سیدنا زید بن ارقمؓ اور سیدنا ابن عباسؓ کی گواہی کہ سب سے پہلے نماز پڑھنے والے مولا علی المرضیؑ ہیں
﴿سیدنا زید بن ارقمؓ اور سیدنا ابن عباسؓ کی گواہی کہ سب سے پہلے نماز پڑھنے والے مولا علی المرتضیؑ ہیں﴾
ہم نے پچھلی پوسٹس میں سیدنا زید بن ارقمؓ سے یہ بات باسند صحیح نقل کی تھی کہ سیدنا مولا علی
المرتضیؑ سب سے پہلے مسلمان ہیں، یہی قول سیدنا ابن عباسؓ کا بھی ہے۔ سب سے پہلے ہم سیدنا زید بن ارقمؓ کا مکمل قول آپکے سامنے نقل کرتے ہیں پھر ہم سیدنا عبد
اللہ بن عباسؓ کا قول نقل کرتے ہیں۔
֎ امام ابو عبد الرحمن
احمد بن شعيب النسائیؒ (المتوفی 303ھ) لکھتے ہیں:
أخبرنا إسماعيل بن مسعود عن خالد
وهو ابن الحارث قال حدثنا شعبة عن عمرو بن مرة قال سمعت أبا حمزة مولى الأنصار قال
سمعت زيد بن أرقم يقول أول من صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم علي وقال في
موضع آخر أسلم علي۔
ابو حمزہؒ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا زید بن ارقمؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے پہلے
سیدنا مولا علیؑ نے نماز پڑھی اور ایک دوسرے مقام پہ فرمایا کہ سب سے پہلے سیدنا
علیؑ اسلام لائے۔
(خصائص علی للنسائی: رقم
5 وسندہ صحیح)
● خصائص علی پہ تھذیب خصائص امام
علی کے نام سے تحقیق لکھنے والے محقق شیخ ابو اسحق الحوینی بھی اس کی سند پہ بھث
لکھ کر پھر اسکی اسناد کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
● خصائص علی کے محقق شیخ احمد میرین
البوشیؒ بھی اس روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں اور تمام راویوں کو ثقہ کہتے ہیں۔
اسی طرح خصائص علی پہ تحقیق لکھنے والے محقق سید جعفر الحسینی بھی اس روایت کو
صحیح اور تمام راویوں کو ثقہ قرار دیتے ہیں۔
● ناصبی غلام مصطفی ظہیر امن پوری بھی
اردو ترجمے میں اس روایت کو صحیح قرار دیتا ہے اور اسکی اسناد کو حسن۔
֎ امام محمد بن عیسی الترمذیؒ (المتوفی 279ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا محمد بن حميد قال: حدثنا
إبراهيم بن المختار، عن شعبة، عن أبي بلج، عن عمرو بن ميمون، عن ابن عباس، قال:
«أول من صلى علي»
"هذا حديث غريب من هذا الوجه، لا نعرفه من حديث شعبة، عن أبي بلج إلا من حديث
محمد بن حميد، وأبو بلج اسمه: يحيى بن أبي سليم، وقد اختلف أهل العلم في هذا، فقال
بعضهم: أول من أسلم أبو بكر الصديق وقال بعضهم: أول من أسلم علي، وقال بعض أهل
العلم: أول من أسلم من الرجال أبو بكر، وأسلم علي وهو غلام ابن ثمان سنين، وأول من
أسلم من النساء خديجة"
سيدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ پہلے پہل جس نے نماز
پڑھی وہ سيدنا علیؑ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ شعبہ کی یہ حدیث جسے وہ ابوبلج
سے روایت کرتے ہیں ہم اسے صرف محمد بن حمید کی روایت سے جانتے ہیں اور ابوبلج کا
نام یحییٰ بن سلیم ہے۔ اہل علم نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ہے، بعض راویوں نے کہا
ہے کہ پہلے پہل جس نے اسلام قبول کیا ہے وہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ہیں، اور
بعضوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جو اسلام لائے ہیں وہ علی رضی الله عنہ ہیں، اور بعض
اہل علم نے کہا ہے: بڑے مردوں میں جو پہلے پہل اسلام لائے ہیں وہ ابوبکر رضی الله
