ
لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس علم کیلیے اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین کی حفاظت
کیلیے وقف کی ہوتی ہیں۔ بس آخر میں اتنی ہی گزارش ہی ہے اپنے ذکر خیر اور دعاؤں
میں ہم جیسے ادنی طلباء کو یاد رکھا کریں۔
والسلام: شہزاد احمد آرائیں
Post a Comment