عنہ ہیں اور علی رضی الله عنہ جب اسلام لائے تو وہ آٹھ سال کی عمر کے لڑکے تھے،
اور عورتوں میں جو سب سے پہلے اسلام لائی ہیں وہ خدیجہ رضی الله عنہا ہیں۔
(سنن الترمذی: رقم 3734
وسندہ ضعیف والحدیث صحیح)
● شیخ ناصر الدین البانیؒ اس روایت کی
تحکیم میں اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
● اسی طرح اشاعت الحدیث ایپ میں شیخ
زبیر علی زئیؒ کی تحکیم حسن نقل کی گئی ہے۔
سنن الترمذی کی سند تو ضعیف ہے مگر یہ حدیث دیگر کتب میں صحیح سند سے موجود
ہے، جیسے کہ:
֎ امام احمد بن حنبلؒ (المتوفی 241ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا سليمان بن داود حدثنا أبو
عوانة عن أبي بلج عن عمرو بن ميمون عن ابن عباس قال: أول من صلى مع النبي - صلى
الله عليه وسلم - بعد خديجة علي، وقال مرة: أسلم
سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سیدہ خدیجہ الکبریؑ کے بعد نماز پڑھنے والے سیدنا
علیؑ ہیں، اور دوسری مرتبہ فرمایا: سب سے پہلے اسلام لانے والے۔
(مسند أحمد - ت شاكر - ط
دار الحديث: جلد 3 صفحہ 476 رقم 3542، صحیح)
● کتاب کے محقق شیخ أحمد محمد شاكرؒ
اسکی اسناد کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
֎ اسی طرح امام ابو داؤد الطیالسیؒ (المتوفی 204ھ) لکھتے ہیں:
وبه عن ابن عباس ، قال: «أول من
صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد خديجة علي»
اسی طرح سیدنا ابن عباسؓ
سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: سب
سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سیدہ خدیجہ الکبریؑ کے بعد نماز ادا کرنے والے سیدنا
علیؑ ہیں۔
(مسند أبي داود
الطيالسي: جلد 4 صفحہ 470 رقم 2876، صحیح)
● کتاب کے محقق محمد بن عبد المحسن
الترکیؒ اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
اسکی سند: حدثنا يونس قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا أبو عوانة ، عن أبي بلج ، عن عمرو
بن ميمون ، عن ابن عباس۔
ابی بلج پہ اعتراض اور اسکا جواب:
پورا نام و کنت: ابو بلج يحيى بن سليم بن بلج الفرازی الواسطی الکوفی۔
جرح و تعدیل:
❶ امام محمد بن سعد الزھریؒ
(المتوفی: 230ھ):
وكان ثقة إن شاء الله
اور ان شاء اللہ یہ ثقہ ہیں۔
(الطبقات الكبرى - ط
الخانجي: جلد 9 صفحہ 313 رقم 4243)
❷ امام محمد بن اسماعيل البخاریؒ (المتوفی 256ھ):
آپ نے تاریخ الکبیر میں انکا ترجمہ قائم کیا اور سکوت اختیار کیا ہے۔
(التاريخ الكبير للبخاري بحواشي محمود خليل: جلد 8 صفحہ 279
رقم 2996)
● امام ابن عدی الجرجانیؒ (المتوفی 365ھ) لکھتے ہیں کہ:
سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري
يحيى بن أبي سليم أبو بلج الفزاري سمع محمد بن حاطب، وعمرو بن ميمون فيه نظر۔
میں نے ابن حماد
کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام بخاری کہتے ہیں کہ یحیی بن ابی سلیم ابو بلج الفرازی
سماع کرتے ہیں محمد بن حاطب سے اور عمرو بن میمون سے۔ اس میں نظر ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال: جلد 9 صفحہ 80 رقم 2128)
❸ ابو اسحاق الجوزجانی (المتوفی 259ھ):
كان يروج الفواخت ليس بثقة
یہ جهوٹ كو فروغ ديتے تهے اور یہ ثقہ نہیں
ہیں۔
(أحوال الرجال: صفحہ 198 رقم 190)
● امام امام ابن عدی الجرجانیؒ (المتوفی 365ھ) لكهتے ہیں:
سمعت ابن حماد يقول: قال السعدي أبو
بلج الواسطي غير ثقة۔
میں نے ابن حماد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ السعدی (جوزجانی) کہتا ہے کہ ابو بلج
الواسطی ثقہ نہیں ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال: جلد 9 صفحہ 80 رقم 2128)
● امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی
852ھ) لکھتے ہیں:
وقال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني وأبو
الفتح الأزدي كان ثقة
اور ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی اور ابو الفتح الازدی نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں۔
(تهذيب التهذيب: جلد 12 صفحہ 47 رقم 184)
❹ امام ابو الحسین مسلم بن الحجاجؒ
(المتوفی 261ھ):
آپؒ بھی انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں اور سکوت فرماتے ہیں۔
(الكنى والأسماء - للإمام مسلم: جلد 1 صفحہ 155 رقم 466)
❺ امام ابن حبانؒ (المتوفی 354ھ):
كان ممن يخطئ، لم يفحش خطؤه حتى استحق
الترك، ولا أتى منه ما لا ينفك منه البشر، فيسلك به مسلك العدول، فأرى أن لا يحتج بما
انفرد من الرواية فقط، وهو ممن أستخير الله فيه۔
یہ خطا کرنے والوں میں سے تھے، انہوں نے فحش خطاء نہیں کی کہ ترک کے مستحق
ہوجائے، اور اس سے ايسا كچه نہیں آیا جس سے انسان بچ نہ سکے، اس
لیے یہ انصاف کا راستہ اختیار کرتے ہیں، لہزا میری رائے یہ ہے کہ اگر صرف یہ روایت
میں منفرد ہو تو احتجاج نہیں کیا جائے گا، وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں
میں نے اللہ سے استخارہ کیا ہے۔
(المجروحين لابن حبان ت حمدي: جلد 2 صفحہ 464 رقم 1195)
● امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی
852ھ) لکھتے ہیں:
قلت وذكره ابن حبان في الثقات وقال
يخطئ
میں کہتا ہوں ہوں کہ اور اسے امام ابن
حبانؒ نے الثقات میں زکر کیا ہے اور کہا یہ خطا کرتا ہے۔
(تهذيب التهذيب: جلد 12 صفحہ 47 رقم 184)
❻ امام ابن عدی الجرجانیؒ (المتوفی 365ھ):
امام ابن عدیؒ انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں تو امام بخاریؒ کا قول اور جوزجانی کا قول
نقل کرتے ہیں اور پھر اسکی روایات نقل کرکے لکھتے ہیں:
قال وهذا عن شعبة غريب ويرويه أبو عوانة أيضا، عن أبي بلج.
ولأبي بلج غير ما ذكرت وقد روى، عن أبي بلج أجلة الناس مثل شعبة، وأبو عوانة وهشيم،
ولا بأس بحديثه.
کہتے ہیں اور یہ شعبہ سے غریب ہے اور ابو عوانہ نے بھی اسی طرح ابو بلج سے
روایت کی ہے۔ اور ابو بلج سے جو مىں نے زكر کیا اسکے علاوہ بھی ہے، اور ابی بلج سے شعبه، ابو عوانه اور هشيم جيسے شاندار لوگوں
نے روایت لی ہے، اور انکی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال: جلد 9 صفحہ 81 رقم 2128)
❼ امام ابو الحسن الدارقطنیؒ الشافعی (المتوفی 385ھ):
امام ابو بکر البرقانیؒ (المتوفی 425ھ) لکھتے ہیں:
قلت يحي بن أبي سليم أبو بلج
قال: واسطي ثقة۔
میں نے امام دارقطنیؒ سے یحیی بن ابی سلیم ابو بلج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے
کہا کہ یہ واسطی ثقہ ہے۔
(سؤالات البرقاني للدارقطني ت القشقري: صفحہ 71 رقم 546)
❽
امام يعقوب
بن سفيان الفسويؒ (المتوفی 277ھ):
كوفي لا بأس به
یہ کوفی ہیں
اور ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق: جلد 3 صفحہ 106)
❾
امام يحیی بن معینؒ (المتوفی 233ه):
امام ابن ابی حاتمؒ (المتوفی 327ھ) لکھتے ہیں:
نا عبد الرحمن قال ذكره أبي عن
إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال: ابوبلج ثقة۔
عبد الرحمن سے روایت ہے کہ میرے والد (امام ابو حاتم الرازیؒ) نے اسحاق بن
منصور کی سند سے یحیی بن معین سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: ابو بلج ثقہ ہیں۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 9 صفحہ 153)
● امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی
852ھ) لکھتے ہیں:
ونقل بن عبد البر وابن الجوزي أن بن
معين ضعفه
اور امام ابن عبد البر اور امام ابن
الجوزیؒ امام ابن معین سے نقل کرتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔
(تهذيب التهذيب: جلد 12 صفحہ 47 رقم 184)
❿ امام ابو حاتم الرازیؒ (المتوفی 277ه):
امام ابن ابی
حاتمؒ (المتوفی 327ھ) لکھتے ہیں:
نا عبد الرحمن قال سألت اپبى عن ابى بلج يحيى بن ابى سليم فقال: هو صالح لا
بأس به۔
عبد الرحمن سے
روايت كه انہوں نے میرے والد سے ابی بلج کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: وہ نیک صالح
ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 9 صفحہ 153)
⓫ امام ابو
الفرج ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ):
قال البخاري فيه نظر وقال أحمد بن حنبل روى حديثا منكرا وقال ابن حبان كان
يخطيء وقال الأزدي كان غير ثقة۔
امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ اس میں نظر ہے، اور امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ
یہ منکر احادیث بیان کرتے ہیں، اور امام ابن حبانؒ کہتے ہیں کہ یہ خطاء کرتے ہیں،
اور الازدی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں ہیں۔
(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي: جلد 3 صفحہ 196 رقم 3719)
● امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی
852ھ) لکھتے ہیں:
وقال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني وأبو
الفتح الأزدي كان ثقة
اور ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی اور ابو الفتح الازدی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں۔
(تهذيب التهذيب: جلد 12 صفحہ 47 رقم 184)
⓬ امام عبد الغنی المقدسیؒ (المتوفی
600ھ):
قال ابن سعد: وكان ثقة، إن شاء الله.
وقال يزيد بن هارون: قد رأيت أبا بلج، وكان جارا لنا، وكان يتخذ الحمام في
البيت؛ يستأنس بهن، وكان يذكر الله كثيرا.
وقال يحيى بن معين: ثقة
وقال الدارقطني: واسطي، ثقة.
وقال أبو حاتم: هو صالح الحديث.
روي له: مسلم، وأبو داود، والترمذي، والنسائي، وابن ماجه
امام ابن سعد کہتے ہیں کہ یہ ان شاء اللہ ثقہ ہیں۔
امام يزيد بن
هارون کہتے ہیں
کہ میں نے ابو بلج کو دیکھا تھا، وہ ہمارے پڑوسی تھے، وہ اپنے گھر میں حمام بناتے
تھے، وہ ان سے انسیت محسوس کرتے تھے، اور وہ کثرت سے اللہ کا زکر کرنے والے تھے۔
امام ٰیحیی بن معین نے ثقہ کہا۔ امام دارقطنی نے کہا کہ واسطی ثقہ ہے، امام
ابو حاتم الرازی نے کہ یہ حدیث میں صالح ہیں۔ ان سے امام مسلم، امام ابو داؤد،
امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت لی ہے۔
(الكمال في أسماء الرجال: جلد 9 صفحہ 331 رقم 6016)
⓭ امام جمال الدین المزیؒ (المتوفی
742ھ):
آپؒ انکا ترجمہ قائم کرکے لکھتے ہیں:
قال إسحاق بن منصور، عن يحيى بن معين:
ثقة
وكذلك قال محمد بن سعد، والنسائي، والدارقطني.
وقال البخاري: فيه نظر
وقال أبو حاتم: صالح الحديث، لا بأس به
اسحاق بن منصور امام یحیی بن معین سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ
ثقہ ہے۔
اور امام محمد بن سعدؒ، امام نسائیؒ اور امام دارقطنیؒ نے بھی یہی کہا ہے۔
اور امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ اس میں نظر ہے۔
اور امام ابو حاتما الرازیؒ کہتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث ہیں، ان سے کوئی حرج
نہیں ہے۔
(تهذيب الكمال في أسماء الرجال: جلد 33 صفحہ 162 رقم 7269)
⓮ امام شمس الدین الذھبی (المتوفی
748ھ):
آپ انکا ترجمہ اپنی مختلف تصانیف میں انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں اور وہی جروحات
نقل کرتے ہیں جو اوپر ہم نقل کرچکے ہیں:
(الكاشف: جلد 2 صفحہ 414
رقم 6549)
(المغني في الضعفاء: جلد 2 صفحہ 6984)
(ديوان الضعفاء: صفحہ 434 رقم 4642)
(تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال: جلد 10 صفحہ 218 رقم
8052)
● المقتنی میں ذھبی انکو لین الحدیث
کہتے ہیں۔
(المقتنى في سرد الكنى: جلد 1 صفحہ 131 رقم 936)
● دوسری جگہ امام ذھبی انکو صالح الحدیث
قرار دیتے ہیں۔
(المجرد في أسماء رجال سنن ابن ماجه: صفحہ 137 رقم 1064)
⓯ امام ابن
کثیرؒ (المتوفی 774ھ):
آپ بھی انکا ترجمہ قائم کرکے مندرجہ بالا اقوال ہی نقل کرتے ہیں۔
(التكميل في الجرح والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء
والمجاهيل: جلد 3 صفحہ 103 رقم 1894)
⓰ امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی
852ھ):
آپ انکا ترجمہ تھذیب التھذیب میں قائم کرتے ہیں اور کافی آئمہ کے ایسے اقوال نقل کرتے
ہیں جو گزشتہ اقوال کے مخلاف ہیں، مثلا آپ جوزجانی اور ازدی کے ضعیف کے قول کے
خلاف انکا ثقہ کا قول نقل کرتے ہیں، اسطرح آپ امام یحیی بن معین سے انکے ضعف کا
قول نقل کرتے ہیں۔
(تهذيب التهذيب: جلد 12
صفحہ 47 رقم 184)
● آپؒ تقریب التھذیب میں ان پہ یہ حکم
لگاتے ہیں:
صدوق ربما أخطأ
صدوق ہیں اور کبھی کبھار غلطی کرتے ہیں۔
(تقريب التهذيب: صفحہ 625 رقم 8003)
● اسی طرح آپ لسان المیزان میں انکا
ترجمہ قائم کرکے امام یحیی بن معین، امام نسائیؒ اور امام دارقطنیؒ کی توثیق نقل کرتے
ہیں۔
(لسان الميزان: جلد 7 صفحہ
432 رقم 8509)
⓱ امام
زین الدین قاسم بن قطلوبغا الحنفی (المتوفی 879ھ):
آپ انکا ترجمہ الثقات میں قائم کرتے ہیں۔
(الثقات ممن لم يقع في
الكتب الستة: جلد 3 صفھہ 145 رقم 2255)
آخر میں ہم امام ابن حجر عسقلانیؒ کی تقریب التھذیب کی تحقیق سے حوالہ نقل کرتے
ہیں کہ:
⓲ شیخ بشار
بن عواد بن معروف اور شیخ شعیب الارنووط تقریب التھذیب کی تحقیق میں لکھتے ہیں:
بل: صدوق حسن الحديث، فقد وثقه ابن
معين، وابن سعد، والنسائي، والدارقطني، وقال أبو حاتم: صالح الحديث لا بأس به،
وقال يعقوب بن سفيان: لا بأس به. وضعفه البخاري والجوزجاني، وقال ابن حبان: كان
ممن يخطئ، لم يفحش خطؤه حتى استحق الترك، ولا أتى منه ما لا ينفك البشر عنه فيسلك
به مسلك العدول، فأرى أن لا يحتج بما انفرد من الرواية، وهو ممن أستخير الله به.
وقال الذهبي: صالح الحديث
بلکہ: یہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔ انہیں امام ابن معین، امام ابن سعد، امام نسائی اور
امام دارقطنی نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اور امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث
ہیں اور ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور امام یعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ ان سے کوئی
حرج نہیں ہے۔ اور امام بخاری اور جوزجانی نے ضعیف کہا ہے۔ اور امام ابن حبان کہتے
ہیں کہ یہ خطا کرنے والوں میں سے تھے، انہوں نے فحش خطاء نہیں کی کہ ترک کے مستحق
ہوجائے، اور اس سے ايسا كچه نہیں آیا جس سے انسان بچ نہ سکے، اس
لیے یہ انصاف کا راستہ اختیار کرتے ہیں، لہزا میری رائے یہ ہے کہ اگر صرف یہ روایت
میں منفرد ہو تو احتجاج نہیں کیا جائے گا، وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں
میں نے اللہ سے استخارہ کیا ہے۔ اور امام ذھبی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں صالح ہیں۔
(تحرير تقريب التهذيب:
جلد 4 صفحہ 164 رقم 8003)
لہزا معلوم ہوا کہ جمھور آئمہ کے نزدیک آپ ثقہ صدوق ہیں۔ اور آپ پہ کی جانے والی
جرح مرجوع ہے۔
جوزجانی کی جرح ویسے ہی خارج ہوجاتی ہے کیونکہ وہ شیعہ اور کوفی راویوں سے اپنی
ناصبیت کی بنا پہ بغض رکھتے تھے اور ان پہ بےجا جروحات کرتے تھے۔
● امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتفی 852ھ) لکھتے ہیں:
وأما الجوزجاني فقد قلنا غير مرة
إن جرحه لا يقبل في أهل الكوفة لشدة انحرافه ونصبه
اور جہاں تک الجوزجانی کا تعلق ہے تو ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اسکی اہل کوفہ پہ
جرح اسکے شدید انحراف اور ناصبیت کی وجہ سے قبول نہیں ہے۔
(فتح الباري لابن حجر: جلد 1 صفحہ 446)
اب باقی صرف امام احمد بن حنبلؒ کی جرح بچتی ہے کہ اسکی روایات میں منکر احادیث
بھی موجود ہیں، جبکہ دلائل سے یہ بات واضع ہے کہ اسکی یہ روایت بلکل محفوظ ہے، نہ
تو اس میں تفرد ہے اور ناہی یہ غریب ہے۔ تفصیل ہم کسی اور مقام پہ عرض کریں گے ان
شاء اللہ۔
معلوم ہوا کہ سیدنا زید بن ارقمؓ
کی حدیث مبارکہ کہ سب سے پہلے
اسلام لانے والے اور نماز ادا کرنے والے مولا علیؑ ہیں، اسکا انکار نواصب کے بڑے
بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ اس روایت میں کوئی علت نہیں ہے۔ لہزا جو لوگ اپنی جہالت کے
پیش نظر اسے شاذ کہہ رہے ہیں انکو چاہیے کہ علم حاصل کریں اور اپنے نفس کی پیروی
کے بجائے عقل کا علاج کروائیں۔ انکے اعتراض کے جواب میں ہم نے سیدنا ابن عباسؓ کا قول بھی بطور شاہد پیش کردیا۔ رہ گئی ان روایات کی بات
جو سیدنا ابو بکر الصدیقؓ
کے متعلق مروی ہیں تو ہمارا ان سے
انکار نہیں، بلاشبہ وہ بھی اول اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ ہم اہل سنت ان روایات
میں تطبیق دیتے ہیں اور انکے ثابت ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رکھتے۔
֎ امام عماد الدین ابن کثیرؒ (المتوفی 774ھ) لکھتے ہیں:
وأما علي، رضي الله عنه، فإنه أسلم
قديما، وهو دون البلوغ على المشهور، ويقال: إنه أول من أسلم. وقد روي في ذلك
حديث عنه ولا يصح، والصحيح أنه أول من أسلم من الغلمان. كما أن خديجة أول من أسلم
من النساء، وأبو بكر الصديق أول من أسلم من الرجال الأحرار، وزيد بن حارثة أول
من أسلم من الموالي۔
اور جہاں تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے، تو وہ بہت پہلے اسلام لے آئے تھے
اور مشہور قول کے مطابق آپ بلوغت کو نہیں پہنچے تھے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب
سے پہلے آپؑ اسلام لیکر آئے، اور اس سلسلہ میں آپ سے ایک حدیث ہے جو صحیح نہیں ہے۔
جبکہ اس میں صحیح یہ ہے کہ آپؑ بچوں میں سب سے پہلے اسلام لائے، سیدہ خدیجہ
الکبریؑ خواتین میں سب سے پہلے اسلام لائی، اور سیدنا ابو بکر الصدیقؓ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے، اور
سیدنا زید بن حارثہؓ آزاد غلاموں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔
(البداية والنهاية ت
التركي: جلد 11 صفحہ 31)
یوں دونو ہستیوں کا اول اسلام لانا درست ہوجاتا ہے۔
تحریر: شہزاد احمد آرائیں۔
اول
Post a Comment